قرآن کریم میں جھاں امامت و ولایت کا لفظ امت کی وسیع رھبری اور قیادت کے معنی میں استعمال ھوا ہے وھاں خلافت کا لفظ بھی استعمال ھوا ہے۔ قرآن میں اکثر و بیشتر یہ کلمات شریعت اور الٰھی قوانین کے اجراء و نفاذ، حفاظت و پاسداری اور بیان و تفسیر کے معنی میں استعمال ھوئے ہیں، لیکن تاریخ اسلام میں مسلمانوں میں آنے والے انحرافی بھونچالوں کے نتیجے میں لفظ خلیفہ مسلمانوں کے ایک گروہ اور امامت کا لفظ دوسرے گروہ کے ساتھ مختص ھو کر رہ گیا۔
ھم یھاں پر ان کلمات کے لغوی و اصطلاحی تعریفوں کی موشگافی اور تحقیق کرنا نھیں چاھتے، اور نہ ھی ھمارا مقصد ان دونوں میں سے کسی ایک فریق کو غلط ٹھہرا کر اپنا الو سیدھا کرنا ہے، کیونکہ اس موضوع پر بات کرنے والوں نے اتنی تفصیل سے بات کی ہے کہ اب ھمارے لئے کوئی ضرورت بھی نھیں رھتی۔
ھم فقط یھی کھنا چاھتے ہیں کہ دینی اور قرآنی اصطلاحات کو اپنا من پسند معانی پھنانے کی بجائے ان کے اپنے اصل معانی میں استعمال کریں۔ کلمہ امامت اپنے آغاز سے ھی رھبری، قیادت اور لیڈرشپ کے معنی میں استعمال ھوا ہے اور معنی کے مطابق قرآن نے ابراھیم کو امام کھا ہے اور ھمارے پیارے نبی بھی اپنی امت کا امام تھے۔ لھذٰا اسی بنیاد پر آپ کی وفات کے بعد بھی ایک ایسی ھستی کی ضرورت تھی جو اس عظیم امت کی امامت و رھبری کی ذمہ داری اٹھا سکے، جس کے لئے آپ نے اپنی زندگی میں ھی کافی و شافی ھدایات دے کر گئے تھے۔
آج کے انسان کے لئے امامت کا مسئلہ، نبوت اور رسالت کے مسئلے کی طرح فقط ایک تاریخی مسئلہ نھیں ہے کہ سابقہ انبیاء اور ھمارے آخری نبی حضرت محمد ﴿ص﴾ خدا کی طرف سے منتخب ھوئے اور اپنی ذمہ داریاں انجام دیں اور اس دنیا سے چلے گئے اور ھماری ذمہ داری یھی ہے کہ اس ماضی پر ایمان اور اعتقاد رکھیں کیونکہ انبیاء کے بعد نبوت کا دروازہ بھی ھمیشہ ھمیشہ کے لئے بند ھوگیا ہے۔ اب کوئی نبوت کا دعویٰ نھیں کر سکتا، لیکن امامت، نبوت کی طرح نھیں ہے بلکہ امامت ھر دور کے ھر انسان اور اسلامی معاشرے کی ضرورت ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرے خصوصا علماء اور دانشوروں نے مسئلہ امامت کی طرف فقط اور فقط ایک تاریخی مسئلے کی حیثیت سے نگاہ کی۔ وہ مسئلہ امامت کو مسئلہ نبوت کی طرح سمجھنے لگے لھذٰا اسی وجہ سے امامت اور خلافت کے مسئلے پر اتنی کثیر تعداد میں تحقیقات اور ریسرچز انجام پانے کے باوجود مولوی کی امامت ڈیڑھ انچ کی مسجد سے زیادہ وسیع نہ ھو سکی۔ ھم نظام امامت کے نفاذ کے لئے جدیت اور عقلمندی دکھانے کی بجائے امامت کے نام پر دیوانہ پن دکھانے لگے۔ ھم نے انسانیت اور خاص طور پر امت کی امامت و رھبری سنبھالنے کے لائق افراد کی تلاش اور پرورش کی بجائے امامت کے مسئلے پر جنگ و جدال اور خون خرابے کی فضا قائم کی۔
لھذا دور حاضر میں امامت کے پرستار، الحادی افکار و نظریات کے حامل، ظالم و جابر شخصیات اور پارٹیوں کی اقتدار کی کرسی کو مضبوط کرتے ھوئے نعرۂ حیدری کی صدا بلند کرتے ہیں تو ان لوگوں کی عقل پر ماتم کرنا ھی مناسب نظر آتا ہے۔ ایسے لوگوں کی عقل پر فاتحہ اس وقت پڑھنے کو من کرتا ہے جب وہ اسی ظالمانہ نظام کو بھی مانتے ھوئے مھدویت کے عقیدے کا بھی اظھار کرتے ہیں اور دن رات العجل العجل العجل کی دعا پڑھتے نھیں تھکتے۔
مھدویت:
قیامت سے پھلے عالمی سطح پر ایک عادلانہ اور منصفانہ نظام حکومت کی برپائی اور دنیا کے ظالمانہ نظام سے انسان کی آزادی کا وعدہ خود خدا نے قرآن مجید سمیت تمام آسمانی کتابوں میں دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے: ’’اور ھم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنھیں زمین میں بےبس اور کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انھیں زمین کا پیشوا بنائیں اور انھیں وارث بنائیں‘‘(سورہ قصص، آیت ۵)۔ مذکورہ اصلاحی تحریک کے بانی اور عالمی نظام حکومت کے امام کو اسلامی روایات میں امام مھدی (عج) کے نام سے یاد کیا ہے لیکن امت اسلامیہ کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ جس مھدیؑ کے آنے کا وعدہ کیا گیا ہے کیا وہ ابھی تک پیدا ھوئے ہیں یا نھیں؟ اھلسنت کی اکثریت اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ مھدی موعود ابھی تک پیدا نھیں ھوئے ہیں لیکن شیعہ مکتب کے مطابق امام مھدی، پیغمبر اکرمؐ کی دختر گرامی حضرت فاطمہ زھراؑ کی نسل کے نویں فرزند حضرت حسن بن علی العسکریؑ کے گھر ۲۵۵ھ میں شعبان کی ۱۵ تاریخ کو جناب نرجس خاتون کے بطن سے اس دنیا میں تشریف لا چکے ہیں اور تقریبا ۵ سال بعد امام عسکریؑ کی شھادت کے فورا بعد آپ پردۂ غیب میں چلے گئے۔ خداوند عالم کی طرف سے اپنے اس نمائندے کو پردۂ غیب میں اٹھانے کے فلسفلے اور ظھور کے وقت کے مسئلے سے قطع نظر امام مھدیؑ کی غیبت کے دوران مسلمانوں پر عائد ھونے والی ذمہ داریوں پر گفتگو کرنا زیادہ ضروری معلوم ھوتا ہے۔
۱۔ انحراف سے دوری:
شیعہ در واقع اسی اسلام کے تسلسل کا نام ہے جسے محمد مصطفیٰ لے کر آئے تھے اور جسے امت تک پھنچانے میں کوئی کسر نھیں چھوڑی تھی۔ لھذٰا یہ تاثر غلط ہے کہ شیعہ اصل اسلام سے منحرف ھونے والا ایک فرقہ ہے بلکہ شیعہ اسی تسلسل کا نام ہے جسے بزرگ اصحاب رسول اللہ اور آئمہ ھدیٰ نے اپنے خون پیسنے سے برقرار رکھا۔ شیعہ نہ فقط انحرافی فرقہ نھیں بلکہ وہ مرکز و محور ہے جس سے لوگوں نے انحراف کیا ہے۔
جس کی واضح دلیل امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا وہ خط ہے جو آپ نے اھل مصر کے نام لکھا: "اللہ سبحانہ، نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جھانوں کو ڈرانے والا اور تمام رسولوں پر گواہ بنا کر بھیجا، پھر جب رسول اللہ کی وفات ھوگئی تو ان کے بعد مسلمانوں نے خلافت کے بارے میں کھینچا تانی شروع کردی۔ اس موقع پر بخدا مجھے یہ کبھی تصور بھی نھیں ھوا تھا اور نہ میرے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عرب خلافت کا رخ اُن کے اھل بیت سے موڑ دیں گے اور نہ یہ کہ اُن کے بعد اُسے مجھ سے ھٹادیں گے۔ مگر ایک دم میرے سامنے یہ منظر آیا، کہ لوگ فلاں شخص کے ھاتھ پر بیعت کرنے کے لئے دوڑ پڑے۔ ان حالات میں میں نے دیکھا کہ مرتد ھونے والے اسلام سے مرتد ھو کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کو مٹا ڈالنے کی دعوت دے رھے ہیں۔ اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ھوئے میں اسلام اور اھل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لئے اس سے بڑھ کر مصیبت ھوگی جتنی یہ مصیبت کہ تمھاری یہ حکومت میرے ہاتھ سے چلی جائے جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے۔" (نھج البلاغہ، خطوط ۶۲ ترجمہ مفتی جعفر حسین مرحوم)
شیعیت کی تاریخ اس بات سے پُر ہے کہ اس مکتب کے بزرگوں اور رھنماؤں نے ھمیشہ سے امت میں پیش آنے والے انحرافات کا مقابلہ کیا ہے۔ اور اس راہ میں اپنی جانیں پیش کرنے سے بھی کبھی دریغ نھیں کیا ہے۔ پس آج بھی ایک حقیقی شیعہ ھونے کے ناطے امام مھدی کے منتظر کی بنیادی ذمہ داری خالص محمدی اسلام سے انحراف کا مقابلہ کرنا ہے نہ خود کبھی انحراف کا شکار ھو اور نہ ھی کسی کے دینی انحراف پر خاموش رھے۔
۲۔ دینی اقدار کی حفاظت:
شیعہ کو سب سے زیادہ دین کا محافظ اور پاسدار ھونا چاھیئے جیسا کہ ابھی ابھی امیر المومنین کا فرمان گزر گیا کہ آپ نے کس طرح کی حفاظت اور پاسداری کے لئے قربانیاں دی ہیں اور کربلا والوں کی قربانیاں تو دنیا کبھی بھلا بھی نھیں سکتی اور اس کے علاوہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلامی خلافت کا منصب دوسروں کے ھاتھ میں ھونے کے باوجود شیعوں نے ھمیشہ دین کی پاسداری کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
نھج البلاغہ کے خطبہ شقشقیہ اور مذکورہ بالا خط کے علاوہ آپ کے دیگر فرامین اور تاریخی روایات سے یھی معلوم ھوتا ہے کہ اگر آپ نے اپنا حق غصب کرنے کے باوجود بھی خلفائے وقت کا ساتھ دیا ہے تو فقط اور فقط اسلام کی بقا اور حفاظت کے خاطر۔ لھذٰا آج شیعہ لاشیں اٹھا کر بھی امت کی وحدت کی بات کرتے ہیں تاکہ امت کا شیرازہ اس سے بھی مزید بکھرنے سے بچائے رکھے، اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے امت کو آمادہ کر سکے۔
۳۔ عالمی نظام کے قیام کی تیاری:
خدا کے وعدے کے مطابق قیامت سے پھلے عالمی منظرنامے پر صالحین کی حکومت ظاھر ھو کر رھی گی، لیکن آج ھم اگر اس صالح نظام کے نفاذ اور قیام کی کوشش نہ کریں تو یہ کسی اور نسل کے نصیب میں آئے گا۔ ھمیں کم سے کم اس نظام کے لئے راہ ھموار کرنے والوں میں شمار ھونا چاھیئے اور یہ تب ممکن ہے جب ھم عالمی حکومت کے لوازم اور تقاضوں کو جانیں اور ان کے حصول کے لئے کوشاں ھوں۔ ایک عالمی حکومت کے لئے عالمی نظام تعلیم، عالمی نظام اقتصاد، عالمی نظام قدرت اور آخر میں عالمی نظام سیاست کی ضرورت ہے۔ اسلام میں ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جس کے آج مغربی مفکرین بھی قائل ہیں۔ عالم سطح پر اشتراکی اور سرمایہ داری نظام کی شکست کے بعد بشریت کے پاس اسلامی نظام کی آزمائش کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ بھی نھیں ہے، جس کا عندیہ بھت سارے مشرقی اور مغرفی مفکرین دے بھی چکے ہیں، لیکن ان تمام ضروریات اور تقاضوں کو دیکھتے ھوئے آج کی اسلامی دنیا اور اس کی حالت زار پر نظر ڈالتے ہیں تو مجھ جیسے ایک منتظر کو ظھور کا زمانہ نزدیک نظر آنے کی بجائے بھت دور نظر آتا ہے کیونکہ ھم ابھی تک اس نھج اور مقام پر اپنے آپ کو پھنچانے کی کوشش ھی نھیں کر رھے ہیں جس پر پھنچنے کے بعد عالمی صالحانہ نظام امامت قائم ھوگی۔ پس اگر ھم جلدی ظھور کے خواھش مند ہیں اور اگر چاھتے ہیں کہ دنیا میں وہ عالمی نظام عدل نافذ ھو، جس کا بشریت صدیوں سے انتظار کر رھی ہے تو ھمیں ان میدانوں میں اپنے آپ کو مسلح کرنا پڑے گا۔
ھم اپنے محلے، علاقے اور ملک کی سطح پر ایک کامیاب نظام تعلیم بنانے اور اس کو چلانے میں کامیاب ھو جائیں تو پھر امام زمانہ کی حکومت کے عالمی نظام تعلیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ھم اپنے علاقے، قوم اور ملک کی سطح پر ایک کامیاب اسلامی اقتصادی نظام کو چلانے میں کامیاب ھو جائیں تب جاکر عالمی عادلانہ حکومت کے عالمی نظام اقتصاد کو ھضم کر سکتے ہیں۔ ھم اپنے محلے اور ملکی سطح پر اتنے قدرت مند ھو جائیں کہ ھر شام ھمیں کسی کی میت کو لئے سڑک پر احتجاج کرنے کی ضرورت نہ پڑے، تب ھم امام زمانہ کی حکومت کے نظام قدرت کا جزء بن سکتے ہیں۔ ھم اپنے شھر، صوبہ اور ملک کی سطح پر ھی صحیح کوئی عادلانہ نظام سیاست قائم کرنے اور ظالمانہ نظام سیاست کی بیخ کنی کرنے میں کامیاب ھوجائیں تب جا کر ھم امام زمانہ کے عالمی عادلانہ نظام سیاست کا حقیقی منتظر کھلا سکتے ہیں۔ ورنہ مرحوم شھید سبط جعفر زیدی کے اس شعر کا بھی ھم جواب نھیں دے پائیں گے۔
العجل جو کھتے ھو، آگئے تو کیا ھوگا...؟
تحریر: محمد سجاد شاکری
امامت و خلافت اور مھدویت کا زندہ مفھوم
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1993