کیا ایران میں بھی عرب بھار آنے کو ہے؟ یہ عنوان ہے آئی بی سی پر چھپنے والے ایک کالم کا، آئی بی سی نے کچھ عرصے سے ایک مخصوص لابی کو کوریج دینے کی مھم چلا رکھی ہے اور یکطرفہ طور پر مواد چھاپ رھی ہے، جس کا ثبوت یہ کالم بھی ہے۔
ھم قارئین کو یہ یاد دلانا چاھتے ہیں کہ صداقت کسی بھی تحریر کی جان ھوتی ہے۔ حقائق پر مبنی تحریریں ھی فکری و نظریاتی اور معلوماتی سرمایہ ھوتی ہیں۔ صحافت کا شعبہ بھت مقدس ہے۔ قلم کی حرمت کا خیال رکھتے ھوئے امانت اور صداقت کی پاسداری بھرحال ضروری ہے۔
چند روز قبل آئی بی سی اردو پر صداقت سے تہی غیر حقیقت تجزیئے پر مبنی عمر فاروق نامی ایک صاحب کی ایک تحریر نگاہ سے گزری، انھوں نے اپنی تحریر کا عنوان رکھا ہے(کیا ایران میں عرب بھار آنے کو ہے؟) یہ عنوان ھی اس بات کا پتہ دینے کے لئے کافی ہے کہ ایران کے بارے میں قلم کار کی معلومات صفر ہیں۔
ایران کا شمارعربی ممالک میں نھیں ھوتا کہ وھاں عرب بھار آئے گی اور نہ ھی ایران میں عربوں کی طرز پر اوباش بادشاھوں کی آمریت کا تصور پایا جاتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پھلے ایران پر نہ فقط خزاں چھائی ھوئی تھی بلکہ پورا ایران رضا شاہ پھلوی کے ھاتھوں ظلمت کدہ بنا ھوا تھا۔
اھلِ ایران کے بقول ایرانی معاشرے میں انصاف ناپید تھا، ظلم کا بول بالا تھا، لوگ اغیار کے غلام مطلق تھے، عوام کو نہ اظھار رائے کی آزادی تھی اور نہ ھی امور مملکت میں مداخلت کرنے کا اختیار۔ ھاں البتہ فحاشی اور عریانی کے اظھار پر کوئی پابندی نھیں تھی۔ بے راہ روی، فسق و فجور اور عریانی کا دور دورہ تھا، بلکہ مغربی ثقافت و تھذیب کی تقلید کرتے ھوئے جو جتنا فحاشی پھیلانے میں کردار ادا کرتا، شاہ کے ھاں وہ اتنا ھی محبوب و مقرب قرار پاتا اور رضا شاہ اسے انعام و اکرام سے نوازتا۔
ایرانی سماج میں عورت اپنا اعلٰی و ارفع مقام کھوچکی تھی، وہ یا خرید و فروخت کی چیزوں کے لئے اشتھار بنتی تھی اور یا پھر للچائی ھوئی نظروں کے لئے تسکین کا ذریعہ بن چکی تھی۔
انقلاب سے قبل کا ایران بھی آج کے بعض مسلم ممالک کی طرح امریکہ کا مرید اور نوکر تھا، ایران کی پوری ثروت سے امریکہ استفادہ کرتا تھا۔ ایران کا قومی خزانہ خائن بادشاہ کے ھاتھوں میں تھا اور وہ اسے دونوں ھاتھوں سے امریکہ و مغرب کی خدمت کیلئے لُٹا رھا تھا۔ شاھی جشن منائے جا رھے تھے اور عیش و عشرت میں قومی سرمائے کو پانی کی طرح بھایا جاتا تھا۔ اڑھائی ھزار سالہ جشن تاج پوشی میں، جس میں دنیا کے تمام ممالک کے حکمرانوں اور سرکردہ شخصیتوں کو مدعو کیا گیا تھا، جس قدر شراب استعمال کی گئی، اس کی مثال کھیں نھیں ملتی۔ رقص و سرود اور عیش و عشرت کی محفلیں گرم ھوئیں اور بیش قیمت تحائف اور نذرانوں سے مھمانوں کو نوازا گیا۔ قومی سرمائے کو عوامی فلاح و بھبود پر خرچ کرنے کے بجائے عیش و عشرت اور لھو و لعب کی باتوں میں برباد کیا جارھا تھا۔ ملک کے عوام بھوکے مر رھے تھے اور غیر ملکی بینکوں کے شاھی کھاتوں میں روز بروز اضافہ ھو رھا تھا۔
جب شاہ ایران سے فرار ھوا، اس وقت اس کے نام سے بائیس ارب ڈالر امریکہ اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع تھے۔ لیکن جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو اپنے ھمراہ عوام کے لئے بھار بھی لایا۔ ظلم کا خاتمہ ھوا، عدل کا نظام قائم ھوا، طبقاتی تفریق مٹ گئی، شاہ اور گدا کا فرق ختم ھوگیا، ایرانی قوم کو بدمعاش اور عیاش بادشاھوں کی جگہ امام خمینی جیسے متقی اور عارف کی سرپرستی اور قیادت نصیب ھوئی، جس کا فائدہ یہ ھوا کہ ایرانی قوم کو اسلامی حکومت کے زیر سایہ عزت و سربلندی کی زندگی نصیب ھوئی۔
پس آئی بی سی اور عمر فاروق صاحب اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انھیں بھی پتہ چل جائے گا کہ عقلائے عالم امریکہ اور یورپ کی غلامی کو بھار نھیں کھتے بلکہ آزادی اور استقلال کو بھار کھا جاتا ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد آج تک ایرانی قوم کی زندگی بھار میں ھی گزر رھی ہے۔
پهر آگے چل کر میاں عمر فاروق لکھتے ہیں کہ (2011ء ﴾کے اوائل میں جب مشرق وسطٰی کے ملکوں تیونس، مصر، یمن اور لیبیا میں حکمرانوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع ھوئیں ......ایران نے اس عرب بھار کا بھرپور فائدہ اٹھایا، عراق میں امریکہ کی مدد سے اپنی حکومت قائم کی، شام میں جب عرب بھار کے جھونکے آئے تو ایران بشار الاسد کے ساتھ کھڑا ھوگیا۔ کیا کھنے لکھنے والے کے اور کیا کھنے چھاپنے والوں کے۔ بھلا جھوٹ اور تعصب کی بھی کوئی حد ھوتی ہے، ایک طرف سے رائٹر نے لکھا ہے کہ عرب بھار کا بھرپور فائدہ اٹھا کر ایران نے عراق میں امریکہ کی مدد سے اپنی حکومت قائم کی اور دوسری طرف سے لکھا ہے "شام میں جب عرب بھار کے جھونکے آئے تو ایران بشار الاسد کے ساتھ کھڑا ھوگیا۔" ایسی متضاد باتوں اور ایسے احمقانہ اور بچگانہ جھوٹ پر آئی بی سی اور عمر فاروق دونوں داد کے مستحق ہیں اور یقیناً اردو صحافت کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاھتا ہے کہ جھاں صحافت کی آڑ میں اس طرح کی بے سروپا باتیں بھی چھپ جاتی ہیں۔ ان کی خدمت میں اتنا عرض کرنا کافی ہے کہ جناب والا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے بھی عقل درکار ھوتی ہے اور تعصب عقل کو کھا جاتا ہے، پھلے اپنی عقل سے تعصب کی عینک اتاریں اور پھر بات کریں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صدام حکومت کا تختہ کویت کی وجہ سے الٹا گیا تھا نہ کہ ایران کی وجہ سے اور شام میں ایران نے بشار الاسد کے ساتھ کھڑے ھو کر امریکہ و سعودی عرب کو ڈنکے کی چوٹ پر شکست دی ہے۔ آپ حقائق بیان کریں نہ کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کریں۔ صدام حکومت کے خاتمے میں عرب ریاستوں نے امریکہ کی مدد کی ہے، چونکہ صدام نے کویت پر حملہ کیا تھا جبکہ شام کی مدد ایران نے کی ہے، چونکہ شام اسرائیل کے ساتھ برسرِ پیکار تھا۔
اس کے علاوہ قلم کار سرفراز حسینی کی تحریر کے مطابق عراق، شام اور لبنان ایسے محاذ ہیں، جو براہ راست ریاست جمھوری اسلامی ایران کی خارجہ و دفاعی پالیسی کا ھراول دستہ اور ریڈ لائن ہیں، ایران اگر عراق، شام اور لبنان کے محاذ پر امریکہ، اسرائیل اور حواریوں سے شکست کھا جاتا ہے تو پھر اس کے اپنے نظریاتی اور جغرافیائی وجود کو براہ راست خطرات لاحق ھو جاتے ہیں، لھذا چاھتے نہ چاھتے ھوئے بھی ایران کو اس جنگ میں کودنا پڑا۔
پھر موصوف نے اپنی تحریر کو آگے بڑھاتے ھوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ عرب دنیا کا موقف ہے کہ ایران کا جارح ایجنڈہ ان کے لئے خطرناک ہے۔ ایران براہ راست شام کے اندر لڑائی میں مصروف ہے۔ عراق میں اس کے جارحانہ عزائم کی عملی شکل نمایاں ہے۔ اسی طرح لبنان میں اس کی ”پراکسی” جنگ جاری ہے۔ غزہ، یمن اور بحرین میں اس کی جارحیت کے مظاھر ہیں۔
بھلا اس سے زیادہ کیا تعصب برتا جا سکتا ہے، قارئین خود بتائیں کہ عرب ریاستوں کے لئے ایران کا ایجنڈہ جارحانہ ہے یا اسرائیل کا۔ یہ تو ایران ہے جس کی بدولت اسرائیل ڈر رھا ہے اور عرب ریاستوں کو مسلمان سمجھتے ھوئے آگے بڑھنے سے ھچکچا رھا ہے۔ اگر ایران نہ ھوتا تو اسرائیل عربوں کو ریوڑھ کی طرح ھانک رھا ھوتا۔ ایران نے ساری دنیا خصوصاً عرب عوام کو بیدار کیا ھوا ہے اور انھیں اسرائیل کے خلاف ھمت و حوصلہ دلا رھا ہے، اسرائیل کو متعدد مرتبہ شکست دینے والی حزب اللہ کی پشت پر کوئی عرب ملک نھیں بلکہ ایران ھی ہے۔
ایران ایک اسلامی ملک ھونے کے ناطے ساری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کا دفاع کرنے کو اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے، اگر آج دیکھا جائے تو غزہ یمن اور بحرین کے مسلمانوں سے زیادہ مظلوم کون ہے، اگر درد دل سے ان کی مادی اور معنوی کوئی ملک مدد کر رھا ہے تو وہ ایران ہے۔
کھنے کو اسلامی ملک تو سعودی عرب بھی ہے، مگر افسوس آج یمن کے لاکھوں مسلمان سعودی عرب کے بموں کی زد میں خاکستر ھوچکے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام ھی نھیں لے رھا تو جناب عمر فاروق صاحب ذرا خدا کو حاضر جان کر بتایئے کہ غزہ، یمن اور بحرین میں امریکہ اسرائیل اور ان کا اتحادی و صمیمی دوست سعودی عرب جارحیت کر رھا ہے یا ایران۔؟
آخر میں مضمون نگار نے گذشتہ دنوں مھنگائی کے خلاف ایران میں ھونے والے عوامی احتجاج کو غلط رنگ دے کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور قارئین کو یہ تاثر دینے کی سعی لاحاصل کی ہے کہ ایران میں انقلاب عوامی امنگوں کے خلاف ہے۔ ایرانی عوام کو ایران کا موجودہ نظام پسند نھیں، جبکہ ایسا بالکل نھیں۔
ایران کے بعض شھروں میں پچھلے ھفتے بڑھتی ھوئی مھنگائی اور بعض مالی اداروں کی بے ضابطگیوں کے خلاف کچھ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، جو کسی بھی جمھوری ملک میں عوام کا حق بنتا ہے، لیکن ایران کے داخلی و بیرونی دشمنوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان احتجاجات کو مشتعل ھجوم اور بے حجاب خواتین کا احتجاج بنا کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی۔ آئی بی سی سمیت عالمی میڈیا حرکت میں آیا اور جناب عمر فاروق جیسے کالم نگاروں نے خوب اپنی بھڑاس نکالی، لیکن وہ شاید بھول رھے ہیں کہ ایران کا اسلامی انقلاب ایک شعوری، عقلی، علمی، ثقافتی اور دینی انقلاب ہے، یہ ایسا انقلاب نھیں کہ جو انڈوں کی قیمتوں کے بڑھ جانے یا کسی بے حجاب خاتون کے سڑک پر نعرے لگانے سے ختم ھو جائے گا۔
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
تحریر: محمد حسن جمالی
کیا ایران میں بھی عرب بھار آنے کو ہے؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1789