www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

210301
تاریخ اسلام عظیم المرتبت خواتین سے مملو ہے، انھی میں ایک جلیل القدر خاتون حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا ہیں۔ حضرت فاطمہ کلابیہ جن کا مشھور و معروف لقب ام البنین تھا۔
بی بی حضرت ام البنین فاطمہ بنت حزام کلابیہ کی ولادت رسول پاک کی ھجرت کے تقریبا پانچ سال کے بعد ھوئی۔ آپ کا اصل نام فاطمہ وحیدیہ کلابیہ ہے۔ عربوں کے درمیان خواتین کے لئے فاطمہ کا نام بھترین اور پربرکت ترین سمجھا جاتا تھا۔ جب آپکا کا نام فاطمہ رکھا گیا تو اس وقت فاطمہ نام کی تین خواتین موجود تھیں، حضرت فاطمہ بنت اسد (والدہ حضرت علی)، فاطمہ بنت حمزہ یا فاطمہ بنت ربیعہ، اور حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا دختر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزیز بیٹی، حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات، حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی دردناک شھادت کو تقریبا پندرہ سال کا عرصہ گذر چکا تھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل کو جو خاندان عرب کے حسب و نسب سے بھت زيادہ واقف تھے، اپنے پاس بلایا اور ان سے فرمایا کہ آپ ایک بھادر خاندان سے ایک ایسی خاتون تلاش کریں، جس کے بطن سے بھادر بچے پیدا ھوں۔
حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ سن اکسٹھ ھجری جیسے حساس اور پر آشوب زمانے میں اسلام کے احیاء کے لئے بھت زيادہ ایثار و قربانی کی ضرورت پیش آئے گی، حضرت علی علیہ السلام اس بات سے بھی باخبر تھے کہ ان کی شھادت کے دوعشروں بعد واقعہ کربلا رونما ھوگا، کیونکہ رسول خدا نے اس واقعہ سے انھیں آگاہ فرمایا تھا، لھذٰا ضرورت تھی کہ ایسے موقع کے لئے ایک ایسا بھادر و جانباز فرزند موجود ھو، جو کربلا میں امام حسین کی نصرت کرے۔ اسی لئے جناب عقیل نے جناب ام البنین کی حضرت علی علیہ السلام سے سفارش کی کیونکہ ان کا خاندان اور قبیلہ " بنی کلاب " عرب کے شجاع و بھادر قبائل میں سے ایک تھا۔
جناب عقیل نے حضرت ام البنین کے گھرانے کے بارے میں بتایا کہ پورے عرب میں ان کے آباؤ و اجداد سے زيادہ بھادر کوئی نھیں، علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کرلیا اورجناب عقیل کو رشتہ لینے جناب ام البنین کے والد کے پاس بھیجا، ان کے والد اس مبارک رشتے سے بھت زيادہ خوش ھوئے اور فورا ھی اپنی بیٹی کے پاس گئے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی معلوم کرنا چاھی، ام البنین نے اس رشتے کو سربلندی و افتخار سمجھ کر قبول کرلیا، اور پھر اس طرح جناب ام البنین اور حضرت علی علیہ السلام رشتہ ازدواج سے منسلک ھوگئے، حضرت ام البنین عقل و خرد، مستحکم ایمان اور بھترین صفات سے مزین تھیں، اسی لئے علی علیہ السلام ان کا بھت زیادہ احترام کرتے تھے اور ان کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔
جناب ام البنین ایک بھادر و شجاع، مستحکم و راسخ ایمان و ایثار اور فداکاری کا بھترین پیکر اور بافضیلت خاتون تھیں، آپ کی بھترین تربیت نے آپ کی اولاد کو اوج معرفت سے نوازا۔ بھادری و شجاعت کے علاوہ علم بھی دونوں جانب سے بچوں کو ورثے میں ملی، اس لئے اولادیں بھی نہ صرف نھایت ھی شجاع و بھادر تھیں بلکہ علم و فضل میں بھی کمال رکھتی تھیں، آپ کے چاروں بیٹوں کے درمیان حضرت عباس علیہ السلام ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا، آپ تمام شھدائے تاریخ کے درمیان ستاروں کی طرح جگمگاتے تھے۔
جناب ام البنین کی فرزندان زھرا سلام اللہ علیھا سے محبت و معرفت:
حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا کی تمام تر کوشش یہ ھوتی تھی کہ امام حسن و حسین اور علی و فاطمہ کی دو بیٹیوں زینب و ام کلثوم علیھما السلام کی زندگی میں ماں کی کمی کو پورا کریں اور بچے اس کمی کو محسوس نہ کریں۔ حضرت علی علیہ السلام کے تمام فرزند ایسی شفیق و مھربان ماں کے بابرکت وجود کے ھوتے ھوئے ماں کے ‏غم کو بھت کم یاد کرتے تھے، کیونکہ حضرت ام البنین نے پیغمبر اسلام کے بچوں کو جو صاحبان فضيلت و کرم تھے، اپنے بچوں پر ھمیشہ مقدم رکھا اور اپنے بچوں سے زیادہ ان سے محبت کی، اور اس راہ میں ذرہ برابر بھی کوتاھی نھیں کرتی تھیں۔
آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بچوں کی حفاظت و محبت کو دینی فریضہ شمار کرتی تھیں چونکہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں تمام لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اھلبیت سے محبت کریں۔ روایت میں ہے کہ جس دن حضرت ام البنین رخصت ھوکر حضرت علی علیہ السلام کے بیت الشرف تشریف لائیں، اس دن امام حسن و امام حسین علیھم السلام بستر بیماری پر تھے حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات نے جیسے ھی گھر میں قدم رکھا، دونوں بچوں کے پاس پھنچ گئیں اور مھربان ماں کی طرح ان کی دلجوئی کرنے لگیں، جیسا کہ تاریخ کی اھم کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت ام البنین نے ازدواجی زندگی شروع ھونے کے فورا بعد ھی حضرت علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ مجھے میرے اصلی نام فاطمہ کی بجائے ام البنین کے نام سے پکاریں تاکہ دونوں شھزادوں حسن و حسین کو اس نام کی وجہ سےاپنی مادرگرامی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی یاد نہ آئے اور انھیں یاد کرکے ان کے دل غمگین نہ ھوں۔ آپ نے خود کو فرزندان زھرا سلام اللہ علیھا کی خدمت کے لئے وقف کردیا تھا البتہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندوں کے ساتھ ان کی بےلوث محبتیں اور ان کے بچوں کی ایثار و قربانی امام حسین علیہ السلام کی راہ میں کارگر ثابت ھوئیں اور تاريخ میں آج بھی ان کے ایثار و قربانی کا ذکر موجود ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھلبیت حضرت ام البنین کا بھت زيادہ احترام کرتے تھے اور ھمیشہ ان کے ایثار و قربانی کا ذکر کرتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام سے شادی کے نتیجہ میں حضرت ام البنین نے چارشجاع اور بھادر بیٹوں کو جنم دیا، جن کے نام عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان تھے اور ان ھی بیٹوں کی وجہ سے انھیں ام البنین، یعنی بیٹوں کی ماں، کھا جاتا تھا۔
حضرت ام البنین کے یہ چاروں بیٹے کربلا میں شھید ھوئے اور صرف حضرت عباس کی نسل ان کے بیٹے عبیداللہ سے جاری رھی۔ حضرت ام البنین کے پھلے بیٹے حضرت ابوالفضل العباس تھے۔ بعض محقیقین کا اعتقاد ہے کہ حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام 4 شعبان 26 ھ میں پیدا ھوئے ہیں۔
جب حضرت عباس کی ولادت کی خوش خبری امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو دی گئی، وہ فورا اپنے گھر گئے اور بیٹے کو آغوش میں لےلیا، اس کے بوسے لئے اور اسلامی سنت اور رسم کے مطابق پیدائش کے ساتویں دن ایک بھیڑ کو عقیقہ کے عنوان سے ذبح کیا اوراس کے گوشت کو فقراء کے درمیان صدقہ کے طور پر تقسیم کیا۔
حضرت امام علی علیہ السلام نے اس کا نام عباس (کچھار کا خشمگین شیر) رکھا، کیونکہ وہ باطل اور گمراھیوں کے مقابلے میں خشمگین اور جری تھے اور نیکیوں کے مقابلے میں ھنس مکھ تھے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ کو چھوڑ کر حج اوراس کے بعد عراق ھجرت کرنے کا فیصلہ کیا، ام البنین، امام حسین (ع) کے ھمراھیوں کو یہ نصیحت کی، "میرے نور چشم امام حسین (ع) کی فرماں برداری کرنا"۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے حضرت عباس کے بارے میں فرمایا، "رحم اللہ عمی العباس لقد اثر وابلی بلاء حسنا۔ ۔ ۔" خدا ھمارے چچا عباس پر رحمت کرے، کتنا بھتر امتحان دیا، جاں نثاری کی اور شدید ترین امتحانات پاس کئے۔ ھمارے چچا عباس کے لئے خدا کے پاس ایک ایسا مقام ہے کہ تمام شھداء اسپر رشک کرتے ہیں۔"
شب عاشور کو ام البنین کی تربیت کی ایک جھلک:
شب عاشور عباس، ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے پاس بیٹھے تھے۔ اسی دوران شمر ذی الجوشن آ کے فریاد بلند کرتا ہے" عباس بن علی اور ان کے بھائیوں سے کھدو کہ ھمارے پاس آجائیں"۔ عباس اس آواز کو سنتے ہین لیکن سننے کے باوجود نظرانداز کرتے ہیں، اس کی طرف کوئی اعتنا نھیں کرتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے سامنے اسی طرح با ادب بیٹھے ہیں، امام نے ان سے مخاطب ھو کر فرمایا، "اس کا جواب دیدو، اگرچہ وہ فاسق ہے"۔
حضرت عباس آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ شمر ذی الجوشن ہے۔ شمر، حضرت ابوالفضل العباس کے ساتھ ان کی ماں کی طرف سے دور کا رشتہ دار تھا۔ کوفہ سے آتے وقت حضرت ابوالفضل العباس اور ان کے بھائیوں کے لئے امان نامہ لے کر آیا تھا اور اسے اپنے خیال میں ان کے حق میں ایک خدمت جانتا تھا۔ جب شمر نے اپنی بات ختم کی، حضرت عباس(ع) کے چھرہ اقدس پر غیض و غضب کے آثار نمودار ھوئے، اس کی طرف رخ کرکے بولے" خدا تجھ پر، اور اس امان نامہ پر اور اسے تیرے ھاتھ میں دینے والے پر لعنت کرے، تم نے مجھے کیا سمجھا ہے؟ میرے بارے میں کیا خیال کیا ہے؟ کیا تم نے یہ سمجھا ہے کہ عباس اپنی جان بچانے کے لئے، اپنے امام اور بھائی امام حسین (ع) کو تنھا چھوڑ کر تیرے پیچھے آئے گا؟ جس دامن میں ھم نے پرورش پائی ہے اور جس ماں کا ھم نے دودھ پیا ہے، اس نے ھمیں اس طرح تربیت نھیں دی ہے کہ ھم اپنے امام اور بھائی کے ساتھ بے وفائی کریں ۔
جناب ام البنین سلام اللہ علیھا اور وقت کے امام کی معرفت:
تاریخ میں نقل ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں جناب ام البنین سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شھادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد کی طرف سے بھیجے گئے تھے، ام البنین نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا، اے بشیر! امام حسین ( علیہ السلام) کے بارے میں کیا خبر لائے ھو؟ بشیر نے کھا، خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کئے گئے۔ ام البنین نے فرمایا، " مجھے حسین (علیہ السلام) کی خبر بتادو۔" بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شھادت کا بتایا، لیکن ام البنین کی معرفت کی انتھاء کے یھاں، مسلسل امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھتی رھیں۔ فرمایا" یا بشیر اخبرنی عن ابی عبداللہ الحسین، اولادی و تحت الخضری کلھم فداء لابی عبداللہ الحسین"۔ اے بشیر! مجھے ابی عبداللہ الحسین کی خبر بتا دو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبداللہ الحسین (ع) پر قربان۔ جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شھادت کی خبر دی تو ام البنین نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایا، " قد قطعت نیاط قلبی"، اے بشیر! تونے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و فریاد کی۔ امام حسین علیہ السلام سے ان کی اس قدر محبت، ان کی معنویت میں کمال کی دلیل ہے کہ انھوں نے تمام مصائب کو ولایت کی راہ میں فراموش کیا اور صرف اپنے امام اور رھبر کی بات کی۔
مقام ام البنین سلام اللہ علیھا حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی نظر میں:
حضرت زینب کبرٰی سلام اللہ علیھا مدینہ میں پھنچنے کے بعد، حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا کی خدمت میں حاضر ھوئیں اور ان کے بیٹوں اور اپنے بھائیوں کی شھادت کے بارے میں تسلیت و تعزیت کی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی، شریکۃ الحسین، یعنی زینب کبرٰی سلام اللہ علیھا کے، ام البنین کی خدمت میں حاضر ھوکر ان کے بیٹوں کی شھادت پرکلمات تسلیت و تعزیت کھنے سے اھل بیت (ع) کی نظر میں ام البنین کے بلند مقام و منزلت کا پتہ معلوم ھوتا ہے۔
حضرت زینب کبرٰی سلام اللہ علیھا اعیاد اور اسی طرح کی دوسری مناسبتوں پر بھی احترام بجالانے کے لئے ام البنین کی خدمت میں حاضر ھوتی تھیں۔ جناب ام البنین کے چار بیٹے کربلا میں شھید ھوئے، صبر و شکیبائی کی بلندیوں پہ کھڑی اس خاتون کو نہ صرف چار شھید بیٹوں کی ماں ھونے کا شرف اور افتخار ملا، بلکہ شھید کی بیوہ بھی ہے۔ ام البنین کی اھم خصوصیات میں سے، زمانہ اور اس کے مسائل کی طرف ان کا توجہ کرنا ہے۔
انھوں نے کربلا کے واقعہ کے بعد، نوحہ خوانی اور مرثیہ سرائی سے استفادہ کیا تاکہ کربلا والوں کی مظلومیت کی آواز کو آنے والی نسلوں تک پھنچائیں۔ وہ حضرت عباس (ع) کے بیٹے عبیداللہ، جو اپنی ماں کے ساتھ کربلا میں تھے اور عاشورا کے واقعات کو بیان کرنے کی ایک زندہ سند تھے، کے ھمراہ بقیع میں جاکر نوحہ خوانی کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ھوتے تھے اور ان کے ساتھ نالہ و زاری کرتے تھے۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں، "وہ بقیع میں جاتی تھیں اور اس قدر دلسوز مرثیہ خوانی کرتی تھیں کہ مروان، اپنی تمامتر سنگدلی کے باوجود گریہ کرتا تھا"۔
فصاحت وبلاغت کی ملکہ:
ام البنین کی نمایاں صفات میں سے ایک صفت ان کی فصاحت و بلاغت کی ہے، جو ان کے خوبصورت اور لازوال اشعار میں ظاھر ھوئی ہے۔ ان کے اشعارکی عرب کے بڑے ادبیوں اور شاعروں نے تجلیل کی ہے، ان میں ان کے وہ دلسوز اشعار ہیں جو انھوں نے اپنے بیٹے حضرت ابو الفضل العباس کی شھادت کے بعد کھے ہیں۔
لاتدعونی ویک ام البنین تذکرینی بلیوث العرین
کانت بنون لی ادعی بھم والیوم اصبحتُ ولا من بنین
اربعة مثل نسور الرّبی قد و اصلواالموت بقطع الوتین
"مجھے ام البنین نہ کھئے، مجھے اپنے دلاور شیر یاد آتے ہیں۔ میرے کئی بیٹے تھے، جن کی وجہ سے مجھے ام البنین کھا جاتا تھا، لیکن آج میرا کوئی بیٹا نھیں ہے۔ میرے چار بیٹے شکاری بازوں کے مانند تھے، وہ سب شھید ھوئے۔
مورخین لکھتے ہیں، " ام البنین اپنے بیٹوں، خاص کر امام حسین علیہ السلام کے لئے ایسی دلسوز نوحہ خوانی کرتی تھیں اور آنسو بھاتی تھیں کہ دشمنان اھل بیت علیھم السلام بھی ان کا مرثیہ سن کر گریہ و زاری کرتے تھے۔ ایک جگہ ابو الفضل عباس کے بارے میں فرماتی ہیں۔
یامن رای العباس کرّ علی جماھیر النقد
و وراہ من ابناء حیدر کل لیث ذی لبد
نبئت انّ ابنی اصیب براسہ مقطوع ید
ویلی علی شبلی امال براسہ ضرب العمد
لو کان سیفک فی یدیک لما دنا منہ احد
" اے وہ جس نے عباس کو دشمن پر حملہ کرتے ھوئے دیکھا ہے اور حیدر کے بیٹے ان کے پیچھے تھے۔ کھتے ہیں کہ میرے بیٹے کے بازو کاٹے گئے اور ان کے سر پر آھنی عمود سے وار کیا گیا، اگر تیرے ھاتھ میں تلوار ھوتی تو کوئی تیرے نزدیک آنے کی جرات نہ کرتا!"وہ اپنے ان اشعار سے کربلا کے رزم نامہ کو زندہ کرتی تھیں اور عزاداری کی صورت میں وقت کی حکومت پر اعتراض بھی کرتی تھیں اور ان کے گرد جمع ھونے والے لوگوں کو بنی امیہ کے مظالم سے آگاہ بھی کرتی تھیں۔
ام البنین کا علم و دانائی :
ام البنین کی زندگی بصیرت اور علم و دانش کے نور سے منور تھی اور ان کے فضائل تاریخ کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کی اھلبیت سے محبت، اور امامت کے بارے میں ان کی دینی بصیرت اس قدر زیادہ تھی، کہ اھلبیت ان کے بارے میں لکھتے ہیں، " ام البنین کی عظمت و معرفت اور بصیرت کے بارے میں بس اتنا ھی کافی ہے کہ " جب وہ امیرالمؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر ھوتی تھیں تو حد درجہ مودب اور جب حسنین(ع) بیمار ھوتے تو وہ ھمدردی اور مھربانی کے ساتھ پیش آتی تھیں اور ان کے ساتھ ھم کلام ھوتی تھیں اور حد درجہ محبت سے ان کے ساتھ برتاؤ کرتی تھیں، جیسے ایک ھمدرد اور مھربان ماں پیش آتی ہے۔ ان کے عظمت والے بیٹے میں بھی انھی کا علم متجلی ہے۔ وہ ایک محدثہ ہیں اور انھوں نے اپنے بیٹیوں کی علم و دانش سے تربیت کی ہے۔ اگرچہ ان کے بیٹے " باب علم نبی" کے فرزند تھے، لیکن اپنی ماں کے علم و دانش سے بھی بھرہ مند تھے، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت عباس (ع) کے بارے میں فرماتے ہیں، "انّ ولدی العباس زقّ العلم زقا" " بیشک میرے بیٹے عباس نے بچپن میں ھی علم سیکھا ہے اور جس طرح کبوتر کا بچہ اپنی ماں سے پانی اور غذا حاصل کرتا ہے، اسی طرح اس نے مجھ سے معارف کی تربیت پائی ہے۔
رحلت :
حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا ، حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کی رحلت کے بعد دارفانی کو الوداع کھہ گئی۔ ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی گئی ہے، اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو 70 ھجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی 64 ھجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشھور ہے۔
ام البنین سلام اللہ علیھا کی مھر و محبت اور مبارزہ سے چھلکتی زندگی آخری لمحات میں تھی، جب جناب ام البنین کی زندگی کی آخری رات تھی۔ خادمہ فضہ نے اس مودّب خاتون سے مخاطب ھوکر درخواست کی، کہ ان آخری لمحات میں اسے ایک بھترین جملہ سکھائی ۔ ام البنین نے ایک تبسم کے بعد فرمایا،" السلام علیک یا ابا عبداللہ"۔ اس کے فورا بعد فضہ نے ام البنین کو احتضار کی حالت میں پایا اور دوڑ کے علی علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی اولاد کو بلایا۔ تھوڑی ھی دیر بعد اماں! اماں ! کی آواز مدینہ میں گونج اٹھی۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھاکے بیٹے اور نواسے ام البنین کو ماں کھہ کر پکارتے تھے اور یہ خاتون انھیں منع کرتی تھیں، کہ میں تو فاطمہ کی اور تم سب کی کنیز ھوں، لیکن اب ان میں یہ کھنے کی طاقت باقی نہ رھی تھی کہ" میں فاطمہ سلام اللہ علیھا کی کنیز ھوں۔"
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام آنسو بھاتے تھے۔ ۔ ۔ جناب ام البنین سلام اللہ علیھا کو جنت البقیع میں، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو پھپھیوں، صفیہ و عاتکہ کے پاس امام حسن علیہ السلام اور فاطمہ بنت اسد علیھا السلام کی قبروں کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔

تحریر: سیدہ ایمن نقوی

Add comment


Security code
Refresh