رمضان المبارک کا مھینہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے خداوند متعال کی جانب سے ایک بیش بھا نعمت ہے۔
رمضان المبارک آتے ھی جیسے مخصوص سائرن کی آواز کان میں پڑتی ہے تو لوگ کھانا پینا بند کردیتے ہیں اور پھلے روزے کی نیت کرنے لگتے اورجیسے ھی محلے کی مسجد سے مؤذن نے فجر کی اذان دی لوگ جوق در جوق والھانہ انداز میں مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں ۔چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے والد کی انگلیاں پکڑ کر مسجد میں آتے ہیں ۔گھر کے سارے لوگوں کے ساتھ آج وہ بھی معمول سے چار گھنٹے پھلے ھی اٹھ گئے تھے۔امی نے لاکھ سمجھایا کہ ابھی چھوٹے ھو بڑے ھوکر روزہ رکھنا لیکن منے میاں نے ایک نہ سنی اور سب کے ساتھ سحری کھاکر پھلے روزے کی نیت کرھی لی۔
رمضان المبارک کا مھینہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے خداوند متعال کی طرف سے ایک بیش بھا نعمت ہے ۔صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک جو روحانی اور نورانی ماحول رھتا ہے اس میں نیکیوں کو بڑھانے اور ایمان کو پروان چڑھانے کے خوب مواقع ھوتے ہیں۔
حدیث کے مطابق اس مھینے میں شیطان قید کردیا جاتا ہے اور فرض کا ثواب بڑھاکر ستر گنا اور سنت کا ثواب فرض کے برابر کر دیا جاتاہے۔ مسلم محلوں میں گھروں سے تلاوت قرآن کی آوازیں ،نمازیوں سے بھری مساجد،دن بھر بند چائے اور کھانے کے ھوٹل اور شام میں افطاری کا بازار۔۔۔۔ سب ایک عجیب سا سماں پیدا کرتا ہے۔
ھندوستان کے دارالحکومت دھلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں سائرن کی آواز ھوتی ہے جسے سن کر لوگ افطار کرتے ہیں ۔ کھیں کھیں گولے بھی داغے جاتے ہیں اور بعض مقامات پر اذان کی آواز ھی وقت ھونے کا اعلان ھوتی ہے۔ پرانی دھلی اور جامع مسجد کے علاقے میں یہ سماں کچھ زیادہ ھی رھتاہے جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا پتہ دیتا ہے۔
اسّی سالہ بزرگ اور ریٹائرڈ ٹیچر ماسٹرمحمد انیس صدیقی اپنی یادداشت پر زور ڈالتے ھوئے بتاتے ہیں کہ دھلی میں وہ ۱۹۵۵ءسے مسلسل سائرن کی آواز سنتے آرھے ہیں ۔اس سے پھلے وہ اترپردیش کے ایک ضلع میں رھتے تھے۔یہ سائرن افطار اور سحری دونوں وقت بجایا جاتاہے۔لیکن پھر بھی سحری میں کبھی کبھی لوگ نیند کی شدت سے نھیں اٹھ پاتے اس کیلئے دھلی ھی نھیں پورے ملک میں عرصہ دراز سے مختلف طریقے رائج ہیں ۔
بعض جگھوں میں مساجد سے مسلسل اعلان ھوتا ہے کہ سحری کا وقت ھوگیا ہے یا وقت ختم ھونے میں صرف اتنی دیر باقی ہے۔ بعض مقامات پر مسجد کے ھی لاوڈاسپیکر سے نعت اورحمد کا سلسلہ سحری کے اوقات میںمسلسل جاری رھتاہے لھذٰا جولوگ اعلان سے نھیں جاگ پاتے اس کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک طریقہ جو اب صرف دیھاتوں اور قصبوں تک محدود رہ گیاہے اور لاوڈاسپیکر کی ایجاد سے پھلے ھی سے معروف ہے وہ یہ کہ گاؤں یا محلے کے چند افراد کی ایک ٹیم سحری کے مقررہ وقت سے پھلے گھروں پر جاکر لوگوں کو جگاتی ہے اور راستے بھر نعت حمد اور ترانے گاتی جاتی ہے۔
بعض علاقوں میں یہ خدمت گاؤں یا آس پاس کے علاقے کے غرباانجام دیتے ہیں ۔سحری کے روحانی وقت میں عموماان کی حمدو نعت دلوں میں اترتی محسوس ھوتی ہے اور "اٹھو روزے دارو! سحری کھالو "کا نعرہ بڑا ھی زوردار معلوم ھوتا ہے جس سے نیند غائب ھوجاتی ہے ۔دن کو مائیں جب بچوں کو بتاتی ہیں کہ آج جگانے والے نے کتنی اچھی نعت پڑھی تو بچے ماؤں سے ضد کرکے اس وقت اٹھانے کے لئے کھتے ہیں تاکہ وہ بھی اس کو سن سکیں۔رمضان کے آخری ایام میں اس ٹیم کا "الوداع ماہ رمضان۔۔" کا پرسوزترانہ عموما ھر خاص وعام کے لئے ایک کسک چھوڑ جاتاہے۔
ھندوستان کاپھیلاو شمالا جنوبا زیادہ ہے لیکن مشرق تا مغرب بھی اس کا فاصلہ کم نھیں ہے لھذا سحر و افطار کے اوقات میں یھاں کافی فرق ہے۔مغربی بنگال اور آسام کے مشرقی حصے کے سحر وافطار کے اوقات سے راجستھان ،گجرات اورمھاراشٹر کے مغربی اضلاع کے اوقات میں تقریبا ایک گھنٹے سے زائد کا فرق پایا جاتاہے۔
ماضی میں دھلی سمیت پورے ھندوستان میں گھر کی بنائی ھوئی موٹی موٹی سوئیاں گڑ میں ڈال کر کھانے کا عام رواج تھا لیکن اب یہ روایت ختم ھوگئی اب نہ تو گھریلو سوئیاں ھی ہیں اور نہ گڑ آسانی سے دستیاب ہے۔اس کی جگہ اب کھجلا ،فینی وغیرہ نے لے لی ہے۔دودھ کے علاوہ سبزی بھی سحری کے وقت ھندوستان میں کھانے کا عام رواج ہے۔رات میں زیادہ دیر تک جاگنے کی لت تو شھر کے لوگوں میں پھلے ھی سے ہے لیکن رمضان میں اس میں کچھ اور اضافہ ھو جاتا ہے اس لئے بعض بد نصیب ایسے بھی ھوتے ہیں جو سحری کی برکتوں سے محروم رھتے ہیں اور وہ رات ھی میں کھا کر سوجاتے ہیں گویا انھیں امت مسلمہ پر بنی اسرائیل کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کا خاص کرم راس نھیں آرھاہے۔
شمالی ھند کے دیگر علاقوں مثلا اعظم گڑھ الہ آباد وغیرہ میں ناریل کی گری ،کاجو،بادام اور دگر میوہ جات سے تیار شدہ مسالا پینے کا عام رواج ہے ۔بعض مقامات پر چپاتی اور پاو سے اس کو کھاتے بھی ہیں۔لیکن مھاراشٹر کے کچھ علاقوں میں دودھ اور کیلا بھی سحری میں کھایا جاتاہے۔جب کہ جنوبی ھند کی ریاست کیرلہ اور تمل ناڈو میں چاول اور کھجور زیادہ کھائی جاتی ہیں ۔اکثر جگھوں میں رمضان میں پاو کی مانگ بڑھ جاتی ہے لیکن اترپردیش کے کچھ علاقوں میں دودھ پاو ھی سحری کی مرغوب غذا ہے۔لھذا بیکریاں نت نئی ڈیزائن اور سائز کے پاو بنانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہیں ۔
رمضان میں مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں،کالجوں اور اداروں میں نظام الاوقات تبدیل ھوجاتاہے ۔بعد نماز فجر مسلم محلوں میں خاموشی اور سناٹے کا راج ھوتاہے اور صبح دیر سے ھوتی ہے لیکن طلبا اور محنت کش طبقے کو پھر بھی جلدی اٹھنا پڑتاہے۔دوپھر تک بازار اور سڑکیں پھیکی پھیکی سی محسوس ھوتی ہیں ۔
اور پھر دن ڈھلنے کے آغازھی سے رونق لوٹ آتی ھی ،ٹریفک جام ھونے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ھوجاتاہے۔افطاری بازارمیں رنگ برنگ کی کھانے پینے کی چیزیں پھل اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔۔ایسا لگتاہے کہ گویا رمضان روزہ رکھنے کا نھیں بلکہ کھانے پینے ھی کا مھینہ ھو ۔پھلے بھی افطارھوتی تھی اور افطار کی دعوتیں بھی ۔۔لیکن نہ توکھانے کی اتنی قسمیں نھیں ہوتی تھیں اور نہ ھی اتنی افطار پارٹیاں۔اب تو افطار پارٹیوں کا چلن اتنا بڑھ گیا ہے کہ بعض لوگ تو ایک ھی دن میں کئی کئی جگہ مدعو ھوتے ہیں۔
شاید اھل سیاست بھی اس مھینے میں اپنے ظرف کے مطابق استفادہ کرنے میں پیچھے نھیں ھٹنے کی قسم کھاچکے ہیں۔سحری کے بر خلاف ھر طرح کے کھانے کی چیز تھوڑی سی مشقت پر ملک میں کھیں بھی مل سکتی ہے۔ھمارے ایک دوست جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں مسکراتے ھوئے کھتے ہیں کہ کئی پھل جو سال بھر عام آدمی کو سونگھنے کو نھیں ملتے رمضان میں روز کھائے جاتے ہیں۔اور بعض دفعہ آدمی اوسطا اس مھینے میں دوسرے مھینے کی بہ نسبت زیادہ وٹامن حاصل کرلیتاہے۔
مساجد میں بھی افطار کا معقول نظم ھوتاہے۔محلے کے لوگ آپس میں بھی پکی ھوئی خاص چیزوں کا لین دین کرتے ہیں لیکن مساجد میں بھی افطاری بھیجنا نھیں بھولتے تاکہ مسافر ،فقراء اور مساکین افطار کرسکیں۔جنوبی ھند کی ریاست کیرلہ اور تمل ناڈو میں اکثر مقامات پر مقامی لوگ بھی مسجدھی میں افطار کرتے ہیں ۔اس کا نظم باری باری محلے ھی کے اصحاب خیر کرتے ہیں کیرلہ کے رھنے والے عبد الجلیل بتاتے ہیں کہ لوگ انتظار کرتے ہیں کہ کب ان کی باری آئے لیکن یہ سعادت کم ھی لوگوں کو مل پاتی ہے۔
کیوں کہ رمضان کے روزے صرف ۲۹یا۳۰دن ھی ھوتے ہیں ۔ افطار کے وقت اگر کوئی مسلم شکل وشباھت والا آدمی نظر آجائے تو لوگ اس کو فوراً آواز دیتے ہیں اور افطارکرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ایسا تو عموما ھر جگہ ھی ھوتاہے لیکن ممبئی ،کولکاتہ،حیدرآباداور پرانی دھلی میں یہ منظر کچھ زیادہ ھی دیکھنے کو ملتاہے۔لیکن نو آباد محلے اور کالونیاں اس تھذیبی ورثے سے عاری نظر آتی ہیں۔
یھاں تراویح کا بھی خاص اھتمام ھوتاہے۔گذشتہ ایک دھائی سے حفاظ قرآن کی تعدا د میں کافی اضافہ ھواہے۔لھذا تراویح میں مکمل قرآن سننے کا اھتمام بھی قابل دید ہے۔لیکن حالیہ چند برسوں سے یہ بدعت ایجاد ھوئی ہے کہ دین کی بنیادی تعلیمات سے عاری ایک طبقہ تسلسل کے ساتھ تراویح میں قرآن کو سننے کوھی کافی سمجھ بیٹھا ہے نتیجے کے طورپر وہ ایک بارقرآن پورا سننے کے بعد تراویح کے وجوب کو اپنے اوپر سے ساقط سمجھنے لگتاہے۔