www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

501380
آج بھت زیادہ تعداد میں لوگوں نے سوشل میڈیا پر حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے عقد کا تذکرہ کیا۔ آج ان کا یوم عقد ہے۔ کائنات کے افضل ترین جوڑوں میں ایک جوڑا رشتہ ازدواج میں بندھ گیا ہے۔
اسلام کے شادی بیاہ اور اس کی رسم و رواج سے متعلق بھت سے احکامات اس عقد سے معلوم ھوئے ہیں۔ دلھا اور دلھن دونوں کی پرورش خاتم الانبیاء کے ھاتھوں ھوئی ہے۔ اس لئے دونوں کا مزاج ایک سا ہے، دونوں کا طرز زندگی ایک سا ہے، دونوں الٰھی رنگ کو اختیار کئے ھوئے ہیں اور اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں۔ پرودہ نبوتؐ یہ جوڑا قیامت تک آنے والوں کے لئے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا کردار، ان کے آپس کے تعلقات، ان کا آپس میں امور کو انجام دینا سب کچھ مشعل راہ بنے گا۔
سردار انبیاءؑ کے پاس جب سردار اولیاء حضرت علی علیہ السلام خواستگاری کے لئے تشریف لائے تو حضرت نے فرمایا کہ میں اپنی بیٹی سے پوچھ کر رشتہ طے کروں گا۔ نبی مکرم اپنی دختر نیک اختر کے پاس تشریف لائے اور پوچھا کہ بیٹی کیا میں تمھارا عقد علیؑ کے ساتھ کر دوں۔؟ حضرت فاطمہؑ خاموش رھیں، آپؐ نے دوبارہ یھی سوال کیا آپؑ پھر خاموش رھیں، جب تیسری بار حضرت رسالت مآب نے پوچھا اور حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاخاموش رھیں تو سردار انبیاءؑ نے فرمایا بیٹی کا خاموش رھنا اس کی رضا ہے، اگر وہ راضی نھیں تو اسے اپنی رائے کا اظھار کرنا چاھیے۔
ٹھہریئے، ذرا یھیں رک جاھئے ذرا اپنے گریبان میں جھانک لیتے ہیں، ھمارا طرز عمل کیا ہے؟ کیا ھم شادی سے پھلے بیٹیوں کو یہ حق دیتے ہیں؟ یا ان پر اپنی مرضی مسلط کر دیتے ہیں؟
ھمارا معاشرہ بچیوں پر جبر کرتا ہے، ان کو ان کے حق سے محروم کرتا ہے، سارے گھر والوں کو معلوم ھونے کے بعد بچی کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا رشتہ طے ھو چکا ہے اور گھر میں ھونے والی چھل پھل اسی وجہ سے ہے۔ جس نے زندگی گزارنی ہے، جس کے ساتھ اس کا مستقبل وابستہ کیا جا رھا ہے، اسے معلوم ھی نھیں کہ وہ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ ان کے درمیان ذھنی ھم آھنگی ھو بھی پائے گی یا نھیں۔ غرض ھزاروں سوالات بچی کے ذھن میں ھی دم توڑ جاتے ہیں اور کوئی یہ زحمت نھیں کرتا کہ بچی سے اس کی مرضی پوچھ لی جائے۔
ایک عجیب بات دیکھنے کو ملی، کھا جاتا ہے ھم بچی کے دشمن تھوڑا ہیں، ھم نے غور و فکر کرکے رشتہ طے کیا ہے، ھم اس کے مستقبل کو زیادہ بھتر سمجھتے ہیں۔ آپ کی بات سر آنکھوں پر، آپ نے واقعاً بچی کے فائدے کا ھی سوچا ھوگا، لیکن عین ممکن ہے کہ جو چیزیں آپ کے لئے اھم ہیں، وہ بچی کے لئے اھم نہ ھوں اور یہ بھی ھوسکتا ہے کہ جو چیز بچی دیکھے، وہ جنریشن گیپ کی وجہ سے آپ نظر انداز کر رھے ھوں۔
نبی اکرمﷺ سے زیادہ خیر خواہ باپ بیٹی کے لئے کون ھوسکتا ہے، جنھوں نے اپنی بیٹی کو ماں کا پیار بھی دیا۔ اس کے باوجود جب رشتہ طے کرنے کی بات آئی تو اپنی بیٹی سے خود دریافت کیا۔
اس بات پر ضرور غور کیجئے گا، جب ھم نے بچی سے اس کا وہ حق چھین لیا، جو شریعت نے اسے عطا کیا تھا تو اس کا نتیجہ بھت بھیانک نکلا۔ ھم نے کئی خاندانوں کو تباہ و برباد ھوتے دیکھا ہے۔ جب میں گورنمنٹ کالج ساھیوال کا طالب علم تھا اور ھوٹل سے کھانا کھاتا تھا۔ ھوٹل والے نے بتایا کہ میں اگلے چند روز چھٹی پر گھر جاؤں گا، کیونکہ میری بیٹی کی شادی ہے۔ جب وہ بیٹی کی شادی کرکے لوٹا تو بھت پریشان تھ، بیٹی کی شادی سے اس کے کاندھوں سے جس احساس ذمہ داری نے اتر کر اسے سکون مھیا کرنا تھا، وہ کھیں نظر نھیں آرھا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی کرب میں مبتلا ہے۔ ایک دن میں نے والد مرحوم سے پوچھا تو انھوں نے کھا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی اس کے مرضی کے خلاف کر دی، بیٹی نے کافی واویلہ کیا، مگر اس کی بات نہ سنی اور جب شادی ھوگئی تو دوسرے دن ھی وہ اپنے خاوند سے طلاق لیکر واپس گھر آگئی کہ وہ کسی اور سے شادی کرنا چاھتی ہے اور گھر والوں نے زبردستی شادی کی ہے۔ یہ تو ایک واقعہ ہے، روز کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے، کورٹ میرج حد سے بڑھ گئی ہیں، طلاق بڑی تیزی سے معاشرے میں پھیل رھی ہے، خواتین کو قتل کرنے کے عشاریے مسلسل بڑھ رھے ہیں، فیملی کورٹس میں مقدمات کی بھرمار ھوچکی ہے اور یہ مسئلہ سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رھا ہے۔ ھر گھر والے پریشان ہیں، مگر یہ جاننے کی کوشش نھیں کی جاتی کہ ایسا کیوں ھو رھا ہے۔؟رشتہ طے کرتے وقت انسان کا انسان سے تعلق نھیں جوڑا جاتا بلکہ بچی کی شادی بنگلے، گاڑی، جاب اور بنک بیلنس سے کی جاتی ہے۔ یہ تعلق اتنا حقیر ہے، جسے ٹوٹتے چند لمحات لگتے ہیں۔
حضرت زھراءسلام اللہ علیھا کا یوم عقد منانے والو، جب اپنی بچیوں کی شادی طے کرنے لگو تو وھی معیار پیش نظر رکھا کرو، جو رسالت مآب کے پیش نظر تھا۔ آپؐ نے اپنی بیٹی کا رشتہ مالدار لوگوں کو دینے سے انکار کیا تھا اور ایک ایسے شخص کو دیا تھا، جس کے پاس جھیز میں دینے کے لئے کچھ نہ تھا، ایک متاع بیچ کر کچھ سامان لایا گیا تھا۔ حیران ھوتا ھوں اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ھو جاتی ہیں، جب وجہ تخلیق کائنات کی بیٹی کے جھیز کی تفصیل پڑھتا ھوں۔ چند مٹی کے برتن ہیں، مشک ہے، چکی ہے اور بستر ہے۔ علماء نے ان تمام اشیاء کی تعداد 20 کے قریب لکھی ہے اور جب خاتم الانیباءؑ جناب سیدہ کائنات کے جھیز کے پاس تشریف لائے تو غور سے ھر چیز کو دیکھا، ایک باپ ھی جانتا ہے کہ وہ بیٹی کے جھیز سے کتنا پیار کرتا ہے، آپؐ نے جھیز کے پاس دست دعا بلند کئے اور ایک دعا کی، جو صرف اپنی بیٹی کے لئے نہ تھی بلکہ قیامت تک آنے والی تمام بیٹیوں کے لئے حضرت نے فرمایا، اے پرودگار اس گھر کو برکت عطا فرما، جس کے اکثر برتن مٹی کے ھوں۔
یاد رکھو، اگر عزت کا معیار زیادہ جھیز ھوتا تو آپؐ سے بڑھ کر جھیز کون دے سکتا تھا؟ اور اگر شرف کی بنیاد بڑی تقریب ھوتی تو آپؐ سے بڑھ کر کون یہ تقریب منعقد کرسکتا تھا۔؟ مگر آپؐ نے اس طرح سے بیٹی کی شادی کی جیسے اس وقت مدینہ کے غریب ترین مسلمان کی بچی کی شادی بھی ھوسکتی تھی۔ آپؐ نے عزت و شرف کے معیار کو چند دھاتوں اور مٹی کے مجموعے سے تبدیل کرکے روحانیت کو قرار دیا۔
عقد روح کا روح سے رشتہ قرار پایا اور اللہ کے ایک عظیم حکم کی تکمیل ھو تو وہ خاندان وجود میں آتا ہے جسے علیؑ و زھراءؑ کا خاندان کھا جاتا ہے۔ علیؑ و زھراءؑ کی شادی کا جشن منانے والو، اپنے عمل سے ثابت کرو کہ تم اس جشن پر خوش ھو، گھر میں عمر رسیدہ ھوتی بھنوں اور بیٹیوں کے جذبات کو خاندان، جھیز اور جانے کن کن رکاوٹوں سے قتل کرنے والو، اپنے رویوں کو تبدیل کرو۔ جب تم معیارات تبدیل کر دو گے اور اس خاندان کے قائم کردہ معیارات پر زندگی گزارنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تمھارے کام آسان کر دے گا اور ویسے بھی بیٹیاں اللہ کے رسولؐ کو بھت پیاری تھیں، اللہ ھر بیٹی کو عزت مند زندگی دے۔
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

Add comment


Security code
Refresh