سب سے پهلے نظریه انتظار کے انسانی زندگی میں ضروری هونے کو مختلف لحاظ سے زیر بحث لاتے هیں تاکه یه بخوبی معلوم هو جاۓ که انتظار کیوں کر ضروری هے؟
إنتظارکی ضرورت:
عقيدۃ اساس حياۃ اور زندگی کی بنياد ہے عقيدۃ اور معرفت انسان کے اندر ايک ايسی حالت اور انگيزه پيدا کرديتی هیں جو خود بخود عمل اور کردار کے وجود ميں آنے کا سبب بنتی هیں ، چنانچه جتنا عقیده مستحکم اور معرفت وسیع هو گا اتنا هی عمل پکا اور عملی میدان پائيدار ثابت هو گا اور مختلف قسم کے لغزشوں اور کج فهمیوں سے بچ جاےگا ۔
اور صحیح عقیدے کا حصول صرف اور صرف صحیح معرفت اور شناخت کے ساۓ میں ممکن هے،لھذا حقیقی منتظر وه شخص هو گا جس نے فکری سطح پر یه پهچان لیا هو که جس هستی کے وه منتطر هے وه ذات مظھر آسماۓ إلھی ،واسطه فیض ربانی اور خاتم اوصیاء هیں انکی صحیح معرفت اور شناخت اﷲ تعالی کی معرفت اور شناخت هے -
اور یه بھی جان لے که انتظار اس نفسانی حالت کا نام نهیں جس طرح لغت میں آیا هے بلکه انتظار عمل هے نه صرف عمل نهیں بلکه عقیدۃ هے عقیدۃ حجت خدا کے اس روۓ زمیں پر ظهور کرنے کا اور زمیں کو عدل و إنصاف سے پر کرنے اور هر جگه دستور إلهی نافذ کرنے کا۔ عقیدۃ پرچم توحید کو هر قطعۃ زمین پر لهرانے کا اگر اس عقیدے نے کسی شخص اور مومن کے دل و دماغ میں ریشه ڈال دیا اور اپنا جڑ مضبوط کردیا تو یه عقیدۃ اسے إنسانیت کے دشمن إستعمار کے جارحانه حربوں کے مقابلے پهاڑ کے مانند ڈٹ جانے اور انکے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے میں کامیاب بنائے گا، اور اسے معاشرے میں حقوق اﷲ اور حقوق الناس کے رعایت کرنے ساتھ ایک عادلانه إلهی نظام کے وجود میں لانے إستعماری إیجنڈوں کے خلاف قیام کرنے اور ظلم و بربیت کے خلاف مقاومت اور جان نثاری کرنے پر آمادۃ و تیّار کردے گا ۔
اور انسان کے فکر ودماغ اور کردار پر عقیدۃ انتظار کے معجزه آسا اثر کو مد نظر رکھتے هوۓ إسلام نے انتظار کو عبادت کا مقام دیا هے تو اهل بیت اطهار(ع) نے اسے افضل العبادۃ کها هے چناچه پیغمبر اکرم فرماتے هیں:" إنتظار الفرج عبادة " اسي طرح كسى اور حديث ميں فرماتے هیں:"أفضل اعمال اُمتي إنتظار الفرج "(۱) اور چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے هیں :" إعلموا أنّ المنتظر لهذا الآمر له مثل أجر الصائم القائم " -
جان لو همارے قائم کے انتظار کرنے والے کیلیے صائم النهار اور قائم اللیل کا ثواب حاصل هے-
حوالہ:
۱۔ بحار انوار ج ۵۲ ص ۱۲۲ ج ۲ ص ۳۔