ابرش کلبی (١) نے آپ سے عرض کی، آپ سچے فرزند رسول(ص) ہیں، پھر ھشام کی طرف متوجہ ھو کر کھا اے بنی امیہ سنو !
بیشک یہ روئے زمین پر رھنے والوں میں سب سے زیادہ زمین و آسمان کا علم رکھنے والے ہیں، جان لو کہ یھی فرزند رسول(ص)ہیں ۔
ابو اسحاق (٢) نے کھا : میں نے ھرگز آپ جیسا کسی کو نھیں دیکھا ۔
عبد اللہ بن عطاء مکی (٣) نے کھا : تمام علماء کا علم امام محمد باقر(ع) کے سامنے نھایت کم ہے اور میں نے حکم بن عتیبہ کو دیکھا کہ باوجود یہ کہ وہ اپنی قوم میں جلیل القدر عالم تھا امام کے سامنے وہ اس بچے کے مانند تھا جو اپنے معلم کے سامنے زانو ادب تھہ کرلے ۔
اسی حکم بن عتیبہ نے قرآن کی اس آیت ''نَّف ذلک لآیات للمتوسمین '' کی تفسیر کرتے ھوئے کھا کہ خدا کی قسم ! محمد بن علی خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں ۔
عبد الملک بن مروان نے حاکم مدینہ کو خط لکھا کہ محمد ابن علی کو قید کر کے میرے پاس بھیجو ۔
حاکم مدینہ نے جواباً خط لکھا کہ یہ میرا جواب آپ کی مخالفت میں نھیں ہے اور نہ آپ کے حکم کو میں رد کر سکتاھوں لیکن میں اس خط میں آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں وہ یہ کہ جس شخص کی گرفتاری کا پ نے ارادہ کیا ہے اس جیسا روئے زمین پر کوئی پرھیزگار ، متقی موجود نھیں ہے ۔
وہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم و اجتھاد اور عبادت میں سب سے زیادہ کوشش کرنے والے ہیں ۔لہذا میں اچھا نھیں سمجھتا کہ انھیں گرفتار کیا جائے آخر میں یہ آیت تحریر کی ''انَّ اللّہ لا یغیّر ما بقوم حتی یغیّروا ما بأنفسھم '' اس آیت سے عبد الملک نے نصیحت لی اور خاموش ھو گیا ۔ (۴)
ھشام بن عبد الملک آپ کے بارے میں کھتا ہے : خدا کی قسم !میں نے کبھی آپ سے جھوٹ نھیں سنا اور یہ بھی کھا: جب تک آپ جیسے افراد قریش میں میں موجودرہیں گے قریش عرب و عجم کی قیادت کرتے رھیں گے ۔
قتادہ بن دعامہ بصری (۵) نے کھا کہ میں بھت سے فقھا کے سامنے گیا ابن عباس کے سامنے بھی لیکن جس طرح میرے دل پر آپ کی ھیبت طاری ھوتی ہے کسی اور کے سامنے نھیں ۔
آپ کے سینوں کو میں علم کے درختوں کے اگنے کا مقام سمجھتا ھوں تو ان درختوں کے پھل آپ کے لئے قرار پائے اور پتے لوگوں کے لئے ۔
شمس الدین محمد بن طولون نے کھا کہ : ابوجعفر محمد بن زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام کا لقب باقرہے اور وہ علم کو شگافتہ کرنے والے ہیں ۔ اور پھر عربی کا یہ شعر پڑھا :
یا باقرَ العلم لِأَھلُ التقُیٰ و خیرُ من لبّی علی الأجبُلِ
محمد بن طلحہ شافعی نے امام باقر علیہ السلام کے بارے میں کھا : وہ علم کو وسعت دینے والے اس کو پھیلانے والے اور بلندی پر لے جانے والے اور اس کو ایجاد کرنے والے ہیں ۔ وہ وہ ہیں کہ جن کا قلب نورانی جن کا علم پاک جن کا نفس طاھر جن کا اخلاق شرافت کا پیکر جن کی زندگی لمحہ لمحہ اطاعت پروردگار میں شمار ھوتی ھو۔ تقویٰ کے مقام پر آپ کے قدم پھاڑوں سے کھیں زیادہ مستحکم تھے آپ ھر قسم کی پلیدی اور نجاست سے دور شان و شوکت والے اور طھارت وپاکیزگی کو منتخب کرنے والے تھے ۔
ابن ابی الحدید نے شرح نھج البلاغہ میں آپ کی تعریف اس طرح کی کہ محمد بن علی بن حسین حجاز میں سید الفقھا تھے کہ جن کے بیٹے جعفر سے لوگوں نے فقہ سیکھا ۔
ابو نعیم اصفھانی نے حلیة الاولیاء میںلکھا : کہ ابو جعفر یعنی محمد ابن علی باقر فرزند رسول ہیں ۔ دین میں بھی اور حسب و نسب میں بھی وہ تمام مشکلات کے باوجود حق بات کو پھنچانے والے ،خوف خدا میں آنسو بھانے والے اور ھر طرح کی خصوصیت دشمنی سے روکنے والے تھے ۔ احمد بن یوسف دمشقی قرمانی نے آپ کی فضیلت یوں بیان فرمائی : فضیلتوں اور بلندیوں کا سر چشمہ امام باقر علیہ السلام ہیں اور انھیں باقر اس لئے کھا گیا ہے کہ وہ علم کوشافتہ کر دینے والے ہیں اس لئے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری نے رسول اکرم(ص) سے روایت نقل کی ہے اے جابر امید ہے کہ تم فرزندان حسین میں سے ایک بیٹے سے ملاقات کروگے کہ جس کا نام میرے نام پر ھوگا وہ علم کو اس طرح شگافتہ کرنے والا ھو گا جیسے شگافتہ کرنے کا حق ہے ۔ اے جابر! جب تم اس سے ملاقات کرو تو ھمارا سلام اُسے پھنچا دینا ۔
امام باقر علیہ السلام اپنے بھائیوں میں سے اپنے والد کے منصب امامت پر فائز تھے ۔
علی بن محمد احمد مالکی جو کہ معروف ہیں ابن صباغ سے انھوں نے امام کے متعلق یوں کھا : کہ محمد ابن علی بن الحسین علم و فضل ،ریاست اور امامت جیسے صفات کے مالک تھے اورآپ کی سخاوت تمام شیعہ سنی کے درمیان مشھور ہے ۔ آپ کثیرالعیال تھے اور معاشی حالات متوسط تھی آپ بھی فضل و احسان میں مشھور ہیں ۔ (۶)
ابن خلکان کھتا ہے : کہ امام باقر رضی اللہ عنہ بارہ اماموں میں سے ہیں ۔ امام باقر عالم ، سید اور بزرگ شخصیت رکھنے والے تھے ۔ (۷)
احمد بن حجر (۸) نے کھا : کہ وہ امام زین العابدین(ع) کے وارث ہیں اور علم و عبادت آپ ھی سے ہے ابو جعفر محمد باقر اس لئے باقر ہیں کہ وہ زمین کو شگافتہ کرنے والے اور اس میں پنھاںچیزوں کو ظاھر کرنے والے ہیں ۔
لھذا آپ علمی پوشیدہ خزانوں کو سب سے زیادہ عیاں کرنے والے، احکام کی حقیقتوں کو بیان کرنے والے ، ظریف نکات کو روشن کرنے والے ہیں اور یہ سب چیزیں وہ ہیں کہ جو سوائے آنکھوں کے اندھے اوربد طینت شخص کے کسی اورپر مخفی نھیں ہیں ۔ اسی وجہ سے آپ کے متعلق کھا گیا ہے کہ وہ علم کو وسعت دینے والے اُسے یکجا کرنے والے ، شھرت دینے والے ، بلند کرنے والے ہیں ۔
دل ان کاپاک ، علم و عمل ان کا شستہ ، نفس ا ن کا طاھر ، خلق ان کا بلند جن کی زندگی کے اوقات خدا کی اطاعت میں گذرے ھوں عارفوں میں جن کا شمار ھو ، ان کے سلسلہ میںوصف بیان کرنے والوں کی زبانیں گنگ ہیں ۔
سیر و سلوک اور معارف میں آپ کے بھت زیادہ اقوال ہیں آپ کی فضیلت کے لئے یھی کافی ہے کہ ابن مدینی نے جابر سے روایت کی ہے کہ انھوں نے اس سے کھا: میں رسول اکرم(ص) کے پاس بیٹھا تھا اور حسین(ع) آپ کی گود میں تھے اور آپ ان سے کھیل رھے تھے ۔پس آپ نے کھا اے جابر! اس حسین سے ایک بیٹا پیدا ھو گا کہ جس کا نام علی ھو گا ۔ جب قیامت کا دن ھو گا اور یہ آواز آئے گی کہ سید العابدین کھاں ہیں تو میرا یہ بیٹا کھڑا ھوجائے گا ۔پھر خدا اسے ایک بیٹا عطا کرے گا اس کا نام محمد ھو گا ۔ اے جابر! جب بھی تم اُسے دیکھو تو ھمارا سلام اُسے پھنچا دینا ۔
محمد امین بغدادی سویدی (۹) نے لکھا کہ جس طرح علم دین ، علوم سنت و سیرت ، فنون و ادب، ابی جعفر ( رضی اللہ عنہ ) سے ظاھر ھوئے ہیں ایسے کسی بھی اولاد حسین(ع) سے ظاھر نھیں ھوئے ۔
حوالہ جات:
١۔ المناقب ،ج٢ ص،٢٨٦ ۔
٢۔اَئمّتنا ،ج١ ،ص٣٩٦ ۔اعیان الشیعہ ،٤ق ٢٠٢۔
٣۔ بحار ،ج١١،ص٨٢۔
۴۔ائمتنا ،ج١، ص ٣٩٤۔
۵۔ المناقب ،ج ١ ،ص٣٩٤۔
۶۔ فصول المھمہ ،ص٢٠١۔
۷۔ وفیات الاعیان ،ج٣،ص٣١٤ ۔
۸۔ صواعق المحرقہ ،ص٣٠٥۔
۹۔سبائک الذھب ،ص٧٢۔