ھر وہ صاحب احساس جو ھندوستانی معاشرے کے روز بروز بدلتے حالات پر نظر رکھے ھوئے ہے ھندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کو لیکر فکر مند نظر آتا ہے۔
یقینا ھم ھندوستان میں جس مقام پر کھڑے ہیں وھاں ھر درد قوم رکھنے والا فرد اس سوال کا جواب ڈھونڈتا نظر آ رھا ہے کہ موجودہ دور انحطاط کو کیسے سر کیا جائے ؟
ھماری قیادت کو کونسا طریقہ کار اختیار کرنا چاھیے کہ کہ جس سے مسلمانوں کی ابتری دور ھو سکے؟ آج یہ سوالات کم و بیش ھر قوم و ملت کا درد رکھنے والا کرتا نظر آ رھا ہے کہ آخر جو لوگ قوم کی رھبری کر رھے ہیں ان کی حقیقی ذمہ داری کیا ہے ھندوستان میں بڑھتی ھوئی عدم برداشت اور یھاں کی مکروہ سیاست کے درمیان وہ کونسا طریقہ ہے جو ھمیں اس دلدل سے نکالنے میں کامیاب ھوگا جس میں ھم دھنستے جا رھے ہیں۔
ان سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے ایک ایسے امام کی زندگی کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے جس نے سخت ترین حالات میں اپنی قوم کی بھترین رھنمائی کر کے نہ صرف قوم کا سر اونچا کیا بلکہ انسانیت کو بھی ترقی کی بلندیوں تک پھنچایااور اس امام کا نام ہے امام جعفر صادق علیہ السلام جن کے نام سے ھم جانے اور پھچانے جاتے ہیں اور ھمیں جعفری کھا جاتا ہے۔
آپ کی سیاسی زندگی کا آغاز
یوں تو بچپن سے ھی آپ کی زندگی ایک ایسی زندگی ہے جس کا لمحہ لمحہ اپنے اندر ھزارھا عبرتیں لئے ہے ۔ اس لئے کہ ۱۴ سال کے سن سے ھی آپ اس بات کے شاھد ہیں کہ آپ کے جد بزرگوار امام زین العابدین علیہ السلام کس طرح دعاؤں کے ذریعہ محمد حنفیہ اور ان کے بارے میں امامت کا عقیدہ رکھنے والوں کے خلاف مصروف عمل ہیں ۔ ﴿١﴾
لیکن رسمی طور پر آپ کی سیاسی زندگی کاآغاز آپ کے جد بزگوار امام سجاد علیہ السلام اور والد ماجد امام باقرعلیہ السلام کی شھادت کے بعد ھی ھوتا ہے جب آپ کے والد کی شھادت ھوتی ہے تو آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال سے ۳۷ سال کے درمیان ہے اس طرح اپنے والد کے بعد تقریباً ۲۸ سال کی طولانی مدت آپ نے شیعوں کی سرپرستی اور امامت فرمائی جو کہ دیگر ائمہ کی بہ نسبت طولانی ترین مدت ہے۔﴿۲﴾
جعفری سیاست:
آپ کی فعالیت کا نقطہ اوج آپ کی زندگی کا وہ حصہ ہے جب بنی امیہ کی حکومت کا زوال اور بنوعباس کا اقتدار پر قبضہ ھوا چاھتا تھا اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھے ۔ چنانچہ آپ نے بنی امیہ اور بن عباس کے مابین اقتدار کی رسہ کشی کے درمیان نصیب ھونے والے وقت سے مکمل فائدہ اٹھایا اورایک ایسی دانشگاہ کی تاسیس کی کہ جس میں ھزارھا تشنگان علوم ومعارف آکر اپنے علم کی پیاس بجھاتے تھے ۔
آپ نے اس دوران مختلف عقلی اور نقلی موضوعات میں برجستہ شاگردوں کی تربیت اس انداز میں کی کہ ھر ایک اپنے میدان میں لاثانی نظر آتا ہے آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ھزار سے زائد بیان کی گئی ہے ﴿۳﴾جن میں ھشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ھشام بن سالم، مومن طاق، مفضل بن عمر اور جابر بن حیان جیسے اسامی سرفھرست ہیں ۔﴿۴﴾
آپ کی عظیم یونیورسٹی کی افادیت اور اس کی عظمت کسی پر پوشیدہ نھیں، شیعہ اور سنی دونوں ھی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اس کی بے لوث خدمات کا کلمہ پڑھتے ہیں اور دونوں ھی مذاھب کے ماننے والے اسلامی علوم کی تمام تر ترقی کو آپ ھی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔﴿۵﴾
آپ کی عظیم یونیور سٹی کی وسعت کو دیکھتے ھوئے یہ بات غلط نھیں ہے کہ تمام علوم کو آپ ھی کی طرف منسوب کیا جائے یا احیاء تراث اسلامی کا سھرا آپ ھی کے سرباندھا جائے کیونکہ آپ کے علاوہ اور کوئی دوسری شخصیت تاریخ اسلام وادیان میں نظر نھیں آتی جس کے فیوضات سے ھر مکتب ومسلک اور ھر قوم و قبیلہ کے لوگوں نے بہ یک وقت استعفادہ کیا ھو ۔
چنانچہ آپ کے شاگرد صرف آپ کے ماننے والے شیعوں تک محدود نھیں تھے بلکہ آپ کے شاگردوں میں ان افاضل کا نام بھی نظر آتا ہے جو اپنے اپنے علاقے میں اپنی ایک حیثیت اور پھچان بنانے کے باوجود آپ کے در پر علم خیرات لینے آتے تھے ۔
مذاھب اربعہ کے تمام ائمہ باواسطہ یا بدون واسطہ آپ کے شاگرد رھے ہیں ۔﴿٦﴾کہ جن میں سب سے ممتاز نام ابوحنیفہ کا نظر آتا ہے جنھوں نے آپ کی علمی لیاقت کے آگے سر تسلیم خم کرتے ھوئے کھیں آپ کو صحیفہ احادیث سے تعبیر کیا﴿۷﴾تو کھیں آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ھوئے اعلان کیا کہ آپ سے زیادہ، اختلافی آراء کا جاننے والا اور کوئی نھیں ہے ﴿۸﴾۔ اور دو سال آپ کی شاگردی میں رھنے کے بعد ان دوسالوں میں آپ کے گہر بار اثرات نے انھیں اس قدر متاثر کیا کہ یہ کھے بغیر نہ رہ سکے کہ اگر یہ دو سال نہ ھوتے تو میں ھلاک ھوجاتا ۔﴿۹﴾
آپ نے اپنے علم و فضل کا لوھا اس طرح منوایا کہ ھر ایک آپ کا قصیدہ پڑھتا ھوا نظر آتا ہے چاھے وہ اھل سنت کے معروف عالم دین جاحظ ﴿۱۰﴾ اور شھرستانی ﴿۱۱﴾ ھوں یا ان کے مشھور مورخ ابن خلکان، ﴿۱۲﴾ ھر ایک نے آپ کو کسی نہ کسی طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے اور یہ ھمارا سب سے بڑا افتخار ہے کہ ھمارے راھنماؤں کی مدح غیر بھی کرتے نھیں تھکتے ہیں ۔
جعفری سیاست کا اھم رخ، خدمت سب کے لئے :
اگر ھم معاشرہ میں اپنا کھویا مقام چاھتے ہیں تو ھمیں پوری ملک اور انسانیت کے بارے میں سوچنا ھوگا جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے کیا جب سب کو ھم سے فائدہ پھنچے گا تب ھی ھمارے بارے میں لوگوں کی سوچ مثبت بنے گی اور یہ چیز علم و آگھی کے میدان میں خدمت کے ذریعہ ممکن ہے جب ھم امام صادق علیہ السلام کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ آپ کی علمی خدمات کسی مذھب و خاص فکر سے متعلق نہ تھیں چنانچہ آپ کی یونیورسٹی میں جو ہرِ علم سے مالا مال ھونے والے صرف شیعہ ھی نہ تھے بلکہ دوسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس میں شامل تھے جو اپنے علم کی پیاس بجھانے باب مدینہ العلم کے فرزند کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرکے خود کو علم کی بیش بھا دولت سے مالامال کررھے تھے ۔
اگر وسیع القلبی سے امام صادق علیہ السلام کی اس عظیم یونیور سٹی کے فیوضات و برکات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ھوگا کہ امام علیہ السلام نے نہ صرف اپنے ماننے والوں کے لئے بلکہ پورے عالم اسلام بلکہ پوری بنی نوع بشر کے لئے دریچہ ھائے فکر و نظراور علم و ہنر کو واکردیا تھا جس سے کوئی ایک قوم، ایک مذھب نھیں بلکہ پورا عالم انسانیت فیض حاصل کررھاتھا ۔ علم نجوم ھو ﴿۱۳﴾کہ علم اقتصاد، علم جغرافیا ﴿۱۴﴾ ھو کہ علم طب ﴿۱۵﴾فلسفہ ھو کہ ریاضی وھندسہ تاریخ ھو کہ علم کلام و اجسام، علم ابدان ھو کہ شھود و عرفان، غرض کہ ھر علم میں خاص تبحر رکھنے والے آپ کے شاگرد موجود تھے جن کی تالیفات اور تجارب بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ھوئے اور سائنس و ٹکنالوجی کے ذریعہ جن کی روشنی میں سرعت عمل کے ساتھ ان چیزوں کا انکشاف وجود میں آیا جو آج انسانیت کی اولین ضرورتیں بن کر اپنی اھمیت کا احساس دلارھی ہیں۔ ﴿۱۶﴾
امام علیہ السلام نے بغیر کسی ملک و مذھب کی قید لگائے اپنے سامنے دامن نیاز پھیلانے والے کے دامن کو علم و حکمت کے گوھروں سے بھر کر بتلایا کہ میری ذمہ داری کسی خاص طبقے تک محدود نھیں اور ھر حاجت طلب کرنے والے کی حاجت روائی میرا فرض ہے اور خلق خداکی ھدایت ورشادت ھی میری سیاست ہے ۔
اگر ھم بھی من و تو کے جھگڑوں کو چھوڑ کر علم کے میدان میں اپنا لوھا منوائیں اور نہ صرف لوھا منوائیں بلکہ دوسروں کی بھی مدد کریں تو یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ اپنے ملک و قوم کے حالات کو بدلا جا سکتا ہے ۔
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
حواشی :
١۔ تشیع درمسیر تاریخ، ص۳۰۳ ۔
۲۔ ص۳۰۳ ایضا
۳۔ من اصحاب الحدیث قد جمعوا الرواة عن الصادق علیہ السلام من الثفات علی اختلافھم فی الادلة و المقامات فکانوا اربعة الآف، شیخ مفید، الارشاد، ص ۲۷۱ ۔
۴۔ سیرہ پیشوایان، ص۳۵۶ ۔
۵۔ الامام الصادق کما عرفہ علماء الغرب ۔
٦۔ سیرہ پیشوایان ص ۳۵۹ ۔
۷۔ روضات الجنات، ج۸ ص، ۱۶۹ ۔
۸ ۔ ان علم الناس اھلھم باختلاف الناس الاما ابوحنیفہ، ص۷۰ الامام الصادق، ص۲۸۔
۹ ۔ لولا السنتان لھلک نعمان، سیرہ پیشوایان نقل از الامام الصادق علیہ السلام، والمذاہب الاربعة، ج۲ ص۱۱۳
١۰۔ جعفر بن محمد الذی ملاء الدنیا علمہ و فقہ ویقال ان اباحنیفہ من تلازمة و کذالک ۔ ۔۔ رسائل الجاحظ ص۱۰۶ ۔
١١۔ وھو ذوالعلم غزیرفی الدین وادب کامل فی الحمکة وزھد بالغ فی الدنیا، الملل و النحل، شہرستانی ج۱، ص ۱۴۷ ۔
١۲۔ وکان من سادات و لقب بالصادق لصدق مقالتہ وفضلہ اشھر من ان یذکر و فیات الاعیان، ج۸ ص ۱۰۵ ۔
١۳ ۔ الامام الصادق کما عرفہ: العلماء الغرب، ڈاکٹر نورالدین آملی، ص۷ ۔
١۴۔ کان اول ناقد التاریخ واول من وضع ھذالاسم، وہی مدرک، ص۴۹ تا ۲۴۶ ۔
١۵۔ ایضا
١٦۔ ایضا
ھندوستان کی موجودہ ضرورتیں اور کردار امام جعفرصادق علیہ السلام
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1383