www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

600589
متنازعہ ترین ھونے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 58ویں انتخابات میں 45ویں صدر منتخب ھوچکے ہیں۔ کئی امریکی اسے نائن الیون کے بعد الیون نائن کا ایک اور حادثہ شمار کر رھے ہیں، تو کئی اسے تبدیلی کی علامت قرار دے رھے ہیں۔
ٹرمپ کے حامیوں کی جھاں خوشی دیدنی ہے، وھیں پر کالے امریکی اپنی تشویش کا اظھار کرتے دکھائی دیتے ہیں، گرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جیت کے بعد بات کرتے ھوئے کھا ہے کہ امریکہ میں رھنے والے تمام افراد کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا، مگر اپنی انتخابی مھم کے دوران انھوں نے جھاں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی قوانین کی بات کی، وھیں اسلامی دنیا کے خلاف اپنے جارحانہ عزائم کا اعادہ بھی کیا تھا، یھاں تک کہ انھوں نے امریکہ سے مسلمانوں کو نکالنے کا بھی ارادہ ظاھر کیا اور مختلف اسلامی ممالک بالخصوص ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کینسل کرنے، پاکستان سے حساب لینے، شکیل آفریدی کو رھا کرانے، عراق و شام پہ کارپٹڈ بمباری کرنے، یھاں تک کہ ایٹم کے استعمال کا امکان بھی ظاھر کیا تھا۔ جس کے باعث اپنی انتخابی مھم کے دوران وہ بیرونی دنیا میں بھی اپنے لئے نفرت کا بیج بو چکے تھے۔ یھی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ھونے کے بعد سے ترقی پذیر ممالک میں بالعموم اور اسلامی ممالک میں بالخصوص میڈیا انتخابی مھم کے دوران ٹرمپ کے اعلانات اور متنازعہ بیانات کو بار بار پیش کر رھا ہے۔
شائد کہ اس طریقے سے میڈیا ٹرمپ کا اصلی چھرہ عوام کو دکھا کر یہ باور کرانا چاھتا ہے کہ وہ ذھنی طور پر امریکہ کی مزید جنگی پالیسیوں کو بھگتنے کیلئے تیار رھیں۔ امریکی انتخابات کی مھم کے دوران یورپی مسلمانوں نے ایک فورم میں اس خیال کا اظھار کیا تھا کہ ھیلری اور ٹرمپ میں اتنا ھی فرق ہے جنتا گدھے اور ھاتھی میں ھوتا ہے۔ یعنی گدھا دل میں کینہ رکھتا ہے اور اپنی ضد پوری کرکے رھتا ہے جبکہ ھاتھی چنگھاڑتے ھوئے حملہ کرتا ہے اور دشمن کے ساتھ ساتھ اس کے کھیت و کھلیان بھی اجاڑ دیتا ہے۔
لھذا ایک خاموش، دوست نما دشمن سے ایک اعلانیہ دشمن بھتر ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نھیں کہ تمام تر زبانی کلامی ھمدردیوں کے باوجود ھیلری کے ھاتھ ھزاروں مسلمانوں کے لھو سے رنگے ہیں، بالخصوص امریکی مدد سے داعش نے جو عراق و شام میں قتل و غارت کی ہے، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صرف زبان سے مسلمانوں کی دل آزاری ھوئی ہے۔
بھرحال تمام تر بیرونی تحفظات کے باجود ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ھوچکے ہیں۔ چونکہ انھیں امریکی عوام نے قبول کر لیا ہے، لھذا بیرونی دنیا کے پاس انھیں بھگتنے کے سوا کوئی متبادل نھیں ہے۔ ان کے عھد صدارت میں امکانات، خدشات اور ممکنہ اثرات پر بات کرنے سے قبل ٹرمپ کے ماضی کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔
کثیر الاشاعت امریکی اخبار کے مطابق صدارتی انتخاب جیتنے والے ڈونلڈ ٹرمپ 14 جون 1946ء کو نیویارک میں پیدا ھوئے۔ انھوں نے 1968ء میں یونیورسٹی آف پینسلوانیا سے اکنامکس میں گریجویشن کیا۔ ٹرمپ جمائکا اسٹیٹس کے امیر ترین مضافات میں پلے بڑھے، وہ ریئل اسٹیٹ کی تعمیر و ترقی سے وابستہ رھے۔ ان کا انداز حاکمانہ رھا ہے، جو انھوں نے اپنے بیٹے کو بھی منتقل کیا ہے۔ ان کے والد بروکلن اور کوئینز میں تعمیراتی منصوبوں سے منسلک رھے، جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے مین ھٹن میں بلند و بالا عمارات کھڑی کیں۔ 1970ء کی دھائی میں، محکمہ انصاف نے ٹرمپ آرگنائزیشن پر فیئر ھازنگ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، جس کے ذریعے اقلیت کو ان کی عمارتیں کرائے پر لینے سے روکا گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس مقدمے کا فیصلہ عدالت سے باھر طے کیا۔ بعد میں ایک اھم قدم کے طور پر ٹرمپ نے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن کے ساتھ والا ایک ھوٹل خریدا، جو دیوالیہ قرار دیا جا چکا تھا۔ انھوں نے سات کروڑ ڈالر ادھار لئے، نیو یارک سٹی سے ٹیکس کی مراعات مانگیں اور تعمیر نو کے بعد انھوں نے اسے گرینڈ ھائٹ ھوٹل کا نام دیا۔ 1971ء میں انھوں نے اپنے والد فریڈ ٹرمپ کی رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن کمپنی کا کنٹرول سنبھالا، جس کا نام بعد میں بدل کر دی ٹرمپ آرگنائزیشن رکھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ دی ٹرمپ آرگنائزیشن کے صدر اور چیئرمین ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی دولت کا اندازہ 4 ارب ڈالرز تک لگایا گیا۔ دیگر کمپنیوں کے تعمیراتی منصوبوں کی اشتھاری مھم میں اپنا نام بطور فرنچائز استعمال کرنے کا معاوضہ بھی لیتے رھے ہیں۔ "ٹرمپ ٹاور" بھی ان کی پھچان بنا، جو بیس کروڑ ڈالر مالیت کے اپارٹمنٹ اور آڑھت کے کاروبار پر مشتمل ایک تنصیب ہے۔ جس کی تعمیر میں گلابی رنگ کا سنگ مرمر استعمال ھوا، جس کی 58 منزلیں ہیں، جبکہ آبشار 18 میٹر بلند ہے۔ نیو جرسی میں ایٹلانٹک سٹی میں کیسینوز کی تعمیر کی وجہ سے بھی، ٹرمپ کو شھرت ملی۔ پھلے ٹرمپ پلازا، پھر ٹرمپ کیسل اور پھر تاج محل تعمیر کیا، جس پر ایک ارب ڈالر خرچ آئے۔ لیکن بعد میں دیوالیہ پن کا شکار ھوئے۔ 1990ء میں جب جائیداد کی مارکیٹ کریش ھوئی، تو ان کی ملکیت 1.7 ارب ڈالر سے گِر کر 50 کروڑ ڈالر رہ گئی۔ قرقی سے بچنے کے لئے انھوں نے رقوم ادھار لیں اور نئے سرمایہ کار تلاش کئے، لیکن گھر کے محاذ پر، طلاق کے معاملے سے نہ بچ سکے اور ذرائع ابلاغ میں انھیں "دی ڈونالڈ" سے پھچانا جانے لگا۔ انھوں نے اپنی پھلی بیوی، اوانا کو طلاق دی، جن سے ان کے تین بچے ہیں۔ بعد میں انھوں نے مارلہ میپلز سے شادی کی اور طلاق دی۔
ٹرمپ نے 2005ء میں اپنی موجودہ بیوی، سلووینا سے تعلق رکھنے والی ماڈل، ملانیا سے شادی کی۔ ان کے ریئلٹی ٹی وی شو دِی اپرنٹس نے ٹرمپ کو ایک اداکار کا درجہ دیا۔ ٹرمپ کی املاک کے منتظم بننے کی خواھش رکھنے والے سخت مقابلے کی دوڑ میں شامل ھوئے۔ ناکام ھونے والوں کی فائل پر ٹرمپ یو آر فائرڈ تحریر کیا کرتے تھے۔ اس شو کی وجہ سے ٹرمپ کو 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی کمائی ھوئی۔
انھوں نے 1988ء، 2004ء اور 2012ء میں صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کا عندیہ دیا۔ 2006ء اور 2014ء میں نیویارک اسٹیٹ کی گورنر شپ کی دوڑ میں بھی کودتے کودتے رہ گئے۔ ٹرمپ ماڈل مینجمنٹ کے تحت 1995ء سے مس یونیورس اور مس یو ایس اے مقابلے بھی منعقد کروا رھے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ خواتین سے متعلق نازیبا گفتگو کی وجہ سے خبروں میں رھے۔ انتخابی مھم میں ٹرمپ اسلام دشمن اور نسل پرست کے روپ میں سامنے آئے۔ صدارتی دوڑ میں شامل ھونے کے بعد متعدد سکینڈل منظر عام پر آئے، جھاں کئی خواتین نے انھیں بدکردار قرار دیا، دوسری جانب فرانس کے ایک میگزین نے ان کی بیوی کی بطور ماڈل انتھائی شرمناک تصاویر شائع کیں۔
اس تعارف سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی عوام نے کرسی صدارت کیلئے ایک ایسے شخص کو چنا ہے جو عوامی خدمت، علمی، سیاسی، فکری میدان میں معروف ھونے کے بجائے خواتین، رئیل سٹیٹ بزنس، نسل پرستی اور اسلام دشمن خیالات کے باعث شھرت رکھتا ہے۔ بذات خود ٹرمپ کا انتخاب امریکی معاشرے میں بڑھتے ھوئے اخلاقی و فکری انحطاط کی بھی نشاندھی کرتا ہے۔ ایک انتھا پسندانہ ذھن ھی کسی شدت پسند کا انتخاب کرتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں امریکہ دو طرح کے فسادات کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
اول: نسلی فسادات، گذشتہ چند برسوں میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں پولیس کی جانب سے سیاہ فام افراد کو انتھائی بیدری سے فائرنگ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے خلاف مظاھرے بھی ھوئے اور ان مظاھروں میں پولیس اور سیاہ فاموں کے مابین شدید جھڑپیں بھی ھوئیں۔ یہ فسادات ایک ایسے دور میں ھوئے، جب ایک سیاہ فام ’’باراک اوبامہ‘‘ امریکی صدر تھا۔ طاقت کے بے محابہ استعمال کے بعد ان مظاھروں پر قابو پایا گیا تھا۔ ان مظاھروں کے بعد سیاہ فاموں کیخلاف پولیس گردی میں کوئی کمی واقع نھیں ھوئی۔ قرین قیاس یھی ہے کہ ٹرمپ دور میں سیاہ فاموں کے ساتھ پیش آنے والا کوئی بھی حادثہ ملک گیر تحریک میں اس لئے تبدیل ھوسکتا ہے کیونکہ ٹرمپ اپنے دور میں سیاہ فاموں کے خلاف بھی زھر اگل چکے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی اداروں میں سیاہ فام معقول تعداد میں موجود ہیں۔
دوئم: وال سٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک کہ جس کا نعرہ تھا کہ دنیا کے 99 فیصد وسائل پر ایک فیصد قابض ہیں، جبکہ ایک فیصد وسائل ننانوے فیصد کے پاس ہیں۔ اس ظلم عظیم کے خلاف اور سرمایہ دارانہ نظام کو زمین بوس کرنے کیلئے مزدورں کی ایک تحریک اٹھی، گرچہ وہ اپنے اھداف حاصل نھیں کر پائی، مگر ٹرمپ کی جیت کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ عوام اب نظام میں تبدیلی کی خواھش رکھتے ہیں۔ وہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کیلئے ھر قسم کی تبدیلی کو قبول کرنے کیلئے ذھنی طور پر آمادہ ہیں، جبکہ ٹرمپ کی ڈوریاں اس یھودی لابی کے پاس ہیں، جو اسی سرمایہ دارانہ نظام کی سرخیل ہے اور اسی کے بل بوتے پر دنیا کو سرنگوں کرنے کا خواب دیکھتی ہے۔ چنانچہ ایک امکان یہ بھی ہے کہ حقوق کے حوالے سے اٹھنے والی تحریک ممکنہ طور پر ٹرمپ حکومت کو مشکلات میں مبتلا کرسکتی ہے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ دور مذھبی ھم آھنگی کے حوالے سے بھی زیادہ مسحور کن ثابت نھیں ھوگا۔ مختلف اسکالرز کی آراء کے مطابق ٹرمپ دور میں امریکی معاشرہ مذھبی تقسیم کا شکار ھوگا۔
اگر بیرونی بالخصوص اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کے امکانات پر غور کریں تو ایران کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل، سعودی عرب کو یمن پر برسانے کیلئے خطرناک بموں کی فراھمی، اسرائیل، عرب امارات اور سعودی عرب کے سرمائے سے داعش کو جدید ھتھیاروں اور گاڑیوں کی فراھمی، افغانستان کو غیر مستحکم رکھنے اور روسی مفادات کو نشانہ بنانے کیلئے افغانستان میں داعش کی پشت پناھی، توسیع اسرائیل کے پروگرام پر عملدرآمد کی خاطر شام، عراق کو حالت جنگ میں مبتلا رکھنا، ترکی کو یورپی یونین کی مستقل رکنیت کی سرخ بتی کے پیچھے لگا کر دھشتگردوں کی حمایت و سرپرستی کا حصول اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف جاری امریکی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی متوقع نھیں ہے، کیونکہ خارجی تعلقات کا تعین اور پالیسیاں مرتب یا تبدیل کرنے کا اختیار نہ پھلے کسی امریکی صدر کے پاس تھا اور نہ ھی ٹرمپ کے پاس ھوگا۔ جس کی تازہ مثالیں ذیل ہیں۔
اوبامہ حکومت نے پاکستان کو ایف سولہ کی فراھمی کا اعلان کیا، مگر کانگریس نے اوبامہ حکومت کو ایسا کرنے سے روک دیا اور پاکستان کو ایف سولہ طیارے نھیں ملے، جبکہ پاکستان ان کی ادائیگی بھی کرچکا ہے۔
اوبامہ حکومت نے نائن الیون متاثرین کو سعودی عرب کیخلاف ھرجانے کی قانونی کارروائی کا حق دینے سے انکار کیا، مگر کانگریس نے ازخود متاثرین کو یہ حق دیا۔ اس طرح فلسطین کے حوالے سے اوبامہ نے جو اعلانات کئے تھے، ان میں سے کسی کو بھی عملی جامہ نھیں پھنا سکے۔ اوبامہ دور میں ھی اس امریکی پالیسی میں خوفناک حد تک شدت آئی، جس کے تحت فوجی مداخلت کئے بغیر اسلامی دنیا کے سرمائے سے ھی عالم اسلام کو اندرونی جنگوں میں مبتلا کیا جائے۔
شائد ٹرمپ کی جیت کا جشن منانے کیلئے غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں اسرائیلی فوج بلڈوزر اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ داخل ھوچکی ہے اور فلسطینوں کے لھو سے ھولی کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ نھیں کہ اوبامہ پاکستان، سعودی عرب، فلسطین یا اسلامی ملکوں کے دوست جبکہ کانگریس دشمن ہے، بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ دنیا کو انتشار میں مبتلا رکھنے کی تاریخی امریکی پالیسی میں تبدیلی ٹرمپ، ھیلری یا اوبامہ کی تبدیلی سے ممکن نھیں، ھاں تبدیلی اس وقت وقوع پذیر ھوگی، جب نظام تبدیل ھوگا، ننانوے فیصد کے پاس ننانوے فیصد وسائل ھوں گے اور ایک فیصد محض اپنے ایک فیصد کے مالک ھوں گے۔ جب امریکہ کا انحصار اسلحہ، نارکوٹکس کی صنعت پر نھیں رھے گا اور پوری دنیا میں امریکی فوج باقی دنیا کی ترقی کا راستہ روکے نھیں کھڑی ھوگی۔

تحریر: عمران خان

Add comment


Security code
Refresh