حدیث شریف ہے کہ "علماء انبیاء کے وارث ہے۔" بعثت انبیاء پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو ھدف اور مقصد یھی ہے کہ جامع پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ھوئے معاشرہ کا سدھار۔ بہرحال حدیث شریف کے مطابق علماء بھی اسی مشن کے رھنماء و رھبر ہیں، مذھبی، سماجی و سیاسی طور پر سوئے ھوئے ضمیروں کو بیدار کرنا، معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کا خاتمہ کرنا، قوم کے ھر فرد میں شعور پیدا کرنا اور معاشرے میں مسائل و مشکلات کو اجاگر کرکے ان مسائل کا حل ڈھونڈنا علماء کا فریضہ ہے۔
مسلم معاشرے میں حیات انسانی کو ایک ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ کی طرح عالم دین کی بھی ضرورت ھوتی ہے، جو اس کی زندگی کو نکھارنے، سجانے اور سنوارنے میں اھم کردار ادا کرتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ھمارے بے شعور معاشرے میں علماء کرام کا ظاھری طور پر عزت و احترام تو کیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت اس عظیم المرتبت والے طبقے کے تئیں وہ حق ادا نھیں کیا جاتا، جس کا تقاضا ہے۔
علماء کا طبقہ ایک عظیم الشان طبقہ ہے، جس کے بارے میں روز قیامت ھم سب سے سوال کیا جائے گا کہ اگر تمھارے معاشرے، تمھارے علاقے یا تمھارے محلے میں فلاح عالم دین تھا تو تم نے اس سے کیا حاصل کیا۔ ھم سب جوابدہ ھونگے۔ خدانخواستہ ایسا نہ ھو کہ ھم اس موقعہ پر شرمندہ ھو جائیں اور پچھتانا پڑے۔
الحمد للہ ھماری وادی گلپوش میں بھی علماء کرام کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، خدا ان سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اقتصادی لحاظ سے کمزور علماء کا یہ طبقہ دینی معاملے میں سادہ لوح عوام کی خدمات میں پیش پیش ہے اور موجودہ پرفتن دور میں دینی علوم کی ترویج و اشاعت میں اپنا خون پسینہ ایک کر رھا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نھیں کہ ھمارے یہاں جید اور ممتاز علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد فرقہ پرستی کا شکار ھوکر گوشہ نشین ھوگئے ہیں۔ وقتاً فوقتاً فرقہ پرستوں نے ان علمائے کرام کی توھین کی اور اس نازیبا حرکت میں کوئی کسر باقی نھیں چھوڑی۔ علماء سے استفادہ حاصل کرنا تو دور کی بات، فرقہ پرستوں نے علماء پر تھمتیں لگائی، فرقہ پرستی کے نام پر علمائے کرام کے اوپر ناپاک ہاتھ اٹھائے، لیکن ان مشکل اور کٹھن حالات کے باوجود علماء نے اپنا مشن جاری و ساری رکھا۔ علماء کی کاوشوں سے بحمد للہ نئی نسل نے کچھ حد تک روایتی فرقہ پرستی کو خیر باد کہہ دیا۔
آج عالم بشریت کو جن چلینجز کا سامنا ہے، خاص طور پر عالم اسلام جس طرح مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، ان تشویشناک حالات پر قابو پانے کے لیے اور عالم انسانیت کو ان مسائل و مشکلات سے نجات دلانے کے لیے عالمی سطح پر جید علماء کرام میدان عمل میں کمر کسے ھوئے برسرپیکار ہیں۔
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اس کی واضح مثال ہیں۔ انسانیت کی بقاء کے خاطر جن کی خدمات چودھویں کے چاند کی طرح روشن و عیاں ہیں۔ ھماری وادی میں بھی اگرچہ علماء کی ایک بڑی تعداد دینی خدمات میں سرگرم عمل ہے، لیکن قومی ضروریات کے حوالے سے یہ طبقہ بہت پیچھے نظر آرھا ہے۔
ھمارے سماج میں علماء صرف امام جمعہ و جماعت، تجھیز و تکفین، فقھی مسائل، مجلس، عزاداری، فاتحہ خوانی، ختم شریف، نکاح خوانی، مسجد اور امامبارگاھوں کے دائرے تک محدود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں سدھار لانے اور قوم کی ترقی کے لیے اس طبقے کو محدود دائرے سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے۔
ھمارے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم و تعلم کا زبردست فقدان ہے، اگرچہ ان علاقوں میں عزاداری کے لیے بڑے بڑے امام بارگاہ تعمیر ھوئے اور ھو رھے ہیں، لیکن تعلیم و تربیت کے لیے ان علاقوں کے بچوں کو دو کمرے بھی نصیب نھیں۔
ھمارے علماء اگرچہ ان پسماندہ علاقوں میں عزاداری کے بڑے بڑے اجتماع منعقد کر رھے ہیں یا نھیں، لیکن سڑکیں آمد و رفت کے قابل نھیں ہیں۔ صفائی تو دور کی بات، پینے کے لیے پانی نھیں ہے۔ نہ طبی سھولیات ہیں، نہ دیگر ضروریات زندگی میسر۔ ان معاملات میں علماء کا طبقہ چپ سادھے بیٹھا ھوا ہے۔ بڑے بڑے پریس بیانات لیکن عملی میدان میں سراب ثابت ھو رھے ہیں۔ علماء کا احترام ھم پر لازم ہے، ھم علماء کی عزت و احترام کرتے ہیں۔ لیکن علماء اگر معاشرے کو سدھارنے اور سنوارنے والے ھوتے ہیں، مشن انبیاء کے نمائندے ھوتے ہیں تو معاشرے کے مرضوں کا مداوا کیوں نھیں کر رھے ہیں۔ اگر آج نھیں تو کب اپنی ذمہ داریاں انجام دیں گے۔
ذرا سوچئے، اگر دھائیوں پہلے علماء نے ایک ھی جھنڈے تلے جمع ھوکر غریب طلباء کے لیے تعلیم کا کوئی انتظام کیا ھوتا تو شاید آج یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا۔ شاید تمام میدانوں میں ھمارے نمائندے ھوتے، ھم اللہ کے سوا کسی طاقت کے محتاج نہ رھتے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ایک ھی دین اور ایک ھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام مختلف گرھوں میں بٹ گئے، اپنی اپنی دکانیں سجائے اور اپنی اپنی دکانوں پر سادہ لوح عوام کے سروں کا سودا سجایا۔ جس معاشرے کے راھنماء اپنی اپنی دکانیں سجانے کے لیے مختلف ٹولیوں میں بٹ جائیں گے، مختلف ناموں کے سھارے قوم کا سودا کریں گے، اس قوم کا مستقبل کیا ھوگا۔ تاریک نھیں تو اور کیا ھوگا، ذرا سوچئے۔
یہ بات ذھن نشین رکھنی چاھیئے کہ جمھوری اسلامی ایران دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رھا ہے، اس ترقی و کامیابی میں بھت بڑا رول علماء کا ہے۔ ریکارڈ توڑ اقتصادی ناکہ بندی کے باوجود علمی، سائنسی، ٹیکنالوجی و دیگر میدانوں کی ترقی میں پیشرفت ھو رھی ہے۔ اس کامیابی کا راز صرف اور صرف علماء کی جدوجھد میں مضمر ہے۔
امام خمینی﴿رہ﴾، رھبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم، آیت اللہ زکزکی، سید حسن نصر اللہ، شھید شیخ نمر النمر﴿رہ﴾ جیسے عظیم المرتبت ھستیاں بھی اسی طبقہ سے وابسطہ ہیں، لیکن یہ عظیم المرتبت ھستیاں اس مرتبہ اور اس مقام پر کیسے فائز ھوئیں، کیسے انھوں نے معرفت کی معراج اور معاشرتی تعمیر و ترقی کی منازل طے کیں، ھمارے علماء کو اس بارے میں سوچنا اور اپنی قوم کو بربادی سے نجات دلانے کے لیے ایک جامع لائحہ عمل مرتب کرنا چاھیئے۔
تحریر: مجتبیٰ ابن شجاعی
علماء کرام کی ذمہ داریاں، محدود دائرہ سے باھر نکلنے کی ضرورت
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1278