گندگی تو گندگی ہے۔ ھمارے ھاں گندگی کے ساتھ جینے کا رواج عام ھوچکا ہے۔ اگر کسی شھر میں ھر طرف گندی نالیاں ھوں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ھوں اور بدبو ھر طرف پھیلی ھوئی ھو
تو لوگ ھر روز اپنی ناک اور منہ لپیٹ کر خاموشی کے ساتھ وھاں سے گزر جائیں گے۔ اکثر اسے اللہ کی مرضی سمجھتے ھوئے تھوکیں گے بھی نھیں۔ بے شک کئی سال گزر جائیں، کوئی بات نھیں لوگ اسی طرح ناک اور منہ لپیٹ اور پائنچے اوپر اٹھا کر گزرتے رھیں گے۔
ایسے میں اگر کوئی شخص اس گندگی کو صاف کرنے کے لئے کمر ھمت کسے اور متعلقہ اداروں کو جھنجھوڑ کر صفائی کروانا چاھے تو لوگوں کا ایک طبقہ فوراً اپنی ناک سے رومال ھٹا کر کھے گا کہ یہ سب تو ایجنسیوں کو خوش کرنے، میڈیا کو دکھانے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے ھو رھا ہے۔
سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ اتنا عرصہ آپ جو ناک اور منہ پر رومال لپیٹ کر اس گندگی میں سانس لیتے رھے، آپ نے کس وجہ سے گندگی کے ساتھ کمپرومائز کئے رکھا!؟
ماحول کی آلودگی کے ساتھ ساتھ اخلاقی آلودگی اور لاقانونیت کی بھی بھرمار ہے۔ لوگوں کی ایک اکثریت اخلاقی اور قانونی مسائل کو مسائل ھی نھیں سمجھتی، لوگوں کو یہ پتہ ھی نھیں کہ مسائل کو قانونی اور اخلاقی طریقے سے کیسے حل کیا جاتا ہے۔ اکثریت بس ناک منہ لپیٹ کر وقت گزارنے والوں کی ہے۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد کئی سالوں سے ناک منہ لپیٹ کر کوئٹہ سے تفتان کا سفر کرتی رھی۔ اس دوران قم کے ایک عالم دین نے اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیر قانونی آلودگی کے خلاف آواز بلند کی۔ بعد ازاں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے خود تفتان روٹ پر سفر کیا، لوگوں کی مشکلات سنیں اور اعلٰی سطح پر یھاں کے مسائل کو حل کروانے کے لئے مھم چلائی۔
ابھی ان کا دورہ جاری ھی تھا کہ طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں، میرا مقصد کسی کا دفاع کرنا نھیں ہے بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کیا ھم گندگی کے ساتھ کمپرومائز کرنے والے لوگوں میں سے ھوجائیں، کیا ناک اور منہ لپیٹ کر اور پائنچے اوپر اٹھا کر نسل در نسل اسی طرح گزرتے رھیں یا پھر اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیر قانونی آلودگی کے خلاف سعی اور کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔
لوگ دو طرح کے ھی ہیں، کچھ گندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے جیتے ہیں اور کچھ گندگی کو ختم کرکے پاکیزہ فضا میں سانس لینے کی جدوجھد کرتے ہیں۔ اب دوسروں کو برا بھلا کھنے کی ضرورت نھیں، یہ ھمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ھم کس طرح کے لوگوں میں شمار ھونا پسند کرتے ہیں۔ ناک منہ لپیٹ کر جینے والوں کے ساتھ یا پاکیزہ فضا کی خاطر جدوجھد کرنے والوں کے ساتھ۔
تحریر: نذر حافی