تین شعبان المعظم سنہ 4 ھجری چھ سو پینتیس عیسوی کو رسول اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے نواسے امام حسین (ع) کے نور وجود سے " مدینۃ النبی " کے بام و در روشن و منور ھوگئے ۔
ماہ رجب المرجب کی مانند ماہ شعبان المعظم بھی افق امامت و ولایت پر کئی آفتابوں اور ماھتابوں کے طلوع اور درخشندگی کا مھینہ ہے۔اس مھینے میں بوستان ھاشمی و مطلبی اور گلستان محمدی و علوی کے ایسے عطر پذیر و سرور انگیز پھول کھلے ہیں کہ ان کی مھک سے صدیاں گزرجانے کےبعد بھی مشام ایمان و ایقان معطر ہیں اور ان کی چمک سے سینکڑوں سال کی دوری کے باوجود قصر اسلام و قرآن کے بام و در روشن و منور ہیں ۔
تین شعبان کو نواسۂ رسول امام حسین (ع) 4 شعبان کو تمنائے علی و بتول حضرت عباس 5 شعبان کو حسینی انقلاب کے پاسبان امام زین العابدین اور 15 شعبان المعظم کو بقیۃ اللہ الاعظم حجت حق امام مھدی موعود کا یوم ولادت ہے ۔
تین شعبان المعظم سنہ 4 ھجری چھ سو پینتیس عیسوی کو رسول اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے نواسے امام حسین (ع) کے نور وجود سے " مدینۃ النبی " کے بام و در روشن و منور ھوگئے ۔
مرسل اعظم (ص) کی عظیم بیٹی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور عظیم بھائی ،داماد اور جانشین علی ابن ابی طالب کے پاکیزہ گھر میں نسل نبوت و امامت کے ذمہ دار امام حسین (ع) کی آمد کی خبر سن کر پیغمبر اسلام (ص) کا دل شاد ھوگیا ،آنکھیں ماہ لقا کے دیدار کے لئے بیچین ھو اٹھیں ،فورا" بیٹی کے حجرے میں داخل ھوئے اور مولود زھرا سلام اللہ علیھا کو دیکھ کر لبوں پر مسرت کی لکیریں پھیل گئیں آغوش میں لے کر پیشانی کا بوسہ لیا اور فرزند کے دھن میں اپنی زبان دے دی اور رسالتمآب کا لعاب دھن فاطمہ سلام اللہ علیھا کے چاند کی پھلی غذا قرار پایا اور مرحوم نذیر بنا رسی کے بقول:
جبرئيل امین نازل ھوئے خدا کی جانب سے خدا کے حبیب کو نواسے کی مبارک باد پیش کی اور کھا :اے اللہ کے رسول ! خدا نے بچے کا نام حسین (ع) قرار دیا ہے ،نام سنتے ھی رسول اعظم (ص) کی آنکھیں جھلملا اٹھیں بچے کو سینے سے چمٹالیا ،بیٹی نے باپ کی طرف سوالیہ نگاھوں سےدیکھا تو رسول اسلام (ص) نےامین وحی کی زبانی حسین (ع) کا صحیفۂ شھادت نقل کردیا اور بخشش امت کے وعدے پرحسین (ع) کی ماں کو راضي کرلیا ۔
علی (ع) و فاطمہ (س) کا چاند چھ سال تک آفتاب نبوت و رسالت کے ھالے کی شکل میں نانا کے ساتھ ساتھ رھا اور تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مدینۂ منورہ میں نانا اور نواسے کی محبت ضرب المثل بن گئی اور ایسا کیوں نہ ھوتا ،جبکہ حسین (ع) مشیت الھی کا محور اور پیغمبر اسلام (ص) کی دلبر کے دلبر تھے ۔حسین (ع) کی شان میں قرآن حکیم رطب اللسان اور ان سے اسلام و ایمان سربلند و ذیشان ہے ،حسین (ع) نورٌ علیٰ نور کی تفسیر نورالنور کی تنویر ، مجسمۂ رسالت کی تصویراور مکمل نبوت کی تعبیر ہے، حسین (ع) قرآن مجید کی تحریر ،دین الھی کی شمشیر ،انوار ولایت کی تکبیر اور اسرار امامت کی تشھیر ہے، حسین (ع) نورنگاہ نبوت ،جگرگوشۂ عصمت ، جلوہ نمائے ولایت اور قوت اسلام و شریعت ہے ،حسین (ع)آسمان شھادت کا آفتاب ، افق ھدایت کا ماھتاب، گلشن توحید کا سرخ گلاب اور خزانۂ اسلام کا گوھر نایاب ہے ۔
چنانچہ خداوند عالم نے اپنی کتاب محکم و مستحکم قرآن مجید میں مختلف عنوانوں سے امام حسین (ع) کا تعارف کرایا ہے جیسا کہ صحاح ستّہ کے محدثین نے اپنی اپنی صحیحوں میں لکھا ہے کہ جب " اصحاب کساء " رسول اعظم (ص) کے ساتھ چادر تطھیر میں جمع ھوگئے رسول اسلام (ص) نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیھم السلام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا :
اَللّھُمّ ھٰؤلاء اَھلُ بَیتی فَاذھب عَنھُمُ الرّجس وَ طَھّرھُم تطھیرَا"
خدایا یہ میرے اھل بیت ہیں پس ان کو ھر قسم کی آلائش سے پاک و پاکیزہ قراردے دے
،اس وقت آیۂ تطھیر نازل ھوئی اور اھل بیت علیھم السلام منجملہ حضرت امام حسین (ع) کی عصمت و طھارت کا خدا نے اعلان کردیا،اسی طرح آیۂ مباھلہ کے ذیل مین مفسرین کا اجماع ہے کہ اس میں : "ابنائنا " سے مراد امام حسن اور امام حسین علیھما السلام ہیں جن کو خداوند عالم نے" رسول اسلام کے بیٹے " قراردیا ہے ۔
اور آیۂ مودت کے بارے میں مفسرین اھل سنت نے بھی لکھا ہے کہ یہ آیت علی (ع) و فاطمہ (س) اور حسن (ع) و حسین (ع) کی شان میں نازل ھوئي ہے چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم نے صحیحین میں اور ثعلبی و طبرسی نے اپنی تفاسیر میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ آیۂ مودت نازل ھوئي تو اصحاب نے حضور (ص) سے سوال کیا آپ کے قرابتدار کون ہیں تو حضرت نے فرمایا : علی وَ فَاطمہ وَ اَبنَاھُمَا علی (ع) و فاطمہ (س) اور ان کے دو نوں بچے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی جگہ جگہ امام حسین (ع) کی شخصیت کا تعارف کرایا ہے :
صحیح ترمذی میں یعلی ابن مرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا ہے : " حسین منی و انا من الحسین احب اللہ من احب حسینا" حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ھوں اور خدا اس کو دوست رکھتا ہے جو حسین (ع) کو دوست رکھتا ہے ۔اسی طرح سلمان فارسی سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم کو کھتے سنا ہے حسن و حسین میرے بیٹے ہیں جس نے ان سے دوستی کی میرا دوست ہے اور جس نے ان سے دشمنی کی وہ میرا دشمن ہے بھرحال ، امام حسین (ع) کی شخصیت سے رفتار و کردار کی جو شعاعیں پھوٹی ہیں آج بھی الھی مکتب کی فکری ،اخلاقی اور تھذیبی حیات کی اساس ہیں اور نہ صرف عالم اسلام بلکہ پورا عالم بشریت حسینیت کی مشعل سے فروزاں ہے عبادت و بندگی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ وضو کرتے تھے تو بدن میں تھرتھری پیدا ھوجاتی تھی کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو امام حسین (ع) نے فرمایا :
حق یھی ہے کہ جو شخص کسی قومی و مقتدر حاکم کی بارگاہ میں کھڑا ھو اس کے چھرے کا رنگ زرد پڑجائے اور جسم کے بند بند کانپ اٹھیں
۔ شب عاشورا ، عبادت کے لئے دشمنوں سے ایک شب کی مھلت مانگی توکسی نے اس کی وجہ پوچھی اس وقت آپ نے فرمایا : چاھتا ھوں آخری رات پروردگار کی عبادت میں گزاروں اور استغفار کروں وہ جانتا ہے میں کس قدر نماز کا عاشق ھوں اور قرآن کی تلاوت پسند کرتا ھوں اور زيادہ سے زيادہ دعاؤ استغفار کرنا چاھتا ھوں ۔
دوسری جانب خدا کے بندوں کے ساتھ آپ کے کریمانہ اخلاق و رفتار کا یہ عالم تھا کہ اس میدان میں بھی امام حسین (ع) کی شخصیت نمونہ و مثال نظر آتی ہے ۔
چنانچہ ایک دن کچھ فقیروں اور ناداروں کے درمیان سے گزرے سب کےسب زمین پر بیٹھے پتھروں سے ٹیک لگائے سوکھی روٹیاں کھانے میں مشغول تھے ۔انھوں نے نواسۂ رسول (ص) کوسلام کیا اور جواب سلام کےبعد اپنے ساتھ کھانے میں شرکت کی دعوت دی۔
امام حسین علیہ السلام ان کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا : اگر تمھاری یہ خوراک صدقہ نہ ھوتی تو میں ضرور تمھارے ساتھ یہ روٹیاں کھاتا اور پھر ان سے خواھش کی : " قوموا الی منزلی " اٹھو اور میرے ساتھ میرے گھر چلو ،اور ان سب کو گھر لائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور سیر و سیراب کرنے کے بعد انھیں لباس پھنایا اور کچھ نقد درھم دے کر رخصت کیا ۔اسی طرح حضرت علی (ع) کی ظاھری حکومت کا زمانہ ہے دارالحکومت کوفہ میں ، ایک مدت سے بارش نہ ھونے کے سبب اھل کوفہ پریشان و مضطرب ہیں ، امام کی خدمت میں حاضر ھوتے ہیں اور اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتے ھوئے امیرالمومنین سے کھتے ہیں ،مولا ! ھمارے لئے خداوند متعال سے باران رحمت کی دعا فرمائیں کہ ھم اس کی برکتوں سے استفادہ کرسکیں ۔
رسول اسلام (ص) کے محبوب نواسے امام حسین علیہ السلام اس وقت وھاں موجود تھے حضرت علی (ع) نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا : "بیٹے اٹھئے اور خداوند متعال سے دعا کیجئے کہ وہ ان لوگوں پر اپنی بارش رحمت نازل فرمائے ۔"
امام حسین (ع) اٹھے اور زیر آسمان ھاتھ پھیلا دئے اور حمد و ثنائے الھی اور محمد و آل محمد علیھم السلام پر درود و سلام کے بعد فرمایا : اے ھم سب کے پروردگار! اے نیکیاں عطا کرنے اور برکتیں نازل کرنے والے ھم کو باران آسمانی سے سیراب کردے ،ایسی بارش ،جو فراواں ، مسلسل ، وسیع سطح پر ٹوٹ کر برسے جھماجھم ، موسلادھار ، خشک و تشنہ زمینوں کا سینہ چاک کردینے والی بارش کے ذریعے اپنے کمزور و ناتواں بندوں کی دستگیری فرما اور مردہ زمینوں کو نئی زندگی عطا کردے ۔آمین یا رب العالمین ،ابھی امام حسین (ع) کی یہ دعا پوری بھی نھیں ھوئی تھی کہ یکایک بادل اٹھا اور شھر کوفہ اوراس کے اطراف میں رحمت الھی کی اس طرح جھوم جھوم کے بارش ھوئی کہ تمام کوہ و دشت سیراب ھوگئے ۔
ان واقعات سے آپ کے تواضع و انکساری نیز بارگاہ الھی میں تقرب و منزلت کا صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ کس قدر خدا کے محبوب اور مردم دوست تھے اور آپ کا وجود کس طرح خدمت دیں اور خدمت خلق کے جذبوں سے معمور تھا شعیب ابن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ روز عاشورا لوگوں نےامام حسین (ع) کی پشت پر گھٹے کے نشان دیکھے تو امام زين العابدین علیہ السلام سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:
یہ نشان بیواؤں ، یتیموں اور مسکینوں کے گھروں تک نان و خرما پیٹھ پر لادکر لے جانے کے سبب ہے ۔یھی وجہ ہے شافعی مسلک کے ایک بڑے عالم ابن کثیر نے امام حسین (ع) کے مقام و منزلت کا ذکر کرتے ھوئے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام (ص) امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو محترم سمجھتے تھے اور ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے لھذا کمسنی کے باوجود دونوں کا پیغمبر (ص) کے صحابیوں میں شمار ھوتا تھا وہ مرتے دم تک ان کے ساتھ محشور و مصاحب تھے رسول اسلام (ص) بھی ان سے پوری طرح راضي تھے ،پیغمبر (ص) کے بعد ابوبکر و عمر و عثمان بھی ان کا احترام کرتے رھے اور خلفائے ثلاثہ کے بعد دونوں اپنے باپ کے صحابیوں میں شامل تھے اور ان سے حدیثیں روایت کرتے تھے اور تمام حالات میں حضرت علی (ع) کے ساتھ ساتھ رھے ۔
اس کے بعد لکھتے ہیں : امام حسین (ع) تمام لوگوں کے درمیان عظمت و احترام کے حامل تھے لوگ ان سے بھت عشق و علاقہ رکھتے تھے کیونکہ وہ پیغمبر (ص) کے فرزند تھے اور روئے زمین پر کوئی ان کے جیسا نہ تھا ۔
شاعر مشرق علّامہ اقبال نے بجا طور پر کہا ہے :
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتےرھتے ہیں انداز کوفی و شامی
اور جوش ملیح آبادی کے بقول :
موت کے سیلاب میں ھرخشک و تر بہہ جائے گا
ھاں مگر نام حسین (ع)ابن علی (ع) رہ جائےگا