www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ولادت

 قائد انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي کے والد حجت الاسلام والمسلمين حاج سيد جواد حسيني خامنہ اي مرحوم تھے قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي۲۸ صفر تيرہ سو اٹھاون ھجري قمري کو مشھد مقدس ميں پيدا ھوئے

آپ اپنے خاندان کے دوسرے فرزند تھے آپ کے والد سيد جواد خامنہ اي کي زندگي ديني علوم کے ديگر اساتذہ اور علمائے دين کي مانند انتھائي سادہ تھي؟ان کي شريک حيات اور اولاد نے بھي قناعت اور سادہ زندگي گزارنے کے گھرے معني ان سے سيکھے اور اس پر عمل کرتے ھیں۔

قائد انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي اپني اور اپنے اھل خانہ کي زندگي اور حالات کے بارے ميں اپني بچپن کي يادوں کو بيان کرتے ھوئے فرماتے ہيں:

ميرے والد ايک مشھور عالم دين تھے ليکن بھت ھي پارسا اور گوشہ نشين۔

ھماري زندگي تنگ دستي ميں بسر ھوتي تھي؟مجھے ياد ہے کہ بعض اوقات ايسا بھي ھوتا تھا کہ ھمارے گھر ميں رات کا کھانا نھيں ھوتا تھا اور ھماري والدہ بڑي مشکل سے ھمارے ليے کھانے کا بندوبست کرتي تھيں اور ... وہ رات کا کھانا بھي کشمش اور روٹي ھوتي تھی۔

ليکن جس گھر ميں سيد جواد کا خاندان رھتا تھا اس کے بارے ميں قائد انقلاب اسلامي کچھ يوں بيان کرتے ہيں:

ميرے والد صاحب کا گھر کہ جھاں ميري پيدائش ھوئي اور ميرے بچپن کے چار پانچ سال وھيں گزرے ، ساٹھ ستر ميٹر کا ايک گھر تھا جو مشھد کے ايک غريب علاقے ميں واقع تھا۔ اس گھر ميں صرف ايک ھي کمرہ اور ايک تنگ و تاريک سرداب(تھہ خانہ)تھا۔جب کوئي مھمان ھمارے والد سے ملنے کے ليے آتا ،ھمارے والد چونکہ عالم دين تھے اس ليے عام طور پر لوگ ان سے ملنے کے ليے آتے تھے تو ھم سب گھر والوں کوسرداب( تھہ خانہ ) ميں جانا پڑتا اور مھمان کے جانے تک وھيں پر رھتے۔بعد ميں ميرے والد کے کچھ عقيدت مندوں نے ھمارے گھر کے ساتھ والي زمين خريد کر ميرے والد صاحب کو دے دي اور پھر ھمارا گھر تين کمروں کا ھو گيا۔

قائد انقلاب اسلامي نے ايک غريب ليکن ديندار ، پاکيزہ اور علم دوست گھرانے ميں تربيت پائي اور چار سال کي عمر ميں اپنے بڑے بھائي سيد محمد کے ھمراہ مکتب بھيج ديے گئے تا کہ قرآن پڑھنا سيکھ ليں۔اس کے بعد دونوں بھائيوں نے تازہ قائم ھونے والے اسلامي اسکول دارالتعليم ديانتي ميں ابتدائي تعليم حاصل کي۔

ديني درسگاہ ميں

آپ ھائي اسکول کے بعد ديني درسگاہ ميں داخل ھو گئے اور اپنے والد اور اس وقت کے ديگر اساتذہ سے عربي ادب اور مقدمات(قواعد) کي تعليم حاصل کي ۔ آپ ديني درسگاہ ميں داخلے اور ديني تعليم کے انتخاب کے محرک کے بارے ميں کھتے ہيں:

اس نوراني راستے کے انتخاب ميں بنيادي عنصر اور محرک ميرے والد کا عالم دين ھونا تھا اور ميري والدہ کي خواھش تھي۔

آپ نے جامع المقدمات ، سيوطي اور مغني کي مانند عربي ادب کي کتابيں مدرسہ سليمان خان اور مدرسہ نواب کے اساتذہ سے پڑھيں اور آپ کے والد بھي اپنے بچوں کي تعليم پر نظر رکھتے تھےاسي دوران آپ نے کتاب معالم بھي پڑھي۔اس کے بعد آپ نے شرائع الاسلام اور شرح لمعہ اپنے والد سے اور ان کے بعض حصے آقا ميرزا مدرس يزدي مرحوم سے پڑھے اور رسائل و مکاسب حاج شيخ ھاشم قزويني سے اور فقہ و اصول کے دروس سطح اپنے والد سے پڑھے۔آپ نے حيرت انگيز طور پر صرف ساڑھے پانچ سال کے عرصے ميں مقدمات اور سطح کے کورس مکمل کر لیاآپ کے والد سيد جواد مرحوم نے ان تمام مراحل ميں اپنے چھيتے بيٹے کي ترقي و پيشرفت ميں اھم کردار ادا کيا۔ قائد انقلاب اسلامي نے منطق اور فلسفہ ميں کتاب منظومہ سبزواري پھلے آيت اللہ ميرزا جواد آقا تھراني مرحوم اور بعد ميں شيخ محمد رضا ايسي سے پڑھي۔

نجف اشرف کي ديني درسگاہ ميں

حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي ، کہ جنھوں نے اٹھارہ سال کي عمر ميں مشھد ميں عظيم مرجع آيت اللہ العظمي ميلاني مرحوم سے فقہ اور اصول کا درس خارج پڑھنا شروع کيا تھا، سن ۱۹۵۷ء ميں مقدس مقامات کي زيارت کے ليے نجف اشرف تشريف لے گئے اور سيد محسن حکيم مرحوم،سيد محمود شاھرودي ، ميرزا باقر زنجاني ، سيد يحيي ، يزدي اور ميرزا حسن بجنوردي سميت نجف اشرف کے عظيم مجتھدين کے دروس ميں شرکت کي۔آپ کو يھاں درس و تدريس اور تحقيق کا معيار پسند آيا اور نجف ميں تعليم جاري رکھنے کے اپنے فيصلے سے اپنے والد کو آگاہ کيا ليکن وہ راضي نہ ھوئے چنانچہ آپ کچھ عرصے کے بعد مشھد واپس لوٹ آئے۔

قم کي ديني درسگاہ ميں

حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ سن ۱۹۵۸ء سے لے کر سن ۱۹۶۴ء تک قم کي ديني درسگاہ ميں فقہ، اصول اور فلسفہ کي اعلي تعليم ميں مشغول رھ اور آيت اللہ العظمي بروجردي، امام خميني رحم اللہ عليہ ، شيخ مرتضي حائري يزدي اور علامہ طباطبائي جيسے عظيم اساتذہ سے کسب فيض کيا۔۱۹۶۴ء ميں قائد انقلاب اسلامي کو اپنے والد سے خط و کتابت کے بعد پتہ چلا ان کے والد کي ايک آنکھ کي بينائي موتيا کے مرض کي وجہ سے جا چکي ہے آپ کو يہ خبر سن کر بھت دکھ پھنچا۔آپ قم کي عظيم درسگاہ ميں رہ کر اپني تعليم کو جاري رکھنے اور مشھد واپس جا کر اپنے والد کي ديکھ بھال کرنے کے سلسلے ميں شش و پنج کا شکار ھو گئے حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي اس نتيجے پر پھنچے کہ انھيں اللہ کي رضا کے لئے مشھد واپس جانا چاھيے اور اپنے والد کي ديکھ بھال کرني چاھئے۔اس بارے ميں آپ فرماتے ہيں:

ميں مشھد گيا اور خدا نے مجھے بھت زيادہ توفيقات عنايت فرمائيں۔بھرحال ميں اپنے کام اور ذمہ داريوں ميں مشغول ھوگيا۔اگر مجھے زندگي ميں کوئي توفيق حاصل ھوئي ہے تو ميرا يہ خيال ہے کہ وہ اس نيکي کا صلہ ہے جو ميں نے اپنے والد اور والدہ کے ساتھ کي تھي۔ حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے اس دو راھے پر صحيح راستے کا انتخاب کياآپ کے بعض اساتذہ اور ساتھي افسوس کرتے تھے کہ کيوں آپ نے اتني جلدي قم کو چھوڑ ديا اگر وہ وھاں رہ جاتے تو آئندہ يہ بن جاتے وہ بن جاتے... ليکن مستقبل نے ظاہر کر ديا کہ ان کا فيصلہ صحيح تھا اور الہي فيصلے نے لوگوں کے اندازوں سے کھيں بھتر ان کي تقدير لکھي تھي۔ کيا کوئي يہ سوچ سکتا تھا کہ يہ پچيس سالہ باصلاحيت عالم دين جو اپنے والدين کي خدمت کے ليے قم چھوڑ کر مشھد واپس چلا گيا تھا، پچيس سال بعد ولايت امر مسلمين کے اعلي مقام و مرتبے پر پہنچ جائے گا؟

آپ نے مشھد ميں بھي اپني اعلي تعليم کا سلسلہ جاري رکھا اور تعطيلات،جدوجھد،جيل اور سفر کے علاوہ ۱۹۶۸ء تک مشھد کے عظيم اساتذہ خصوصا" آيت اللہ ميلاني "سے با قاعدہ طور پر تعليم حاصل کي۔اسي طرح سن ۱۹۶۴ء سے کہ جب آپ مشھد ميں مقيم تھے ، تعليم حاصل کرنے اور بوڑھے اور بيمار والد کي ديکھ بھال اور خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نوجوان طلبہ کو فقہ و اصول اور ديني علوم کي ديگر کتابيں بھي پڑھاتے تھے۔

سياسي جدوجھد

حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي بقول خود ان کے، امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے فقھي ، اصولي ،سياسي اور انقلابي شاگردوں ميں سے ہيں ليکن ان کے ذھن ميں طاغوت کے خلاف دشمني اور سياست و جدوحھد کي پھلي کرن عظيم مجاھد اور شھيد راہ اسلام سيد مجتبي نواب صفوي نے ڈالي۔جب نواب صفوي چند فدائيان اسلام کے ساتھ سن ۱۹۵۲ء ميں مشھد گئے تو انہھوں نے مدرسہ سليمان خان ميں احيائے اسلام اور احکام الھي کي حاکميت کے موضوع پر ايک ولولہ انگيز تقرير کي اور شاہ اور برطانيہ کے مکر و فريب اور ملت ايران سے ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کيا۔ حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي ان دنوں مدرسہ سليمان خان کے نوجوان طالب علم تھے، نواب صفوي کي جوشيلي تقرير سے آپ بھت متاثر ھوئے ۔آپ کھتے ہيں:اسي وقت نواب صفوي کے ذريعے ميرے اندر انقلاب اسلامي کا دھماکہ ھوا چنانچہ مجھے اس بات ميں کوئي شک و شبہ نھيں ہے کہ پھلي آگ نواب صفوي مرحوم نے ميرے اندر روشن کي۔


امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي تحريک کے ھمراہ

حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي سن ۱۹۶۲ء سے کہ جب آپ قم ميں تھے اور محمد رضا شاہ پھلوي کي اسلام مخالف اور امريکہ نواز پاليسيوں کے خلاف امام خميني کي انقلابي اور احتجاجي تحريک شروع ھوئي ، سياسي جدوجھد ميں شامل ھو گئے اور بے پناہ نشيب و فراز ، جلاوطني ، قيد و بند اور ايذاؤں کے باوجود سولہ سال تک جدوجھد کرتے رھے اور کسي مقام پر بھي نھيں گھبرائے امام خميني رحمۃ اللہ عليہ نے انھيں پھلي ذمہ داري يہ سونپي کہ وہ ماہ محرم ميں علمائے کرام کے تبليغي مشن اور شاہ کي امريکي پاليسيوں کو آشکارہ کريں، ايران کے حالات اور قم کے واقعات کے بارے ميں ان کا پيغام آيت اللہ ميلاني اور خراسان کے علماء تک پھنچائيں ۔آپ نے يہ ذمہ داري بخوبي نبھائي اور خود بھي تبليغ کے ليے بيرجند شھر گئے اور وھاں تبليغ کے ضمن ميں امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے پيغام کے تناظر ميں پھلوي حکومت اور امريکہ کا پردہ چاک کيا چنانچہ آپ کو گرفتار کر ليا گيا اور ايک رات قيد رکھنے کے بعد اگلے دن آپ کو اس شرط پر رھا کيا گيا کہ آپ منبر پر نھيں جائيں گے اور پوليس کي نگراني ميں رھيں گے۔۱۵ خرداد کے واقعے کے بعد آپ کو بيرجند سے مشھد لاکر فوجي جيل ميں ڈال ديا گيا اور وھاں دس روز تک کڑي نگراني ميں رکھا گيا اور سخت ايذائيں دي گئيں۔

دوسري گرفتاري

جنوري سن ۱۹۶۳ء مطابق رمضان ۱۳۸۳ ھجري قمري کو حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي اپنے کچھ دوستوں کے ھمراہ ايک طے شدہ پروگرام کے تحت کرمان گئے،کرمان ميں دو تين دن ٹھہرنے ،تقريريں کرنے اور اس شہر کے علماء اور طلبہ سے ملاقات کرنے کے بعد زاھدان چلے گئے۔آپ کي جوشيلي اور ولولہ انگيز تقريروں خصوصا ۶بھمن کو شاہ کے جعلي ريفرنڈم اور انتخاب کي سالگرہ کے دن آپ کي تقرير کو عوام نے بے حد پسند کيا۔ ۱۵ رمضان کو امام حسن عليہ السلام کي ولادت کے روز پھلوي حکومت کي شيطاني اور امريکي پاليسيوں کا پردہ چاک کرنے والي آپ کي جوشيلي اور ولولہ انگيز تقريريں اپنے عروج پر پھنچ گئيں چنانچہ شاہ کي خفيہ ايجنسي ساواک نے آپ کو راتوں و رات گرفتار کر کے ھوائي جھاز کے ذريعے تھران روانہ کر ديا۔رھبر بزرگوار حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي کو تقريبا دو ماہ تک قزل قلعہ نامي جيل ميں قيد تنھائي ميں رکھا گيا۔ دوران قيد آپ نے مختلف قسم کي ايذائيں اور توھين آميز سلوک برداشت کيا۔

تيسري اور چوتھي گرفتارياں

مشھد اور تھران ميں آپ کے تفسير و حديث کے دروس اور اسلامي افکار و نظريات کا انقلابي نوجوانوں نے زبردست خيرمقدم کياآپ کي ان سرگرميوں سے شاہ کي خفيہ ايجنسي ساواک بھڑک اٹھي اور آپ کو گرفتار کرنا چاھا لہذا آپ نے سن ۱۹۶۶ء ميں تھران ميں روپوشي کي زندگي اختيارکرلي تاھم ايک سال بعد يعني ۱۹۶۷ء ميں آپ گرفتار کر ليے گئے ۔ رھائي کے بعد آپ کي انقلابي سرگرميوں کے باعث ساواک نے آپ کو ايک بار پھر سن ۱۹۷۰ءميں گرفتار کر کے جيل ميں ڈال ديا۔

پانچويں گرفتاري

حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي مدظلہ العالي ساواک کے ھاتھوں اپني پانچويں گرفتاري کے بارے ميں لکھتے ہيں:

سن ۱۹۶۹ء سے ايران ميں مسلح تحريک کے آثار محسوس کيے جا رھے تھے خفيہ اداروں کي ميرے بارے ميں حساسيت بھي بڑھ گئي تھي انھوں نے اندازہ لگا ليا تھا کہ ايسا نھيں ھو سکتا کہ اس قسم کي تحريک کا مجھ جيسے افراد سے تعلق نہ ھو سن ۱۹۷۱ء ميں ايک بار پھر مجھے جيل ميں ڈال ديا گيا۔جيل ميں ساواک کے تشدد آميز سلوک سے واضح طور پر ظاھر ھوتا تھا کہ اسے مسلح تحريک کے اسلامي فکر کے مراکز سے جڑے ھونے پر سخت تشويش ہے اور وہ اس بات کو قبول کرنے پر تيار نھيں تھے کہ مشھد اور تھران ميں ميرے نظرياتي اور تبليغي مشن کا اس تحريک سے کوئي تعلق نھيں ہے۔ رھائي کے بعد ميرے تفسير کے عام دروس اور خفيہ کلاسوں کا دائرہ مزيد بڑھ گيا۔

چھٹي گرفتاري

۱۹۷۱اور ۱۹۷۴ کے برسوں کے دوران حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي کے تفسير اور انقلابي نظريات کے دروس اور تقارير مشھد مقدس ميں واقع مسجد کرامت ، مسجد امام حسين اور مسجد ميرزا جعفر ميں انجام پاتي تھيں جن ميں انقلابي اور روشن فکر نوجوانوں اور طلبہ سميت ھزاروں لوگ جوق در جوق شرکت کرتے تھے اور اسلام کے حقيقي نظريات سے آگاہ ھوتے تھے۔آپ کے نھج البلاغہ کے درس کا رنگ ھي کچھ اور تھا آپ کے نھج البلاغہ کے دروس فوٹو کاپي ھو کر لوگوں ميں تقسيم ھوتے تھے۔ نوجوان اور انقلابي طلبہ جو آپ سے درس حقيقت اور جدوجھد کا سبق ليتے تھے ، ايران کے دور و نزديک کے شھروں ميں جا کر لوگوں کو ان نوراني حقائق سے آشنا کرکے عظيم اسلامي انقلاب کا راستہ ھموار کرتے۔ان سرگرميوں کے باعث ۱۹۷۴عيسوي ميں ساواک نے مشھد ميں حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي کے گھر پر دھاوا بول ديا اور آپ کو گرفتار کر کے آپ کي بھت سي تحريروں اور نوٹس کو ضبط کر لي يہ آپ کي چھٹي اور سخت ترين گرفتاري تھي۔آپ کو ۱۹۷۵ کے موسم خزاں تک قيد ميں رکھا گيااس عرصے کے دوران آپ کو ايک کوٹھڑي ميں سخت ترين حالات ميں رکھا گيا اور خود آپ کے بقول صرف وھي ان حالات کو سمجھ سکتے ہيں جنھوں نے ان حالات کو ديکھا ہے۔جيل سے رھائي کے بعد آپ مشھد مقدس واپس آ گئے اور ماضي کي طرح علمي ، تحقيقي اور انقلابي عمل کو آگے بڑھايا۔ البتہ آپ کو پھلے کي طرح کلاسوں کي تشکيل کا موقع نھيں ديا گيا۔


شھر بدري

ظالم پھلوي حکومت نے سن ۱۹۷۷ء کے اواخر ميں حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي کو گرفتار کر کے تين سال کے ليے ايرانشھر بدر کر ديا۔ سن ۱۹۷۸ء کے وسط ميں ايران کے مسلمان اور انقلابي عوام کي جدوجھد کے عروج پر پھنچنے کے بعد آپ شھر بدري سے آزاد ھو کر مشھد مقدس واپس آ گئے اورسفاک پھلوي حکومت کے خلاف عوام کي جدوجھد کي اگلي صفوں ميں شامل ھو گئے۔

راہ خدا ميں انتھک جدوجھداور سختياں برداشت کرنے کا نتيجہ يعني ايران کے عظيم اسلامي انقلاب کي کاميابي اور ظالم پھلوي حکومت کا سقوط اور اس سرزمين ميں اسلام کي حاکميت کے قيام کا مشاھدہ آپ نے اپني آنکھوں سے کيا۔

کاميابي سے قبل

اسلامي انقلاب کي کاميابي سے قبل امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي پيرس سے تھران واپسي سے پھلے ان کي طرف سے شھيد مطھري، شھيد بھشتي، ھاشمي رفسنجاني وغيرہ کي مانند مجاھد علماء اور افراد پر مشتمل کميٹي شورائ انقلاب اسلامي قائم کي گئي۔ حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي بھي امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے حکم پر اس کميٹي کے رکن بنے۔ شھيد مطھري نے امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کا پيغام آپ تک پھنچايا ۔ رھبر کبير انقلاب اسلامي امام خميني رحمۃاللہ عليہ کا پيغام ملتے ھي آپ مشھد سے تھران آ گئے؟

کاميابي کے بعد

حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے اسلامي انقلاب کي کاميابي کے بعد بھي اپني انقلابي اور اسلامي سرگرمياں بدستور جاري رکھيں اس دوران آپ مختلف عھدوں پر فائز رھے اور متعدد اھم کارنامے انجام دينے ميں کامياب ھوئے جس کي تفصيل کچھ يوں ہے:

 فروري ۱۹۷۹ ميں اپنے ھم خيال مجاھد علماء اور ساتھيوں کے تعاون سے جمھوري اسلامي پارٹي کي بنياد رکھي۔

۱۹۷۹ميں نا‏ئب وزيردفاع بنے۔

 ۱۹۷۹ميں ھي پاسداران انقلاب اسلامي فوج کے سربراہ مقرر ھوئے۔

 ۱۹۷۹ميں ھي باني انقلاب اسلامي کي جانب سے دارالحکومت تھران کے امام جمعہ منصوب ھوئے۔

۱۹۸۰ميں اعلي دفاعي کونسل ميں امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے نمائندےمقرر ھوئے۔

 ۱۹۸۰ميں پارليمنٹ مجلس شوراي اسلامي ميں تھران کے نمائندے بنے۔

۱۹۸۰ميں امريکہ اور سابق سوويت يونين سميت شيطاني اور بڑي طاقتوں کے اکسانے اور ان کي فوجي مدد سے ايران کي سرحدوں پر صدام کي جارحيت اور ايران کے خلاف عراق کي مسلط کردہ جنگ شروع ھوتے ھي دفاع مقدس کے محاذوں پر فوجي لباس ميں دشمن کے خلاف نبرد آزما ھوئے۔

۱۹۸۱ميں تھران ميں واقع مسجد ابوذر ميں انقلاب دشمن منافقين کےناکام قاتلانہ حملے ميں شديد زخمي ھوئے۔

صدر مملکت

ايران کے دوسرے صدر محمد علي رجائي کي شھادت کے بعد ۱۹۸۱ء ميں حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي ايک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي توثيق سے اسلامي جمھوريہ ايران کے صدر منتخب ھوئے۔ اسي طرح ۱۹۸۵ ميں آپ دوسري بار صدر منتخب ھوئے۔

۱۹۸۱ميں ثقافتي انقلابي انجمن کے سربراہ بنے۔

۱۹۸۷ميں تشخيص مصلحت نظام کونسل کي سر براھي سنبھالي۔

۱۹۸۹ميں آئين پر نظر ثاني کرنے والي کونسل کے سربراہ مقرر ھوئے۔

امت کي قيادت و ولايت

رھبر کبير انقلاب امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي رحلت کے بعد جون ۱۹۸۹ء ميں ماھرين کي کونسل نے اس اعلي عھدے اور عظيم ذمہ داري کے ليے آپ کو منتخب کيا۔ يہ انتخاب انتھائي مبارک اور صحيح تھا چنانچہ امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي وفات کے بعد آپ نے نھايت مھارت سے ملت ايران بلکہ مسلمانان عالم کي قيادت و راھنمائي کي اور يہ عظيم اور الھي فريضہ آج بھي بخوبي نبھا رھے ہيں۔

Add comment


Security code
Refresh