عالم اسلام کے خائن حکمران کھل کر مقاومت اسلامی کے محور کے خلاف میدان میں آچکے ہیں۔ ان کا ھر اجلاس مقاومت اسلامی کے محور کے خلاف بیانات کے ساتھ شروع و ختم ھو رھا ہے۔
اسی سلسلے کا ایک اجلاس آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی) کا دو روزہ سربراھی اجلاس بعنوان: ’’ اتحاد و یکجھتی برائے انصاف و امن‘‘ تھا جو ترکی کے شھر استنبول میں ھوا۔ اس کی کارروائی کی تفصیلات کا مطالعہ کریں تو معلوم ھوگا کہ یہ اجلاس اتحاد کی بجائے فساد، یکجھتی کی بجائے انتشار برائے ظلم و جنگ تھا۔ یہ اجلاس خائن حکمرانوں کے کھوکھلے بیانات اور دوغلے پن کے عملی اظھار کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
بنیادی طور پر اس اجلاس کے نتیجے میں چار نوعیت کی گفتار سامنے آئی۔ اعلان استنبول، حتمی اعلامیہ، قراردادیں اور او آئی سی 2025ء پروگرام آف ایکشن یا برنامہ عمل۔ عملی طور پر اس پورے اجلاس کی کارروائی بادشاھوں اور ان کے اتحادی صدور اور وزرائے اعظم کی مدح سرائی پر مبنی تھی، بادشاھوں کی مخالف مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کی مذمت کی گئی۔ بجائے اس کے کہ یمن جنگ پر سعودی اتحادیوں کو سرزنش کی جاتی، بجائے اس کے کہ شام میں دھشت گردی کروانے والے سعودی و اتحادی ممالک کی مذمت کی جاتی، اس سربراھی اجلاس میں اس کے برعکس ھوا۔
عالم اسلام کے دردمند حلقے متوجہ ہیں کہ سعودی عرب نے صھیونیت کے لئے بانھیں پھیلا دی ہیں۔ اس اجلاس سے پھلے بھی جعلی ریاست اسرائیل کے اھم غاصبوں سے سعودی شھزادے ترکی ال فیصل سمیت بھت سوں کی ملاقاتیں ھوچکی تھیں اور اس کھوکھلے سربراھی اجلاس کے بعد بھی اس خائن عرب سعودی وھابی شھزادے نے نیتن یاھو خبیث کے مشیر سے ملاقات کرکے ثابت کیا کہ آل سعود کے ھوتے ھوئے فلسطین کی آزادی ممکن ھی نھیں۔
لبنان سے یکجھتی کا اظھار کرنے کی بجائے لبنان کی حکومت کی دفاعی امداد روک کر جعلی ریاست اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو خوش کیا گیا۔
اسی طرح شام کے پھاڑی علاقے جولان پر صھیونی کابینہ کے اجلاس کی خبر پر ان کا ردعمل مگرمچھ کے آنسوؤں کے مترادف ہے، کیونکہ انھوں نے 1973ء سے آج تک شام کی حکومت کا اس علاقے کی آزادی کے لئے کبھی بھی ساتھ نھیں دیا ہے، آج بھی وہ شام کی قانونی آئینی منتخب جمھوری حکومت کے خلاف دھشت گردوں اور باغیوں کی مدد کر رھے ہیں اور صھیونی حکومت بھی انھی باغیوں کو مقبوضہ جولان میں سھولیات فراھم کر رھی ہے۔ یھی رائے ان حکمرانوں کی فلسطین پالیسی کے بارے میں بھی دی جاسکتی ہے۔ شاہ اردن ھوں یا شاہ مراکش یا ترکی کی حکومت، یہ سبھی وہ حکومتیں ہیں، جو فلسطین پر قابض غاصب حکومت کو تسلیم کرچکی ہیں، جیسا کہ اردن اور ترکی ہیں جبکہ مراکش کا بادشاہ بھی در پردہ صھیونی حکومت سے تعلق قائم کرچکا ہے۔ ان کی تعریف و توصیف کرنا یا ترکی کو قدس کمیٹی میں شامل کرنے کا مطلب مقدمہ فلسطین کو کمزور کرنا ہے، کیونکہ یہ ممالک صھیونی ناجائز مملکت کی نابودی نھیں چاھتے اور نسل پرست صھیونی جعلی ریاست کے خاتمے کے بغیر فلسطینیوں کو انصاف مل ھی نھیں سکتا۔
او آئی سی کے سربراھی اجلاس کے بارے میں ترکی کے دانشوروں نے خود ھی اس کے کھوکھلے پن اور ناکامی کے بارے میں اظھار نظر کیا۔ ایک خاتون کالم نگار نے سوال اٹھایا کہ آیا اسلامی دنیا کا کھیں کوئی عملی وجود بھی ہے؟ انھوں نے کھا کہ طول تاریخ میں ان اسلامی ممالک نے کبھی خود پر بھی اسلام لاگو نھیں کیا اور بیشتر ممالک میں بادشاھتیں اور آمریتیں ہیں اور یہ ساری کی ساری مطلق العنان حکومتیں ہیں۔
ایک اور کالم نگار نے ترکی کے رجب طیب اردگان اور احمد داؤد اوغلو کا مذاق اڑایا کہ غزہ کی یاد میں آنسو بھانے والے ان دونوں ترک حکمرانوں نے عملی طور پر فلسطینیوں کی کونسی مدد کی ہے۔ انھوں نے غزہ کے لئے 20 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا، جس کا نصف بھی تاحال انھوں نے ادا نھیں کیا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ سربراھی اجلاس عدم اتحاد و عدم یکجھتی برائے ظلم و جنگ تھا، اس کا ایک واضح ثبوت خود ان اتحادیوں کے درمیان اختلافات تھے۔ مثال کے طور پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ایک ایک ملک کا نام لے کر کھا کہ ان ان ممالک نے او آئی سی کے لئے اپنے حصے کی رقم ادا نھیں کی ہے، تو اس پر سعودی حکمران سمیت بعض عرب حکمرانوں کو برا لگا اور انھوں نے تاکید کی کہ یہ باتیں آف دی ریکارڈ ھونی چاھئیں، فورم پر بات نہ کی جائے اور نادھندہ ملکوں کے نام نہ لئے جائیں۔
ایک ترک دانشور نے توجہ دلائی کہ او آئی سی کے اندر ایک یورپ گروپ بنانے سے پھلے کم از کم بوسنیا کو ایک رکن ملک کی رسمی حیثیت تو دے دی جائے، کیونکہ ابھی تک بوسنیا ایک مبصر ملک کی حیثیت سے او آئی سی اجلاسوں میں بلایا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک افسوسناک امر ہے کہ یورپ کے مظلوم مسلمان ملک کو تاحال او آئی سی کی رکنیت ھی نھیں دی گئی، جبکہ ایک غیر مسلم افریقی ملک طویل عرصے سے او آئی سی کا رکن ملک ہے۔ او آئی سی خود تو بوسنیا کا حق تسلیم کرے۔ پھر اس کے بعد عمل کا مرحلہ باقی رھتا ہے۔ یعنی او آئی سی زبانی کلامی مظلوم مسلمانوں سے اظھار ھمدردی کرنے کے لئے قائم کیا گیا ادارہ ہے۔ یھاں او آئی سی کا پس منظر بھی یاد رھنا چاھئے کہ مسجد اقصٰی میں آتش زدگی کے ردعمل میں یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا اور اس کا بنیادی ھدف فلسطین کی آزادی اور ال قدس شریف (یروشلم) اس کا دارالحکومت ھو، یہ ھدف تھا۔
کوئی پوچھے کہ 1969ء سے اب تک او آئی سی نے اپنے اس بنیادی ھدف تک پھنچنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ کیا سینتالیس سال میں انھوں نے جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ ایک بھی جنگ لڑی؟ کیا ان سینتالیس برسوں میں انھوں نے ایک مرتبہ بھی فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے کے لئے ایسا فوجی اتحاد بنایا جیسے یمن پر جنگ مسلط کرنے کے لئے بنایا اور جیسا انتھا پسندی کے خاتمے کے لئے نام نھاد اتحاد قائم کیا گیا ہے؟ کیوں او آئی سی اپنے اس بنیادی ھدف کے حصول کے لئے کوئی سنجیدہ عملی قدم اٹھانے سے گریز کرتی رھی اور کیوں او آئی سی سعودی وھابی عزائم کے حصول کا ایک ذریعہ بنادی گئی؟
ان سوالوں کے جوابات سعودی بادشاھت کے اتحادی امریکی حکومت کے اعلٰی عھدیداروں نے دیئے ہیں۔ ان سوالوں کے جوابات امریکا کی سابق وزرائے خارجہ کونڈولیزا رائس اور ھیلری کلنٹن نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں دیئے ہیں۔ ان سوالوں کے جوابات سابق امریکی وزرائے خارجہ رابرٹ گیٹس اور لیون پنیٹا نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں دیئے ہیں۔ ان سب باتوں کا ایک ھی جواب ہے کہ سعودی حکمران امریکی حکومتوں سے فلسطین کی آزادی کے لئے دباؤ ڈالنے کے لئے کبھی سنجیدہ تھے ھی نھیں بلکہ وہ دیگر ایشوز پر امریکا سے مشکل کشائی کے طلبگار تھے۔
امریکا نے عراق پر جنگ ایران یا شیعوں کے لئے نھیں کی تھی بلکہ انھی خلیجی عرب ممالک کی درخواست پر کی تھی اور انھی کو صدام کی حکومت سے خطرہ محسوس ھونے لگا تھا، حالانکہ صدام کو ایساخطرہ بنانے میں ان کا اپنا کردار تھا، اسے اسلحہ اور مالی مدد انھی ممالک نے فراھم کی تھی، تاکہ وہ ایران کے خلاف امریکی اسرائیلی جنگ لڑے، لیکن دنیا میں یہ تاثر پھیلایا جائے جیسے کہ سنی عرب ممالک کے اتحاد کی جانب سے یہ جنگ لڑی جا رھی ہے۔ آج صدام تو نھیں ہے لیکن امریکا و اسرائیل کے اتحادی سعودی عرب نے اسی ایجنڈا کی قیادت کے لئے خود کو پیش کر دیا ہے اور اس کی ایران دشمنی اسی جنگ کا تسلسل ہے۔
اس لئے او آئی سی سربراھی اجلاس ایک اور مرتبہ اپنے کھوکھلے بیانات کے ساتھ شروع ھوکر ختم ھوگیا۔ لیکن امت اسلامی کے مسائل اپنی جگہ برقرار ہیں۔ نہ تو ان حکمرانوں کے آسرے پر فلسطین نے آزاد ھونا ہے ۔ بوسنیا اور کوسوو ھو یا یمن، شام اور لیبیا کے عرب مسلمان، ان سب جگھوں پر مسلمانوں کی حالت زار کی بنیادی وجہ سعودی بادشاھت اور امریکا کا اتحاد ہے، کیونکہ اس منحوس اتحاد نے ھی عالم اسلام میں صھیونیت کے وسیع تر مفاد میں فساد، اختلافات اور خانہ جنگیوں اور دھشت گردوں کو جنم دے رکھا ہے۔
او آئی سی ایک اچھا ادارہ بننے میں اس لئے ناکام رھا کہ جس ھدف کی سمت اس نے سفر کرنا تھا، اسے اس پٹڑی پر چڑھنے ھی نھیں دیا گیا۔ جب عالم اسلام کو ترک و حجاز کے اتحاد کی ضرورت تھی، تب خائن عربوں نے عالمی سامراج برطانیہ کا ساتھ دیا تھا اور جب آج عالم اسلام کو عرب ایران اتحاد کی ضرورت ہے تو خائن عرب کھل کر عالمی سامراج امریکا کی گود میں جابیٹھے ہیں۔
او آئی سی کے سربراھی اجلاس میں ترکی اور قازقستان کے معاھدہ برائے اسلامی مفاھمت کو سراھا گیا، لیکن عملی طور پر اسلامی مفاھمت کا وجود کھاں تلاش کیا جائے۔ کیا یمن پر سعودی جارحیت، شام میں دھشت گردی، ایران اور حزب اللہ کے خلاف بیانات اور لبنان کی امداد روکنے سے اسلامی مفاھمت کی نفی نھیں کی گئی۔
او آئی سی کے عرب بزرگان تو دراصل اسرائیلی مفاھمت کے تحت یہ سارے اسلام و عرب دشمن اقدامات کر رھے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ان کے کھوکھلے بیانات اور دوغلی پالیسی کی وجہ سے فلسطین کی آزادی تا قیامت ممکن نھیں، بالکل اسی طرح ان کی کھوکھلی دھمکیوں کی ایران، شام، انصار اللہ اور حز ب اللہ کو بھی کوئی پرواہ نھیں۔ یھی مقاومت اسلامی کے محور کی ٹھوس اور اسلام و عرب دوست پالیسیوں کی کامیابی کی دلیل ہے کہ ایک اور مرتبہ ھمفرے اور لارنس آف عربیہ کے تربیت یافتہ نام نھاد عرب حکمران عالم اسلام کی پشت میں خنجر گھونپنے کی تاریخ دھرا رھے ہیں، لیکن اس مرتبہ امت اسلامی ان کی چال سے آگاہ ہے۔
تحریر: عرفان علی
خائن مسلم حکمران اور مقاومت اسلامی کا محور
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1496