مرتضٰی مطھری 3 فروری 1920ء بمطابق 12 جمادی الاول 1338 ھ مطابق 13 بھمن 1299 شمسی کو فریمان گاوں کے ایک علمی و مذھبی گھرانے میں پیدا ھوئے۔ ان کے والد شیخ محمد حسین اس گاوں کی مشھور مذھبی شخصیات میں سے تھے۔
آیت اللہ مرعشی نجفی کی رائے میں وہ ایک بے نظیر شخصیت کے مالک تھے۔ شھید مطھری اپنے والد کے بارے میں کھتے ہیں: جھاں تک مجھے یاد ہے میں نے کم از کم چالیس سال پھلے سے دیکھا ہے کہ یہ شریف انسان رات کو تین گھنٹے سے زیادہ نھیں سوتا، وہ انتھائی فراغت اور سکون کے ساتھ نماز تھجد ادا کرتا ہے۔ کوئی ایسی رات نھیں کہ جس میں انھوں نے اپنے ماں باپ کے لئے دعا نہ کی ھو۔ مرتضٰی مطھری کی ماں بھی ایک پرھیزگار خاتون تھیں۔ جو انتھائی قوی حافظے اور قوت بیان کی مالکہ تھیں۔ وہ اپنے گاوں کی عورتوں کا علاج بھی کرتی تھیں۔
بقول مرتضٰی مطھری ان کے والد ساٹھ سال تک لوگوں کے روحانی طبیب اور ان کی والدہ کئی سال تک لوگوں کی جسمانی طبیب رھی ہیں۔ یہ پرھیزگار خاتون حاملہ ھونے کے ساتویں مھینے میں خواب دیکھتی ہیں کہ وہ اپنے محلے کی مسجد میں کچھ خواتین کے درمیان بیٹھی ھوئی ہیں، ایک بزرگ خاتون کہ جن کے ساتھ دو اور خواتیں بھی ہیں، مسجد میں داخل ھوتی ہیں اور اس بزرگ خاتون کے حکم پر وہ نمازیوں کے سروں پر عرق گلاب چھڑکتی ہیں، جب شھید مرتضٰی کی والدہ کی باری آتی ہے تو ان کے سر پر بھت زیادہ عرق گلاب چھڑکتی ہیں، جب سبب پوچھتی ہیں تو جواب ملتا ہے کہ تیرے پیٹ میں موجود بچہ اسلام کے لئے بھت زیادہ خدمات انجام دے گا۔
مرتضٰی بچپن ھی سے ذھین تھے، ان میں عام بچوں جیسی شرارتیں نھیں دیکھی جاتی کہ جن کی وجہ سے سے والدین بھی پریشان ھوتے ہیں کہ کھیں ان کا بچہ نفسیاتی مشکلات میں گرفتار نہ ھو۔ کتاب میں دلچسپی پانچ سال کی عمر میں ھی مرتضٰی میں دیکھی جانے لگی، جب وہ والد کے کتابخانے میں جاتے تو ترتیب سے رکھی ھوئی کتابوں کو خراب کرتے۔ مرتضٰی نے بارہ سال کی عمر تک فریمان میں اپنے والد کے پاس اسلامی علوم کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصے بعد مشھد چلے گئے۔ ان کے علم و دانش و مسلسل محنت نے انھیں نھایت کم عمری میں ھی ایک محبوب طالب علم بنا دیا تھا۔ گھریلو پریشانی کے باعث 1935ء کو دوبارہ فریمان واپس آجاتے ہیں اور اپنے والد کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ خود شھید کی زبانی کہ اکثر تاریخی مطالعات انھی دو سالوں میں انجام پائے تھے۔
1936ء میں مرتضٰی مطھری تحصیل علم کے لئے قم کی طرف سفر کا عزم کرتے ہیں۔ پھلے ایک دو سال مرتضٰی کو مناسب کمرہ نہ مل سکا اور مجبوراً مدرسہ فیضہ کے مشرقی حصے میں ایک نامناسب کمرے میں رھنے لگے۔ قم میں تعلیم کے شروع کرتے ھی ان کے ذھن میں مطالعہ کائنات کے بارے میں سوالات اٹھنے لگتے ہیں اور یہ افکار اس قدر اثر انداز ھوتے ہیں کہ وہ تنھائی پسند ھو جاتے ہیں اور ان میں تنھائی میں غور و فکر کا شدید میلان پیدا ھو جاتا ہے۔
مرتضٰی مطھری آیت اللہ سید محقق یزدی معروف بہ داماد کے پاس مکاسب اور کفایہ پڑھتے ہیں اور ایک سال تک آیت اللہ حجت کوہ کمری کے درس خارج میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح آیات عظام سید صدر الدین صدر، محمد تقی خوانساری، گلپایگانی، شھاب الدین مرعشی نجفی سے بھی علمی استفادہ کرتے ہیں۔
جب 1944ء میں آیت اللہ بروجردی قم تشریف لے آئے تو شھید مطھری دس سال تک ان کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کرتے ہیں اور انھی دنوں میں وہ میرزا مھدی آشتیانی کے درس فلسفہ سے بھی بھرہ مند ھوتے ہیں۔
شھید مرتضٰی مطھری کے ھم کلاسوں میں آیت اللہ منتظری نے زیادہ وقت مطھری کے ساتھ گذرا ہے۔ تقریباً گیارہ سال تک وہ ایک ھی کمرے میں زندگی گزارتے اور علمی مباحثے کرتے رھے۔ 1941ء کی سرگرمیوں میں مطھری اصفھان چلے جاتے ہیں، جھاں شھید ایک عظیم استاد الحاج علی آقا شیرازی جو نھج البلاغہ کے استاد تھے، سے آشنا ھوتے ہیں۔ اسی استاد کو شھید عالم ربانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مطھری کی نظر میں نھج البلاغہ کے نصیحت آموز مضامین استاد کی جان اور روح کی گھرائیوں تک اثر انداز ھوچکے تھے۔ نھج البلاغہ سے ارادت اس قدر تھی کہ پڑھتے ھوئے آنکھوں سے آنسو جاری ھو جاتے۔ شھید نقل کرتے ہیں: ان کے حضور میں اپنے گراں بھا ذخائر میں شمار کرتا ھوں، جن کو میں کسی چیز کے ساتھ تبدیل کرنے کو تیار نھیں، ایسا دن یا رات نھیں، جب ان کی یاد میری نظروں کے سامنے مجسم نہ ھو جائے اور میں انھیں یاد نہ کروں۔
طالب علمی کے آغاز میں ھی شھید مطھری، امام خمینی کے درس اخلاق میں جانے لگے تھے، شھید اکثر دروس میں خاموش رھتے تھے جبکہ آیت اللہ منتظری زیادہ بحث و مباحثہ اور علمی اعتراضات کرتے تھے۔ مطھری امام کے درس فلسفہ میں شرکت کرتے ہیں۔ شھید نقل کرتے ہیں، جو درس اخلاق میری پسندیدہ شخصیت ہھر جمعرات اور جمعہ کو دیتی تھی، وہ فقط خشک علمی درس اخلاق نہ تھا بلکہ درحقیقت معارف اور سیر و سلوک کا درس تھا، جس نے مجھے سر مست کر دیا۔ انھی دنوں میں امام خمینی عرفان کا خصوصی درس بھی دیتے تھے کہ جس میں مطھری، منتظری، مرتضٰی حائری وغیرہ شرکت کرتے تھے۔
علامہ طباطبائی 1946ء کو قم تشریف لے آتے ہیں اور ایک گمنام طالب علم کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ علامہ درس (شفا) شروع کرتے ہیں اور شھید مطھری علامہ کے درس میں شرکت اور ان کی بحث کے شیفتہ اور مجذوب ھو جاتے ہیں۔ شھید، علامہ کے مطالب کو ایک جدید بیان کے ساتھ پیش کرتے، جسکی وجہ سے تمام حاضرین کلاس ان کی باتوں کو غور سے سنتے تھے۔
شھید مطھری جن دنوں حوزہ علمیہ میں تحصیل علم میں مشغول تھے، ان ایام میں تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ عربی ادب، فلسفہ، منطق، کلام اور مکاسب و کفایہ کی تدریس بھی کرتے تھے۔ 1950ء میں شھید مطھری ایک خراسانی عالم دین آیت اللہ روحانی کی بیٹی سے شادی کرتے ہیں۔
1950ء میں علامہ طباطبائی فلسفہ کے جدید مسائل کے بارے خصوصی درس و بحث شروع کرتے ہیں، یھی دروس بعد میں شھید مطھری کے فکری محور کے ھمراہ (اصول فلسفہ و روش رئالیسم) نامی کتاب کی شکل میں تبدیل ھوجاتے ہیں۔
26 ستمبر 1955ء کو تھران یونیورسٹی کے شعبہ معقول و منقول میں معلم کی حثیت سے کام شروع کر دیتے ہیں۔ قم سے تھران منتقل ھونے کے ساتھ ھی شھید مطھری بھت زیادہ ثقافتی اور اجتماعی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔
تھران یونیورسٹی اور مدرسہ مروی میں پڑھانے کے علاوہ (مکتب تشیع اور مکتب اسلام) جیسے بعض رسائل کے ساتھ قلمی تعاون شروع کرتے ہیں۔ 5 جون 1963ء کی اسلامی تحریک میں شھید مطھری گرفتار اور جیل بھیج دیئے جاتے ہیں۔ ان کی گرفتاری کا سبب ان کی وہ سخت تقریر تھی، جو انھوں نے اسی رات کی تھی۔ ان کی زوجہ محترمہ ان کی عبا کو تبدیل کرتی ہیں، چونکہ شھید مطھری دروازہ کھولنے گئے تو ساواکی شھید مطھری کو لباس تبدیل کرنے کی بھی اجازت نھیں دے رھے تھے، شھید اپنے لباس کے بارے میں اپنی زوجہ سے کھتے ہیں، درحالیکہ ان کی قبا کی جیب اعلانات، ٹیلی فون نمبرز کی ڈائری اور دوسری اسناد سے بھری ھوئی تھی، لیکن زوجہ محترمہ دوسری قبا لا کر دیتی ہیں۔ شھید مطھری چالیس دن تک زندان میں رھے اور آخر کار 17 جولائی 1963ء کو زندان سے آزادی ملی۔
شھید مطہھری علمی سطح بلند کرنے اور اپنے مدنظر مقاصد کی تکمیل کے لئے حسینہ ارشاد میں بھت زیادہ سرگرم عمل ھوجاتے ہیں۔ لیکن آخر کار ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جن کی وجہ سے شھید مطھری مجبوراً حسینہ ارشاد سے کنارہ گیری کرتے ہیں۔
شھید مطھری جوانی ھی سے تھجد گزار اور شب زندہ دار تھے۔ آیت اللہ منتظری جو گیارہ سال ان کے کمرے میں رھے، کھتے ہیں کہ ان کی نماز تھجد زمانہ طالب علمی سے ھی کبھی قضا نھیں ھوئی، راتوں کو ان کی گریہ و زاری اور راز و نیاز سے ان کے معنوی حالات اور باطنی طھارت ظاھر ھوتی ہے۔ حسینیہ ارشاد کو چھوڑنے کے بعد شھید مطھری ایک دوسرے مورچے کی طرف جاتے ہیں اور وہ مسجد الجواد ہے۔ وہ اس مسجد میں تقاریر بھی کرتے اور تفسیر کا درس بھی دیتے (جھاد در اسلام، رشد اسلامی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغی سیرت پر بحث اس زمانے کی تقاریر ہیں۔ شھید مطھری کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 23 جون 1975ء تک ان کے منبر پر جانے اور تقریر کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ تمام اضلاع میں ساواک کے شعبوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ تیار رھیں، تاکہ شھید مطھری کسی بھی جگہ تقریر نہ کرسکیں۔
1976ء میں شھید مطھری نجف اشرف جاتے ہیں اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حوزہ علمیہ قم کے حالات اور اسلامی تحریک کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ انقلاب سے چند ماہ پھلے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ پیرس میں تھے، شھید مطھری نے پیرس کا سفر کیا اور ان کے ساتھ ملاقات میں بعض مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ اسی سفر میں امام کے اطرافیوں کو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ امام کا تعلق کچھ اور ھی قسم کا ہے۔ امام جس قدر اطمینان و اعتماد ان پر کرتے، کسی دوسرے شخص پر نھیں کرتے تھے۔
شھید مطھری استقبال امام کے تمام پروگرام دوستوں سے مل کر بناتے ہیں۔ جب امام کو لے کر آنے والا جھاز زمین پر اترتا ہے تو امام جھاز سے اترنے سے پھلے انھیں بلاتے ہیں اور ان سے بات چیت کرنے کے بعد جھاز سے نکلتے ہیں۔
1971ء کے بعد سے شھید مطھری گمراہ قسم کی فکری سرگرمیوں کے خلاف جنگ کر رھے تھے۔ مجاھدین خلق جیسے بعض گروہ ان کے افکار کے سخت مخالف تھے۔ آخری ایام میں فرقان نام کا ایک گروہ بن گیا، جو شھید مطھری جیسی شخصیات کو اپنے نظریات کی ترویج میں سب سے بڑی رکاوٹ اور خطرہ سمجھتا تھا۔ آخرکار یہ گروہ ان کے قتل پر کمر بستہ ھو جاتا ہے اور انھیں منگل یکم مئی 1979ء کی رات 10 بجکر 20 منٹ پر شھید کر دیتا ہے۔ شھادت کے مقام پر گروہ فرقان کا ایک پمفلٹ ملتا ہے، جس میں لکھا ھوا تھا (عوامی انقلاب کو منحرف کرنے کے سلسلے میں مرتضٰی مطھری کی ذاتی خیانت سب پر واضح تھی، لھذا مذکورہ شخص کی انقلابی پھانسی انجام پا گئی۔) شھادت سے چند شب پھلے وہ خواب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں اور اس خواب میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے۔ رسول خدا اپنے لب مبارک ان کے لبوں پر رکھتے ہیں اور پھر اٹھاتے نھیں ہیں، خوشی کی شدت میں وہ خواب سے بیدار ھو جاتے ہیں، گویا کہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبوں کی گرمی اب بھی وہ اپنے لبوں پر محسوس کرتے ہیں اور یہ خواب پھلے اپنی زوجہ کو سناتے ہیں۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیغام تسلیت سے چند اقتباس:
میں فقیہ عالی، فیلسوف علام اور مفکر حکیم آقائے شیخ مرتضٰی مطھری کی اندوہ ناک رحلت پر دلی تعزیت پیش کرتا ھوں۔ یہ عظیم انسان جس نے پوری عمر عزیز اسلام کے مقدس اھداف کے حصول کی جدوجھد میں صرف کی۔ میں اپنے عزیز ترین فرزند کے لئے سوگ نشین ھوں، جو میری عمر کا حاصل تھا۔ میں نے ایک فرزند کھویا ہے، جو میرے بدن کا حصہ تھا۔ میں ایسے فرزند کی تربیت پر، جس نے اپنی نورانی تبلیغات سے مردہ روحوں کو زندگی بخشی اور جھالت کی تاریکیوں کو اپنے علم کی شمع فروزاں سے منور کیا، آغوش اسلام کو سلام اور مبارکباد پیش کرتا ھوں۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
منابع:
1۔ پارہ ای از خورشید
2۔ احیا تفکر اسلامی
3۔ مجموعہ آثار شھید مطھری
4۔ جلوہ ھای معلمی استاد
5۔ مصلح بیدار
6۔ خاطرات من از شھید مطھری
7۔ استاد شھید بہ روایت اسناد
8۔ سیری در زندگانی استاد مطھری
9۔ یاد نامہ شھید مرتضٰی مطھری
10۔ استاد شھید بہ روایت ساواک