امام خمینی(قدس سرہ) نے ایک ایسے دور میں جبکہ پوری دنیا کی نظروں میں صرف دو طاقتیں اپنی طاقت کا مظاھرہ کر رھی تھی
یہ واضح کردیا کہ دنیا کے اندر صرف دو طاقتیں ( مغربی دنیا اور کمیونسٹ ) ھی نھیں بلکہ تیسری ایک بھت بڑی طاقت بھی اسلام اور ایمان کی شکل میں موجود ہے۔
تاریخ انسانیت ایسی عظیم شخصیتوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جنھوں نے اپنی پاک سیرت، مھر و محبت اور انسان دوستی کی بناء پر لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔ انسان دوستی، نرم مزاجی، پاک کردار و گفتار اور مظلوم پروری وغیرہ ایسی صفات ہیں جو اپنے اندر ایک پر کشش مقناطیسی طاقت رکھتی ہیں۔ لھذا جس کے اندر یہ چیزیں موجود ھوں وہ ایسی مقبول شخصیت بن جاتی ہیں کہ بے اختیار انسانی توجہ ان پر مرکوز ھوتی ہے۔ خدا کے انھی پاک طینت اور پاکیزہ کردار بندوں میں سے ایک فرد صالح امام خمینی(قدس سرہ)کی ذات ہے جنھوں نے اپنے کردار و گفتار کے ذریعے نہ صرف ایرانی قوم کے دلوں پر حکومت کی بلکہ پورے جھاں کے مظلوں کے دلوں کو اپنی طرف مبذول کیا۔ دنیا اس بات پر یقیناً حیرانگی کا مظاھرہ کرے گی کہ وہ انسان جس کے ھاتھ ھر قسم کے مادی وسائل سے خالے تھے، جس کے پاس نہ فوجی طاقت تھی نہ مادی وہ فرد واحد جو دنیا کی سپر پاور طاقتوں کا مقابلہ کر رھے تھے کس طاقت کے بل بوتے ایک قلیل عرصے کے اندر کڑوڑوں انسانوں کے دلوں پر چھا گئے یقیناً ان کے اندر یقین کامل، اعمال صالح اور الھی طاقت تھی جس کے سامنے دنیا کی مادی طاقتیں ٹک نہ سکی۔
تاریخ اسلام میں بھت سارے علمائے حق ایسے نظر آ ئیں گے جنھوں نے تھہ تیغ کلمہ حق کی آواز بلند کی انھوں نے کلمہ حق کی سر بلندی کیلئے کتنی زحمتیں برداشت کیں، کتنے مظالم کا مقابلہ کیا مگر یہ تاج کسی کے سر پہ نھیں رکھا گیا کہ وہ بے سر و سامانی کے باوجود ایک اسلامی انقلاب برپا کر سکیں۔ لیکن بیسویں صدی کے اس عظیم رھنما کو یہ منفرد مقام حاصل ہے کہ انھوں نے روئے زمین کے اندر الھی حکومت کا قیام عمل میں لاکر عالم اسلام کے اوپر یہ واضح کر دیا کہ اگر مسلمان اپنے یقین کامل، اعمال صالح اور علم آگھی کے ساتھ اٹھ کھڑے ھوں تو دنیا کی کوئی ایسی طاقت نھیں جو مسلمانوں کو زیر کر سکے۔ امام خمینی(قدس سرہ) نے ایک ایسے دور میں جبکہ پوری دنیا کی نظروں میں صرف دو طاقتیں اپنی طاقت کا مظاھرہ کر رھی تھی یہ واضح کردیا کہ دنیا کے اندر صرف دو طاقتیں ( مغربی دنیا اور کمیونسٹ ) ھی نھیں بلکہ تیسری ایک بھت بڑی طاقت بھی اسلام اور ایمان کی شکل میں موجود ہے۔ وہ چند ایک خصوصیات جن کی بناء پر امام خمینی(قدس سرہ) بیسویں صدی کے آخری عظیم رھنما کے طور ابھرے۔
امام خمینی(قدس سرہ) نے عالم اسلام کی نئی نسلوں کو اپنے انقلابی افکار و نظریات سے متاثر کیا۔
ایک ایسے دور میں جبکہ مسلمانان عالم مایوسی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رھے تھے امام خمینی(قدس سرہ) نے اپنے کردار و عمل کے ذریعے مسلمانوں کو یہ بات سمجھا دی کہ اسلام ھی وہ مذھب ہے جو اس دور کے تمام فتنوں، الجھنوں اور مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔
امام خمینی(قدس سرہ) نے اپنے وقت کے سامراجی و استعماری طاقتوں کے خلاف ( بے سر و سامانی کے عالم میں ) بغاوت کا علم اٹھا کر مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ انھیں خدا، رسول(ص) اور قرآن کے علاوہ کسی قسم کا خوف نھیں۔
امام خمینی(قدس سرہ) کی شخصیت نے عالم اسلام کے فکری کردار کو اعتماد فراھم کیا۔
امام امت کی شخصیت کے انقلابی اثرات عالم اسلام کے نوجوان نسل پر پڑے اور ان میں مجاھدانہ کردار ابھرے۔
انقلاب اسلامی کے ظھور کے ساتھ امام امت نے اتحاد بین المسلمین کا نعرہ بلند کرتے ھوئے فرمایا کہ جو شخص شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات کا باعث بنے تو وہ نہ شیعہ ہے اور نہ سنی بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔
دشمنوں کی طرف سے مختلف قسم کے مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود امام خمینی (قدس سرہ) نے اسلامی اصولوں کی پاسداری کرنے میں انحراف نھیں کیا۔
امام خمینی(قدس سرہ) نے عالم اسلام کے قلب میں جو لرزشیں پوشیدہ تھیں ان کو رفع کیا اور اپنی قیادت کے کرشمہ سے عالمی سیاسیات میں اسلام اور بلاد اسلام کو مرکزی اھمیت فراھم کی۔
امام امت مستضعفین جھاں کی آواز بن کر ابھرے۔
امام خمینی(قدس سرہ) نے اپنی جدوجھد اور کاوشوں کے ذریعے عالم اسلام پر یہ واضح کردیا کہ خمینی ذاتی اقدار کا حصول نھیں چاھتے بلکہ ان کا مقصد دین محمدی کو لے کر پوری دنیا میں چھا جانا ہے۔
آج اگرچہ امام امت ھمارے درمیان نھیں ہے لیکن امام کے افکار و نظریات آج بھی خواب غفلت میں پڑے ھوئے مسلمانوں کو پکار پکار کر یہ کھہ رھے ہیں کہ مسلمانو! تمھارے تمام مصائب و مشکلات کا حل اسلام اور قرآن کے اندر موجود ہے اگر تم آج بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست دینا چاھتے ھو تو قرآن کو عملی میدان میں لے آو۔ یقیناً آج مسلمان جس قدر مظلومانہ اور مایوسی کی زندگی گزار رھے ہیں اس کی مثال تاریخ میں نھیں ملتی ایک طرف مسلمانوں کے اوپر مظالم کے پھاڑ ڈھائے جا رھے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں دھشت گرد قرار دینے کی مذموم کو ششیں کر رھی ہیں۔
افغانستان، عراق اور فلسطین کی صورتحال سے کون ناواقف ہے، ایک خونخوار درندے کی شکل میں امریکہ ان ملکوں میں نمودار ھوا اور یھاں کے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں تک کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا لیکن کسی مسلمان کے اندر یہ جرات پیدا نہ ھو سکی کہ وہ آگے بڑھ کر کھے کہ اس دور میں سب سے بڑا دھشت گرد خود امریکہ ہے اور اس کا اپنا وجود انسانیت کی بقاء کے لئے خطرناک اور ضرر رساں ہے۔ امام خمینی(قدس سرہ) تو وہ عظیم مرد مجاھد ہے جنھوں نے ان حالات کے پیدا ھونے سے پھلے ھی پیشن گوئی دیتے ھوئے کھا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا شیطان امریکہ ہے اور اس کے وجود سے عالم اسلام کو خطرات لاحق ہیں۔ لیکن عقل کے کھوٹے مسلمانوں نے اس پر کسی قسم کی توجہ نھیں دی جس کی سزا آج پوری امت مسلمہ بھگت رھی ہے۔