www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

800530
ملکوں کی معیشت میں بڑی تعمیراتی کمپنیاں، فیکٹریاں، بینک اور دیگر مالیاتی ادارے اھم کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک اگر صحرائی ھو اور اس کی طرف عقیدت سے آنے والے زائرین کی تعداد سالانہ کروڑوں میں ھو اور اس میں آئے دن اضافہ ھی ھوتا جائے تو وھاں سڑکوں، ھوٹلوں اور انفراسٹرکچر کے دیگر شعبوں و منصوبوں پر حکومت کی جانب سے خاص توجہ دینا مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ھم مگر اس امر کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ضروری ہے۔ یہ امر البتہ اھمیت کا حامل ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں تعمیراتی کمپنیوں نیز تیل تلاش کرنے والی کمپنیوں میں لاکھوں غیر ملکی مزدور کام کرتے ہیں، جن میں سے کثیر تعداد ایشیائی ممالک کے شھریوں کی ہے۔
یہ خبریں منظر عام پر آتی رھتی ہیں کہ عرب ممالک میں پاکستانی و دیگر ممالک کے مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک بھی کیا جاتا ہے اور بعض کمپنیاں ایسی بھی ہیں، جو وہ مقررہ تنخواہ ھی نھیں دیتی ہیں جو کہ مزدور یا ٹیکنیکل سٹاف کے کسی ممبر کو ٹریول ایجنٹ کے ذریعے بتائی جاتی ہے۔ تھوڑی سی چھان بین کی جائے تو آپ کے اردگرد ھی ایسے افراد آپ کو مل جائیں گے، جو ھوش ربا تفصیلات بتائیں گے۔
اس سب کے باوجود ایشیائی ممالک کے افراد اگر یورپ نہ جا سکیں تو ان کی پھلی ترجیح سعودی عرب یا پھر دبئی ھوتی ہے۔ ابوظھبی، شارجہ، مسقط، قطر، عمان، بحرین وغیرہ میں کام کرنے والی کمپنیوں کے ویزہ جات کی طرف توجہ اس کے بعد کی جاتی ہے، یعنی یہ دوسری ترجیح ھوتی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد اس سب کے باوجود کہ عرب ممالک میں انھیں ایک کفیل کے ماتحت کام کرنا ھوگا اور ان کی حیثیت ویسے شھری کی سی نھیں ھوگی، جیسی کسی ایشیائی یا عرب باشندے کو یورپ جا کر حاصل ھو جاتی ہے، لوگ سعودی عرب جانا پسند کرتے ہیں۔
ھاں جانے کا فیصلہ کر لینے کے بعد، بالخصوص ڈرائیور، انجینئیرز، مزدور، میسن وغیرہ اس بات کا کھوج لگاتے ہیں کہ کسی ایسی کمپنی کا انتخاب کیا جائے یا کسی ایسی کمپنی کا ویزہ حاصل کیا جائے، جس کی شھرت اچھی ھو اور جو مزدوروں کو رھائش، کھانا، صحت کی سھولت اور وقت پر تنخواہ دیتی ھو، یہ تنخواہ اگرچہ کم ھی کیوں نہ ھو، مگر وقت پر ملتی ھو۔ ان ساری جزئیات کو سوچنے کے بعد سعودی عرب کے لئے لوگوں کی پھلی ترجیح اسامہ بن لادن کے خاندان والی’’بن لادن‘‘ کمپنی کے ویزے کا حصول ھوتا ہے۔
اگرچہ یہ امر بھی درست ہے کہ ماضی میں بن لادن کمپنی ایشیائی محنت کشوں میں بڑی مقبول تھی اور اس کمپنی میں کام کرنے والے مزدور اپنے عزیز و اقارب کو اس کمپنی کا ویزہ حاصل کرنے کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے، وقت مگر ایک سا نھیں رھتا۔ ھر عروج کو زوال ہے۔
ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی خبر نے اخبار نویس کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ خبر کے مطابق ’’سعودی عرب کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی بن لادن گروپ نے سعودی حکومت کی جانب سے تیل کی کم قیمتوں اور ترقیاتی اخراجات میں کمی کے بعد اپنے 50 ھزار ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی شاھی خاندان بن لادن گروپ کو کئی دھائیوں سے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے دیتا رھا ہے، جس میں مسجد الحرام کا توسیعی منصوبہ بھی شامل ہے۔ تاھم اب سعودی حکومت کو عالمی منڈی میں عرصے سے تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا ہے اور اس نے متعدد تعمیراتی منصوبوں پر کام روک یا اسے منسوخ کر دیا ہے۔ کمپنی کے بعض منصوبوں میں کام کرنے والے ملازمین نے کئی ماہ سے تنخواھیں نہ ملنے پر احتجاجی مظاھرے بھی کئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے الوطن اخبار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملازمت سے نکالے گئے ملازمین غیر ملکی ہیں۔ الوطن کے مطابق نکالے گئے ملازمین کو ملک سے نکلنے کو کھا گیا ہے، لیکن ملازمین نے تنخواہ کی ادائیگی تک ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان میں سے بعض ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہ نھیں ملی اور یہ کمپنی کے مرکزی دفتر کے سامنے ھر روز احتجاج کرتے ہیں۔
بن لادن گروپ اسی خاندان کی ملکیت ہے، جس سے شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن دلان کا تعلق تھا۔ سعودی عرب کی کابینہ نے رواں برس ھی ملکی معیشت کی تیل سے ھونے والی آمدن پر بڑی حد تک انحصار کو کم کرنے کی کوشش کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔
سعودی عرب میں حکومتی آمدن کا تقریباً 80 فیصد حصہ تیل کی فروخت سے حاصل ھونے والی رقم پر مشتمل ہے اور گذشتہ برس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے اس کی معیشت متاثر ھوئی ہے۔ سعودی کابینہ کے منصوبے سے چند دن قبل یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں تھیں کہ سعودی عرب تیل سے حاصل ھونے والی آمدن میں کمی کے باعث بین الاقوامی بینکوں کے ساتھ دس ارب ڈالر قرضے کا معاھدہ کرنے کے قریب ہے۔"
یہ خبر اس حوالے سے بھی اھمیت کی حامل ہے کہ دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ میرے ھزاروں ھم وطن بھی عرب ممالک اور بالخصوص بن لادن کمپنی میں ملازم ہیں۔ جیسا کہ سطور بالا میں ذکر کیا کہ عرب حکومتیں غیر عرب ملازمین کو وہ بنیادی انسانی حقوق تک بھی نھیں دیتیں کہ جو کافر حکومتیں بھرحال غیر ملکیوں کو دیتی ہیں۔
بن لادن گروپ کی جانب سے پچاس ھزار ملازمین کو کمپنی سے فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک سے چلے جانے کا کھنا بے شک ایک ستم ہے کہ ان میں سے بیشتر کو کئی ماہ کی تنخواہ ھی نھیں ملی۔ ھم سمجھتے ہیں کہ کمپنی ان پچاس ھزار ملازمین کو نہ صرف ان کی روکی بلکہ غصب کی ھوئی تنخواھیں دے بلکہ کمپنی اور سعودی حکومت مل کر ان پچاس ھزار ملازمین کو چھ چھ ماہ کا بونس بھی دے اور اس کے بعد ان کو نوکری سے فارغ کرے، تاکہ یہ غریب اپنے اپنے وطن واپس آکر کم از کم وہ قرض تو ادا کرسکیں، جو وہ رشتہ داروں اور دوستوں سے لے کے بھتر مستقبل کی خاطر اس کمپنی میں بھرتی ھوگئے تھے اور ان کے ساتھ بن لادن کی کمپنی نے وھی کیا جو اسامہ بن لادن نے سارے عالمِ اسلام کے ساتھ کیا ہے۔ کیا یہ بن لادن گھرانے کی سرشت ہے کہ وہ لوگوں کے لئے تکلیف کا ھی باعث بنتے ہیں۔؟
تحریر: طاھر یاسین طاھر

Add comment


Security code
Refresh