سارے كے سارے مسلمان ایك ایسے "مصلح" كے انتظار میں زندگی كے رات دن گذارے رھے ھیں جس كی خصوصیات یہ ھیں:۔
۱۔عدل و انصاف كی بنیاد پر عالم بشریت كی قیادت كرنا، ظلم و جور، استبداد و فساد كی بساط ھمیشہ كے لئے تہ كرنا۔
۲۔مساوات و برادری كا پرچار كرنا۔
۳۔ایمان و اخلاق، اخلاص و محبّت كی تعلیم دینا۔
۴۔ایك علمی انقلاب لانا۔
۵۔انسانیت كو ایك حیاتِ جدید سے آگاہ كرانا۔
۶۔ھر قسم كی غلامی كا خاتمہ كرنا۔
اس عظیم مصلح كا اسم مبارك مھدی (عج) ھے، پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی اولاد میں ھے۔
اس كتابچے كی تالیف كا مقصد یہ نہیں ھے كہ گزشتہ خصوصیات پر تفصیلی اور سیر حاصل بحث كی جائے، كیونكہ ھر ایك خصوصیت ایسی ھے جس كے لئے ایك مكمل كتاب كی ضرورت ھے۔
مقصد یہ ھے كہ "انتظار" كے اثرات كو دیكھا جائے اور یہ پھچانا جاسكے كہ صحیح معنوں میں منتظر كون ھے اور صرف زبانی دعویٰ كرنے والے كون ھیں، اسلامی روایات و احادیث جو انتظار كے سلسلے میں وارد ھوئی ھیں، یہ انتظار كو ایك عظیم عبادت كیوں شمار كیا جاتا ھے۔؟
غلط فیصلے
سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ھے كہ انتطار كا عقیدہ، كیا ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے یا یہ عقیدہ شكست خوردہ انسانوں كی فكر كا نتیجہ ھے۔؟ یا یوں كہا جائے كہ اس عقیدہ كا تعلق انسانی فطرت سے ھے، یا یہ عقیدہ انسانوں كے اوپر لادا گیا ھے۔؟
بعض مستشرقین كا اس بات پر اصرار ھے كہ اس عقیدے كا تعلق انسانی فطرت سے نہیں ھے بلكہ یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كی پیداوار ھے۔
بعض مغرب زدہ ذھنیتوں كا نظریہ ھے كہ یہ عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ نہیں ھے بلكہ یھودی اور عیسائی طرز فكر سے حاصل كیا گیا ھے۔
مادّہ پرست اشخاص كا كہنا ھے كہ اس عقیدے كی اصل و اساس اقتصادیات سے ھے۔ صرف فقیروں، مجبوروں، ناداروں اور كمزوروں كو بھلانے كے لئے یہ عقیدہ وجود میں لایا گیا ھے۔
حقیقت یہ ھے كہ اس عقیدے كا تعلق انسانی فطرت سے ھے اور یہ ایك خالصِ اسلامی نظریہ ھے، دوسرے نظریات كی وجہ یہ ھے كہ جن لوگوں نے اس عقیدہ كے بارے میں اظھار رائے كیا ھے، اگر ان كو متعصب اور منافع پرست نہ كہا جاسكے تو یہ بات بہر حال مانی ھوئی ھے كہ ان لوگوں كی معلومات اسلامی مسائل كے بارے میں بہت زیادہ محدود ھیں۔ ان محدود معلومات كی بنا پر یہ عقیدہ قائم كرلیا ھے كہ ھم نے سب كچھ سمجھ لیا ھے اور اپنے كو اس بات كا مستحق قرار دے لیتے ھیں كہ اسلامی مسائل كے بارے میں اظھار نظر كریں، اس كا نتیجہ وھی ھوتا ھے جسے آپ ملاحظہ فرما رھے ھیں۔ بدیھی بات ھے كہ محدود معلومات كی بنیادوں پر ایك آخری نظریہ قائم كرلینا كہاں كی عقلمندی ھے، آخری فیصلہ كرنے كا حق صرف اس كو ھے جو مسئلے كے اطراف و جوانب سے باقاعدہ واقف ھو۔
بعض لوگوں كا كہنا ھے كہ ھمیں اس بات سے كوئی سروكار نہیں كہ اس عقیدے كی بنیاد كیا ھے، ھمارا سوال تو صرف یہ ھے كہ اس عقیدے كا فائدہ كیا ھے؟ اور اس كے اثرات كیا ھیں؟
ھم نے جو دیكھا وہ یہ ھے كہ جو لوگ اس عقیدے كو دل سے لگائے ھوئے ھیں وہ ھمیشہ رنج و محن كا شكار ھیں اور ان كی زندگیاں مصائب برداشت كرتے گذرتی ھیں ذمہ داریوں كو قبول كرنے سے بھاگتے ھیں، فساد كے مقابل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رھتے ھیں اور اس كی سعی و كوشش بھی نہیں كرتے كہ فساد ختم بھی ھوسكتا ھے ظلم كا ڈٹ كر مقابلہ بھی كیا جاسكتا ھے، ایسے عقیدے ركھنے والوں كو ایسی كوئی فكر ھی نہیں۔
اس عقیدے كی بنیاد جو بھی ھو مگر اس كے فوائد و اثرات خوش آیند نہیں ھیں یہ عقیدہ انسان كواورزیادہ كاھل بنا دیتا ھے۔
اگر ایك دانش ور كسی مسئلے میں فیصلہ كرنا چاھتا ھےاور صحیح نظریہ قائم كرنا چاھتا ھے تو اس كے لئے ضروری ھے كہ وہ اس مسئلے كے اطراف و جوانب كا باقاعدہ مطالعہ كرے، اس كے بعد ھی كوئی صحیح نظریہ قائم ھوسكتا ھے۔
آئیے پہلے ھم خود اس مسئلے كے مختلف پہلوؤں پر غور كریں كہ اس عقیدے كی بنیاد كیا ھے؟ كیا واقعاً یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كے افكار كا نتیجہ ھے؟ یا اس كی بنیاد اقتصادیات پر ھے؟ یا پھر اس كا تعلق انسان كی فطرت سے ھے؟ اس عقیدے كے اثرات مفید ھیں یا نقصان رساں؟۔
انتظار اور فطرت
بعض لوگوں كا قول ھے كہ اس عقیدے كی بنیاد فطرت پر نہیں ھے بلكہ انسان كے افكار پریشاں كا نتیجہ ھے اس كے باوجود اس عقیدے كی اصل و اساس انسانی فطرت ھے، اس نظریے كی تعمیر فطرت كی بنیادوں پر ھوئی ھے۔
انسان دو راستوں سے اس عقیدے تك پہونچتا ھے۔ ایك اس كی اپنی فطرت ھے اور دوسرے اس كی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ھی انسان كو اس نظریے كی دعوت دیتے ھیں۔
انسان فطری طور پر كمال كا خواھاں ھے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ھے كہ وہ جن چیزوں كو نہیں جانتا ان كے بارے میں معلومات حاصل كرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں كو پسند كرتا ھے اور نیكی كو پسند كرتا ھے۔
بالكل اسی طرح سے انسان میں كمال حاصل كرنے كا جذبہ بھی پایا جاتا ھے۔ یہ وہ جذبہ ھے جو زندگی كے تمام شعبوں پر حاوی ھے، اسی جذبے كے تحت انسان اس بات كی كوشش كرتا ھے كہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل كرسكے كیونكہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل كرے گا اتنا ھی زیادہ اس میں كمال نمایاں ھوگا۔ اسی جذبے كے تحت اس كی یہ خواھش ھوتی ھے كہ لوگوں كے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیكی كرے، انسان فطری طور پر نیك طینت اور نیك اشخاص كو پسند كرتا ھے۔
كوئی بھی یہ نہیں كہہ سكتا كہ یہ تقاضے ایك شكست خوردہ ذھنیت كا نتیجہ ھیں، یا ان كی بنیاد اقتصادیات پر ھے، یا ان كا تعلق وراثت اور ترتیب وغیرہ سے ھے ھاں یہ ضرور ھے كہ وراثت اور ترتیب ان تقاضوں میں قوت یا ضعف ضرور پیدا كرسكتی ھیں لیكن ان جذبات كو ختم كردینا ان كے بس میں نہیں ھے كیونكہ ان كا وجود ان كا مرھونِ منّت نہیں ھے۔ ان تقاضوں كے فطری ھونے كی ایك دلیل یہ بھی ھے كہ تاریخ كے ھر دور اور ھر قوم میں یہ تقاضے پائے جاتے ھیں كیونكہ اگر یہ تقاضے فطری نہ ھوتے تو كہیں پائے جاتے اور كہیں نہ پائے جاتے۔ انسانی عادتوں كا معاملہ اس كے برعكس ھے كہ ایك قوم كی عادت دوسری قوم میں نہیں پائی جاتی، یا ایك چیز جو ایك قوم میں عزّت كی دلیل ھے وھی دوسری قوم میں ذلّت كا باعث قرار پاتی ھے۔
كمال، علم و دانش، اچھائی اور نیكی سے انسان كا لگاؤ ایك فطری لگاؤ ھے جو ھمیشہ سے انسانی وجود میں پایا جاتا ھے، دنیا كی تمام اقوام اور تمام ادوار تاریخ میں ان كا وجود ملتا ھے۔ عظیم مصلح كا انتظار انھیں جذبات كی معراجِ ارتقاء ھے۔
یہ كیوں كر ممكن ھے كہ انسان میں یہ جذبات تو پائے جائیں مگر اس كے دل میں انتظار كے لئے كوئی كشش نہ ھو، انسانیت و بشریت كا قافلہ اس وقت تك كمالات كے ساحل سے ھم كنار نہیں ھوسكتا جب تك كسی ایسے مصلح بزرگ كا وجود نہ ھو۔
اب یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے كہ یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كا نتیجہ نہیں ھے بلكہ انسانی ضمیر كی آواز ھے اس كا تعلق انسان كی فطرت سے ھے۔
ھم یہ دیكھتے ھیں كہ انسانی بدن كا ھر حصہ انسان كے جسمی كمالات پر اثر انداز ھوتا ھے ھمیں كوئی ایسا عضو نہیں ملے گا جو اس كی غرض كے پورا كرنے میں شریك نہ ھو، ھر عضو اپنی جگہ انسانی كمالات كے حاصل كرنے میں كوشاں ھے۔ اسی طرح روحی اور معنوی كمالات كے سلسلے میں روحانی خصوصیات اس مقصد كے پورا كرنے میں برابر كے شریك ھیں۔
انسان خطرناك چیزوں سے خوف كھاتا ھے یہ روحانی خصوصیت انسان كے وجود كو ھلاكت سے بچاتی ھے اور انسان كے لئے ایك سپر ھے حوادث كا مقابلہ كرنے كے لئےغصہ انسان میں دفاعی قوت كو بڑھا دیتا ھے، تمام طاقتیں سمٹ كو ایك مركز پر جمع ھوجاتی ھیں جس كی بناء پر انسان چیزوں كو تباہ ھونے سے بچا تا ھے اور فائدہ كو تباہ ھونے سے محفوظ ركھتا ھے، دشمنوں پر غلبہ حاصل كرتا ھے۔
اسی طرح سے انسان میں روحی اور معنوی طور پر كمال حاصل كرنے كا جذبہ پایا جاتا ھے، انسان فطری طور پر عدل و انصاف، مساوات اور برادری كا خواھاں ھے، یہ وہ جذبات ھیں جو كمالات كی طرف انسان كی رھبری كرتے ھیں۔ انسان میں ایك ایسا ولولہ پیدا كردیتے ھیں، جس كی بناء پر وہ ھمیشہ روحانی و معنوی مدارج ارتقاء كو طے كرنے كی فكر میں رھتا ھے، اس كے دل میں یہ آرزو پیدا ھوجاتی ھے كہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا عدل و انصاف مساوات و برادری، صدق و صفا، صلح و مروت سے بھر جائے ظلم و جور كی بساط اس دنیا سے اٹھ جائے اور ستم و استبداد رختِ سفر باندھ لے۔
یہ بات بھی سب كو معلوم ھے كہ انسان كا وجود اس كائنات سے الگ نہیں ھے بلكہ اسی نظام كائنات كا ایك حصہ ھے، یہ ساری كائنات انسان سمیت ایك مكمل مجموعہ ھے جس میں زمین ایك جزو آفتاب و ماھتاب ایك جزء اور انسان ایك جزء ھے۔
چونكہ ساری كائنات میں ایك نظام كار فرما ھے لھٰذا اگر انسانی وجود میں كوئی جذبہ پایا جاتا ھے تو یہ اس بات كی دلیل ھے كہ اس جذبے كا جواب خارجی دنیا میں ضرور پایا جاتا ھے۔
اسی بناء پر جب ھمیں پیاس لگتی ھے تو ھم خود بخود پانی كی تلاش میں نكل پڑتے ھیں اسی جذبے كے تحت ھمیں اس بات كا یقین ھے كہ جہاں جہاں پیاس كا وجود ھے وھاں خارجی دنیا میں پیاس كا وجود ضرور ھوگا۔ اگر پانی كا وجود نہ ھوتا تو ھرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ھم اپنی كوتاھیوں كی بناء پر پانی تلاش نہ كرپائیں تو یہ اس بات كی ھرگز دلیل نہ ھوگی كہ پانی كا وجود نہیں ھے، پانی كا وجود ھے البتہ ھماری سعی و كوشش ناقص ھے۔
اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل كرنے كا جذبہ پایا جاتا ھے تو ضرور خارج میں اس شے كا وجود ھوگا جس كا علم انسان بعد میں حاصل كرے گا۔
اسی بنیاد پر اگر انسان ایك ایسے عظیم مصلح كے انتظار میں زندگی بسر كر رھا ھے جو دنیا كے گوشے گوشے كو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیكیوں كا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ھے كہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ھے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن كی اس منزلِ كمال تك پہونچ سكتا ھے تبھی تو ایسے عالمی مصلح كا انتظار انسان كی جان و روح میں شامل ھے۔
عالمی مصلح كے انتظار كا عقیدہ صرف مسلمانوں كے ایك گروہ سے مخصوص نہیں ھے بلكہ سارے مسلمانوں كا یہی عقیدہ ھے۔ اور صرف مسلمانوں ھی تك یہ عقیدہ منحصر نہیں ھے بلكہ دنیا كے دیگر مذاھب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ھے۔
اس عقیدے كی عمومیت خود اس بات كی دلیل ھے كہ یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كا نتیجہ نہیں ھے اور نہ ھی اقتصادیات كی پیداوار ھے كیونكہ جو چیزیں چند خاص شرائط كے تحت وجود میں آتی ھیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ھاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت كے حامل ھوتے ھیں كہ ھر قوم و ملّت اور ھر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے كی عمومیت اس بات كی زندہ دلیل ھے كہ اس عقیدے كا تعلق انسان كی فطرت سے ھے۔ انسان فطری طور پر ایك عالمی مصلح كے وجود كا احساس كرتا ھے جب اس كا ظھور ھوگا تو دنیا عدل و انصاف كا مرقع ھوجائے گی۔
- Prev
- Next >>