نور کی خاصیت یہ ھوتی ہے کہ خود بھی روشن ھوتا ہے اور دوسروں کو بھی روشنی فراھم کرتا ہے۔ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا بھی وہ نور ہیں کہ جو رھتی دنیا تک کی صنف نسوان کے لیے علمی اور عملی نمونوں کی صورت میں وہ روشنی چھوڑ گئیں کہ جس کی چمک میں آئے روز اضافہ ھوتا جا رھا ہے۔
نسب کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو سید الانبیاء آپ کے والد نامدار ہیں۔ ام المؤمنین سیدۃ العرب حضرت خدیجۃ الکبریؑ آپ کی والدہ گرامی ہیں، نفس رسول حضرت علی علیہ السلام آپ کے شوھر نامدار ہیں، جنت کے جوانوں کے سید و سردار حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ آپ کے صاحبزادے ہیں اور کوفہ اور شام کے بازاروں میں اپنے فصیح و بلیغ خطبوں کے ذریعے یزیدیت کے ایوانوں کی بنیادیں ھلا کر رکھ دینے والی عظیم خاتون حضرت زینبؑ و ام کلثوم آپ کی صاحبزادیاں ہیں۔
حسب کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو کبھی آپ بیٹی کی صورت میں باپ کے لیے ماں کا کرار ادا کرکے باپ کی خوشنودی مول کر "ام ابیھا" کا لقب پاتی ہیں تو کبھی بیوی کی صورت میں اپنے شوھر کے لیے"نعم العون علی طاعۃ اللہ" یعنی خدا کی اطاعت کے لیے بہترین یار و مددگار ثابت ھوتی ہیں تو کبھی ماں کا روپ دھار کر حسنین کریمین اور حضرت زینب و ام کلثوم جیسی ھستیوں کی تربیت کرکے امت کے لیے بھترین نمونے چھوڑ کر جاتی ہیں۔
آپ کے والد نامدار جب بھی کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں آپ سے ملاقات کرکے جاتے اور جب بھی کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات کیا کرتے تھے۔ آپ نے خود بھوکی رہ کر یتیموں، مسکینوں اور اسیروں کو کھانا کھلا کر ایثار کا اعلیٰ عملی نمونہ پیش کیا۔
اسلامی روایات کی رو سے آپ کائنات کی گذشتہ، موجودہ اور قیامت تک آنے والی تمام خواتین کی سید و سردار ہیں۔ آپ کی حضرت علیؐ سے شادی بھی سادگی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے اپنی شادی کا نیا لباس بھی کسی غریب کو عطا کرکے خود پیوند شدہ لباس زیب تن کرکے تاریخ میں سادگی کی اعلیٰ مثال قائم کر دی۔ آپ کے فصیح و بلیغ خطبوں سے آپ کی علمی بلندیوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔
آپ کی عبادت کا یہ حال تھا کہ شب جمعہ آپ رات بھر عبادت الہیٰ میں مصروف رھتی تھیں، پردے میں آپ کی مثال تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی نھیں ملتی۔ ایک دفعہ آپ کے بابا نے مسجد النبی میں اپنے اصحاب سے سوال کیا کہ خواتین کے لیے سب سے بھترین صفت کونسی ہے؟ تب حضرت سلمان فارسی نے آپ کی بارگاہ میں حاضر ھوکر اس حوالے سے آپ سے استفسار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عورتوں کی سب سے اھم صفت یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی نامحرم پر پڑے اور نہ ھی کسی نامحرم کی نظر اس پر پڑنے پائے۔ جب ایک نابینا شخص آپ کے بیت الشرف میں آئے تو آپ نے اس سے بھی پردہ کیا، آپ کے بابا نے فرمایا یہ تو نابینا ہے، تب آپ نے فرمایا: بابا جان میں تو بینا ھوں۔ دعا میں آپ ھمیشہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت امام حسنؑ نے پوچھا امی جان آپ ھمیشہ دوسروں کے لیے ھی دعائیں کرتی رھتی ہیں۔ تب آپ نے فرمایا "الجار ثم الدار" پہلے ھمسایہ پھر ھمارے گھر والے۔
آپ اپنے گھر کے کام کاج کو خود انجام دیتی تھیں۔ یھاں تک کہ شادی کے چند سال بعد آپ نے گھریلو امور کو اپنے اور اپنی خادمہ کے درمیان تقسیم کر دیئے۔ گھر سے باھر کے جملہ امور آپ کے شوھر نامدار انجام دیتے تھے اور گھر کے سارے امور کو آپ خود انجام دیتی تھیں، یھاں تک کہ آپ اپنے دست مبارک سے چکی بھی چلاتی تھیں۔
آپ 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال کو دنیا میں تشریف لے آئیں۔ بابا کے وصال کے بعد زخمی حالت میں بیمار ھوکر بستر علالت پر رھیں اور مشھور قول کی بنا پر آپ 3 جمادی الثانی 11 ھجری کو اس دنیا سے رخصت ھوئیں۔
یقیناً ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ھماری مائیں، بھنیں اور بیٹیاں اپنی زندگی کے ھر شعبے میں سیدہ کونین کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دے کر دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ھو جائیں، کیونکہ آپ رھتی دنیا تک کی تمام خواتین کے لیے کامل نمونہ ہیں۔
تحریر: ایس ایم شاہ
مادراں را اسوہ کامل بتول
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1089