علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جابرجعفی کابیان ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام سے ملاتو
آپ نے فرمایا اے جابرمیں دنیا سے بالکل بے فکرھوں کیونکہ جس کے دل میں دین خالص ھو وہ دنیاکوکچھ نھیں سمجھتا،اور تمھیں معلوم ھوناچاھئے کہ دنیاچھوڑی ھوئی سواری اتاراھواکپڑا اور استعمال کی ھوئی عورت ہے مومن دنیاکی بقاسے مطمئن نھیں ھوتا اوراس کی دیکھی ھوئی چیزوں کی وجہ سے نورخدااس سے پوشیدہ نھیں ھوتا مومن کوتقوی اختیارکرناچاھئے کہ وہ ھروقت اسے متنبہ اوربیدارکھتاہے سنودنیاایک سرائے فانی ہے "نزلت بہ وارتحلت منہ " اس میں آناجانالگارھتاہے آج آئے اورکل گئے اوردنیاایک خواب ہے جوکمال کے ماننددیکھی جاتی ہے اورجب جاگ اٹھے توکچھ نھیں …
آپ نے فرمایا: تکبربھت بری چیزہے ،یہ جس قدرانسان میں پیداھوگا اسی قدراس کی عقل گھٹے گی ،کمینے شخص کاحربہ گالیاں بکناہے ۔
ایک عالم کی موت کوابلیس نوے عابدوں کے مرنے سے بھتر سمجھتا ہے ایک ھزار عابد سے وہ ایک عالم بھتر ہے جو اپنے علم سے فائدہ پھنچارھاھو۔
میرے ماننے والے وہ ہیں جواللہ کی اطاعت کریں آنسوؤں کی بڑی قیمت ہے رونے والا بخشاجاتاہے اورجس رخسارپر آنسوجاری ھوں وہ ذلیل نھیں ھوتا۔
سستی اور زیادہ تیزی برائیوں کی کنجی ہے ۔
خداکے نزدیک بھترین عبادت پاک دامنی ہے انسان کو چاھئے کہ اپنے پیٹ اور اپنی شرمگاھوں کومحفوظ رکھیں۔
دعاسے قضابھی ٹل جاتی ہے ۔ نیکی بھترین خیرات ہے۔
بدترین عیب یہ ہے کہ انسان کواپنی آنکھ کی شھتیر دکھائی نہ دے،اور دوسرے کی آنکھ کا تنکانظرآئے ،یعنی اپنے بڑے گناہ کی پرواہ نہ ھو، اوردوسروں کے چھوٹے عیب اسے بڑے نظر آئیں اور خودعمل نہ کرے، صرف دوسروں کوتعلیم دے۔
جو خوشحالی میں ساتھ دے اورتنگ دستی میں دور رھے ،وہ تمھارابھائی اور دوست نھیں ہے (۱) ۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ جب کوئی نعمت ملے تو کھو" الحمدللہ " اورجب کوئی تکلیف پھنچے توکھو"لاحول ولاقوة الاباللہ" اورجب روزی تنگ ھوتو کھو "استغفراللہ" ۔
دل کو دل سے راہ ھوتی ہے،جتنی محبت تمھارے دل میں ھوگی ،اتنی ھی تمھارے بھائی اور دوست کے دل میں بھی ھوگی ۔
تین چیزیں خدا نے تین چیزوں میں پوشیدہ رکھی ہیں :
۱ ۔ اپنی رضااپنی اطاعت میں ،کسی فرمانبرداری کوحقیرنہ سمجھو شایداسی میں خداکی رضاھو۔
۲ ۔ اپنی ناراضی اپنی معصیت میں، کسی گناہ کومعمولی نہ جانو توشایدخدا اسی سے ناراض ھوجائے۔
۳ ۔ اپنی دوستی یااپنے ولی، مخلوقات میں کسی شخص کو حقیرنہ سمجھو، شایدوھی ولی اللہ ھو۔ (۲) ۔
احادیث آئمہ میں ہے امام محمدباقرعلیہ السلام فرماتے ہیں انسان کوجتنی عقل دی گئی ہے اسی کے مطابق اس سے قیامت میں حساب وکتاب ھوگا۔
ایک نفع پھنچانے والاعالم سترھزارعابدوں سے بھترہے ،عالم کی صحبت میں تھوڑی دیربیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بھترہے خدا ان علماء پر رحم و کرم فرمائے جواحیاء علم کرتے اور تقوی کو فروغ دیتے ہیں ۔
علم کی زکواة یہ ہے کہ مخلوق خداکو تعلیم دی جائے ۔ قرآن مجید کے بارے میں تم جتناجانتے ھو اتناھی بیان کرو۔
بندوں پرخداکا حق یہ ہے کہ جوجانتاھو اسے بتائے اورجو نہ جانتاھواس کے جواب میں خاموش ھوجائے ۔ علم حاصل کرنے کے بعداسے پھیلاو،اس لیے کہ علم کوبند رکھنے سے شیطان کاغلبہ ھوتاہے ۔
معلم اورمتعلم کا ثواب برابرہے۔جس کی تعلیم کی غرض یہ ھوکہ وہ … علماء سے بحث کرے ،جھلا پررعب جمائے اورلوگوں کواپنی طرف مائل کرے وہ جھنمی ہے ،دینی راستہ دکھلانے والا اورراستہ پانے والا دونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابرہیں۔ جودینی راستہ دکھلانے والا اور راستہ پانے والا دونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابرہیں ۔
جودینیات میں غلط کھتاھواسے صحیح بنادو، ذات الھی وہ ہے، جوعقل انسانی میں نہ سماسکے اورحدودمیں محدودنہ ھوسکے ۔
اس کی ذات فھم و ادراک سے بالاتر ہے خداھمیشہ سے ہے اور ھمیشہ رھے گا، خداکی ذات کے بارے میں بحث نہ کرو،ورنہ حیران ھو جاؤگے ۔ اجل کی دو قسمیں ہیں ایک اجل محتوم،دوسرے اجل موقوف، دوسری سے خداکے سواکوئی واقف نھیں، زمین حجت خداکے سواکوئی واقف نھیں ،زمین حجت خداکے بغیرباقی نھیں رہ سکتی۔
امت بے امام کی مثال بھیڑ کے اس گلے کی ہے،جس کا کوئی بھی نگران نہ ھو۔
امام محمدباقرعلیہ السلام سے روح کی حقیقت اور ماھیت کے بارے میں پوچھاگیا توفرمایاکہ روح ھواکی مانندمتحرک ہے اوریہ ریح سے مشتق ہے ، ھم جنس ھونے کی وجہ سے اسے روح کھاجاتاہے یہ روح جو جانداروں کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ،وہ تمام ریحوں سے پاکیزہ ترہے۔
…روح مخلوق اورمصنوع ہے اورحادث اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ھونے والی ہے۔
…وہ ایسی لطیف شئے ہے جس میں نہ کسی قسم کی گرانی اورسنگینی ہے نہ سبکی، وہ ایک باریک اوررقیق شئے ہے جوقالب کثیف میں پوشیدہ ہے،اس کی مثال اس مشک جیسی ہے جس میں ھوا بھردو،ھوا بھرنے سے وہ پھول جائے گی لیکن اس کے وزن میں اضافہ نہ ھوگا۔۔ روح باقی ہے اور بدن سے نکلنے کے بعد فنا نھیں ھوتی، یہ نفخ صور کے وقت ھی فناھوگی۔
آپ سے خداوندعالم کے صفات کے بارے میں پوچھاگیا توآپ نے فرمایا،کہ وہ سمیع و بصیر ہے اور آلہ سمع و بصرکے بغیرسنتا اور دیکھتاہے،رئیس معتزلہ عمربن عبیدنے آپ سے دریافت کیاکہ"من یحال علیہ غضبی" ابوخالد کابلی نے آپ سے پوچھاکہ قول خدا"فامنواباللہ ورسولہ والنورالذی انزلنا" میں،نورسے کیامرادہے؟آپ نے فرمایا"واللہ النورالائمة من آل محمد" خداکی قسم نورسے ھم آل محمدمرادہیں۔
آپ سے دریافت کیاگیاکہ "یوم ندعواکل اناس بامامھم "سے کون لوگ مرادہیں آپ نے فرمایا:وہ رسول اللہ ہیں اوران کے بعدان کی اولادسے آئمہ ھوں گے، انھیں کی طرف آیت میں اشارہ فرمایاگیاہے جوانھیں دوست رکھے گااوران کی تصدیق کرے گاوھی نجات پائے گااورجو ان کی مخالفت کرے گاجھنم میں جائے گا۔
ایک مرتبہ طاؤس یمانی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضرھوکریہ سوال کیا:
وہ کونسی چیزہے جس کاتھوڑااستعمال حلال تھا اورزیادہ استعمال حرام؟
آپ نے فرمایا: وہ نھرطالوت کاپانی تھاجس کاصرف ایک چلو پیناحلال تھا اوراس سے زیادہ حرام۔
پوچھا وہ کون ساروزہ تھاجس میں کھاناپیناجائزتھا؟
آپ نے فرمایا: وہ جناب مریم کا روزہ صمت تھا جس میں صرف نہ بولنے کاروزہ تھا ،کھاناپیناحلال تھا۔
پوچھا وہ کون سی شئے ہے جوصرف کرنے سے کم ھوتی ہے بڑھتی نھیں؟
آپ نے فرمایا: وہ عمرہے ۔
پوچھاوہ کون سی شئے ہے جوبڑھتی ہے گھٹتی نھیں ؟
آپ نے فرمایا:وہ سمندرکاپانی ہے ۔
پوچھاوہ کونسی چیزہے جوصرف ایک باراڑی پھرنہ اڑی؟
آپ نے فرمایا:وہ کوہ طورہے جوایک بارحکم خداسے اڑکربنی اسرائیل کے سروں پرآگیاتھا۔
پوچھاوہ کون لوگ ہیں جن کی سچی گواھی خدانے جھوٹی قراردی؟
آپ نے فرمایا:وہ منافقوں کی تصدیق رسالت ہے جودل سے نہ تھی۔
پوچھابنی آدم کا ۱/۳ حصہ کب ھلاک ھوا؟
فرمایا:ایساکبھی نھیں ھوا،تم یہ پوچھوکہ انسان کا ۱/۴ حصہ کب ھلاک ھواتومیں بتاؤں کہ یہ اس وقت ھواجب قابیل نے ھابیل کوقتل کیا،کیونکہ اس وقت چارآدمی تھے آدم،حوا،ھابیل اورقابیل ،پوچھاپھرنسل انسانی کس طرح بڑھی فرمایا: جناب شیث سے جوقتل ھابیل کے بعدبطن حواسے پیداھوئے۔
امام محمدباقرعلیہ السلام کی شھادت
آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رھے تھے لیکن اس کے باوجود ھشام بن عبدالملک نے آپ کو زھرکے ذریعہ شھیدکرا دیا اورآپ بتاریخ ۷ ذی الحجہ ۱۱۴ ھجری یوم دوشنبہ مدینہ منورہ میں انتقال فرما گئے اس وقت آپ کی عمر ۵۷ سال کی تھی آپ جنت البقیع میں دفن ھوئے۔ (۳)
علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی فرماتے ہیں "مات مسموماکابیہ" آپ اپنے پدربزرگوار امام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زھر سے شھیدکردیئے گئے۔ (۴)
آپ کی شھادت ہشام کے حکم سے ابراھیم بن ولید والی مدینہ کی زھر خورانی کے ذریعہ واقع ھوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ھشام بن عبدالملک کی مرسلہ زھرآلود زین کے ذریعہ سے واقع ھوئی تھی۔ (۵)
شھادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بھت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اور کھا کہ بیٹا میرے کانوں میں میرے والد ماجد کی آوازیں آرھی ہیں وہ مجھے جلدبلا رھے ہیں۔ (۶) ۔ آپ نے غسل و کفن کے متعلق خاص طور سے ھدایت کی کیونکہ امام راجز امام نشوید امام کوامام ھی غسل دے سکتا ہے۔ (۷)
علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی فرمایا کہ ۸۰۰ درھم میری عزاداری اور میرے ماتم پرصرف کرنا اور ایسا انتظام کرناکہ دس سال تک منیٰ میں حج کے زمانہ میری مظلمومیت کا ماتم کیاجائے۔ (۸)
علماء کابیان ہے کہ وصیتوں میں یہ بھی تھا کہ میرے بندھائے کفن قبر میں کھول دینا اورمیری قبر چارانگل سے زیادہ اونچی نہ کرنا۔(۹)
حوالے جات:
۱۔ مطالب السؤل ص ۲۷۲۔
۲۔ نورالابصار ص ۱۳۱ ،اتحاف ص ۹۳۔
۳۔ کشف الغمہ ص ۹۳ ،جلاء العیون ص ۲۶۴ ،جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ ص ۴۴۹ ،انوارالحسینہ ص ۴۸ ، شواھدالنبوت ص ۱۸۱ ، روضة الشھداء ص ۴۳۴۔
۴۔ نورالابصار ص ۳۱ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰۔
۵۔ جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۸۔
۶۔ نورالابصار ص ۱۳۱۔
۷۔ شواھدالنبوت ص ۱۸۱۔
۸۔ جلاء العیون ص ۲۶۴۔
۹۔ جنات الخلود ص ۲۷۔