www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

302000
دنیا کو یھی معلوم ہے کہ اکتالیس ملکی فوجی اتحاد دھشت گردی کے خلاف ہے۔ اس کا مقصد ارھاب کا قلع قمع کرنا ہے، جبکہ اس اتحاد میں شامل نہ کئے جانے والے ممالک کو دیکھ کر اندازہ ھوتا ہے کہ اتحاد بنانے والوں کی نظر میں داعش اور اس فکر کے گروہ ارھاب نھیں ہیں، کیونکہ اگر وہ ارھاب ھوتے تو پھر جو ممالک اور گروہ ان ارھاب کے خلاف میدان جنگ میں جان و مال کی قربانی دے رھے ہیں، وہ اس اتحاد کا حصہ ھوتے۔
کچھ روز قبل امریکی وزیر دفاع نے اس راز سے بھی پردہ اٹھایا اور بتایا کہ اس اتحاد کا بنیادی مقصد ایران کے خطے میں بڑھتے ھوئے اثر و رسوخ کو روکنا ہے۔ ان کی نظر میں ایران ھی ریاستی دھشت گردی کا سب سے بڑا حامی ہے اور اب بلی مکمل طور پر تھیلے سے باھر آچکی ہے، جب سعودی نائب ولی عھد نے گذشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں ایران کے حوالے سے اظھار نظر کیا۔
العربیہ کے پروگرام ’’الثامنۃ‘‘ میں ایران سے مذاکرات کے سوال کے جواب میں شھزادہ محمد بن سلمان نے کھا: "ھم ایک ایسے رژیم کے ساتھ کیسے مفاھمت کرسکتے ہیں، جس کی بنیاد شدت پسندانہ نظریات پر ھو۔ جس رژیم کا نظریہ ھو کہ وہ مسلم دنیا پر قبضہ کرے گی اور وھاں پر فقہ جعفریہ کو نافذ کرے گی۔
شھزادہ محمد بن سلمان نے کھا کہ ایران کا نظریہ (ریاست و سیاست) اس عقیدہ پر قائم ہے کہ امام مھدی﴿عج﴾ تشریف لائیں گے اور ھمیں اس ظھور کی راہ ھموار کرنی ہے۔ شھزادہ بن سلمان نے کھا کہ ھم جان چکے ہیں کہ ھم اس رژیم کا بنیادی نشانہ ہیں، انھوں نے کھا کہ ھم جانتے ہیں کہ ایرانی رژیم کا بنیادی مقصد مکہ پر قبضہ ہے اور ھم ایسا نھیں ھونے دیں گے۔ ھم اس جنگ کو سعودیہ نھیں آنے دیں گے بلکہ ان کی سرحدوں میں لڑیں گے۔ شھزادہ سلمان نے مزید کھا کہ یہ (نظام) مختصر مدت میں اپنا موقف ھرگز تبدیل نھیں کرے گا والا یہ کہ ایران کے اندر اس (نظام) کی شریعت کا خاتمہ ھو جائے۔ انھوں نے مزید کھا کہ جن نکات پر اس نظام کے ساتھ مفاھمت ھوسکتی ہے وہ تقریباً ناپید ہیں۔"
سعودی شھزادے کے نظریات بالخصوص نظریہ مھدویت سے متعلق گفتگو جھاں دلچسپ ہے، وھاں سوال انگیز بھی ہے۔ امام مھدی (عج) کے ظھور کا عقیدہ دنیا کے تمام انسانوں کی مشترکہ میراث ہے۔ مسلمان انھیں مھدی، ھندو ان کو کالکی اوتار، بدھ ان کو میتریا، پارسی ان کو سوشیانت، یھودی ان کو مسیحا، شمالی امریکہ کے قبائل ان کو ٹرو مین کے نام سے جانتے ہیں۔
اگرچہ ھر قوم کا خیال ہے کہ عالمی نجات دھندہ ان میں سے ھوگا، تاھم سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آخری زمانے میں ایک ایسی ھستی ظھور کرے گی، جو دنیا کو ایسے عدل سے پر کر دے گی، جیسے وہ ظلم سے بھری ھوئی ھوگی۔
کلام داودی یعنی مزامیر داودی میں درج ہے: "بھیڑیا، بھیڑ کے ھمراہ زندگی بسر کرے گا، چیتا بکری کے ھمراہ سوئے گا، بچھڑا شیر کے ھمراہ رھے گا اور ایک چھوٹا بچہ ان کی نگرانی کرے گا۔ ان مقدس پھاڑوں میں کوئی نقصان یا بے اعتدالی نھیں ھوگی، کیونکہ دنیا خدا کی نظروں میں ھوگی۔ اگرچہ اس امر میں تاخیر ممکن ہے، تاھم اس کا انتظار کرو، کیونکہ بلاشبہ یہ ھو کر رھے گا۔"
انجیل میں درج ہے: "فرزند آدم کی آمد نور کی مانند ہے، جو مشرق سے مغرب تک پھیل جائے گا، پھر اس کی آمد کے قرائین آسمان سے ظاھر ھوں گے۔ اس وقت سب لوگ اپنی چھاتیاں پیٹیں گے اور لوگ اسے بادلوں پر سے زمین پر اترتا دیکھیں گے۔"
ایک اور مقام پر انجیل میں درج ہے: "پس تیار رھو، اس وقت کے لئے جب ابن آدم ظاھر ھوگا، جس کی تمھیں توقع نھیں ہے۔" امریکی لکھاری میکس کھتا ہے کہ انجیل مقدس میں ابن آدم کا تذکرہ اسّی مقامات پر ھوا ہے، جس میں سے تیس مقامات پر اس سے مراد حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں اور پچاس مقامات پر اس سے مراد وہ شخص ہے جو آخری زمانے میں ظاھر ھوگا اور انسانیت کا نجات دھندہ ھوگا۔ میکس لکھتا ہے کہ یسوع مسیح اس کے ھمراہ آئیں گے اور اس کا بے پناہ احترام کریں گے۔
ھندو کتاب بسک میں تحریر ہے: "آخری زمانے میں ایک عادل سورما دو دنیاؤں کا خاتمہ کرے گا، یہ انسانوں اور فرشتوں کا سالار ھوگا۔ وھی حق ھوگا۔ وہ بحر و بر میں چھپے خزانوں پر تصرف پائے گا۔"
ایک اور ھندو روایت کے مطابق: "دنیا کی بھترین مخلوق ’’کوشن‘‘ کا فرزند اس دنیا سے بادشاھت کا خاتمہ کرے گا۔ وہ مشرق سے لے کر مغرب تک کی پھاڑیوں پر حکومت کرے گا اور بادلوں پر سفر کرے گا۔"
پارسی مقدس کتابوں میں اس عالمی نجات دھندہ کے متعلق لکھا گیا: "وہ دنیا کو تھذیب سکھائے گا اور اسے عدل سے بھر دے گا۔"
اسی طرح بھت سی اقوام ایک عالمی نجات دھندہ کی آمد کی قائل تھیں یا ہیں، جن میں قدیم ایرانی، سلواکین، چینی، جرمن، یونانی، یورپی قبائل شامل ہیں۔ مسلمانوں میں بھی مھدی موعود﴿عج﴾ کی آمد کا تذکرہ احادیث اور روایات کی صورت میں موجود ہے۔ بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ امام مھدی (عج) کی ولادت ھونی ہے اور بعض کے نزدیک یہ ولادت ھوچکی ہے۔ اوائل اسلام سے لے کر آج تک بھت سے افراد کے بارے مھدی کا گمان کیا گیا اور بعض نے مھدی ھونے کا دعویٰ بھی کیا۔ یہ بات نھایت واضح ہے کہ مسلمانوں کے مابین بھی مھدویت کا عقیدہ یا نظریہ کوئی انھونی یا اچھوتی بات نھیں ہے۔
سعودی شھزادے کی یہ بات حیران کن ہے کہ اسے نظریہ مھدویت اپنے خاندانی اقتدار کے خلاف نظر آتا ہے اور وہ اس نظریہ کو اپنانے والی ایک ریاست کو فقط اس کے نظریئے اور عقیدے کے سبب دشمن بنائے بیٹھے ہیں۔
مھدی﴿عج﴾ ایرانیوں یا فقط شیعوں کے رھبر و راھنما نھیں ہیں بلکہ وہ انسانیت کے لئے نجات دھندہ ہیں۔ جیسا کہ میں نے سطور بالا میں مختلف ادیان و مذاھب اور اقوام کے حوالے درج کئے۔ اگر سعودی شھزادے کو یہ معلوم ھو جائے کہ دنیا کی ھر قوم ایک ایسے شخص کی منتظر ہے اور اس کی آمد کے لئے راہ ھموار کر رھی ہے، جو دنیا کو عدل و انصاف سے پر کر دے گا تو شاید وہ ایران کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام کو بھی اپنے دشمنوں کی فھرست میں شامل کر لیں۔
محمد بن سلمان کو نظریہ مھدویت سے کیا خوف ہے اور وہ اسے اپنا دشمن کیوں تصور کرتا ہے، یہ بات سوال انگیز ہے۔ نظریہ مھدویت کو سامنے رکھ کر ایران کے حوالے سے یہ سوچ کہ وہ مکہ یا حجاز مقدس اور عالم اسلام پر قبضہ کرنا چاھتا ہے اور پوری دنیا پر فقہ جعفریہ کو نافذ کرنا چاھتا ہے، میری نظر میں اس حوالے سے محمد بن سلمان کا شائد اتنا قصور نھیں۔
عرب دنیا میں بسنے والے اکثر نوجوان بچپن سے یھی سنتے آئے ہیں، جس کا اظھار محمد بن سلمان نے اپنے انٹرویو میں کیا۔ یقیناً نفرت کی کھیتی پروان چڑھ چکی ہے اور اس کی قیمت ھماری نئی نسلوں کو ادا کرنی ھوگی۔ اگر محمد بن سلمان اور ان کی طرح کے عرب جوان انصاف سے فیصلہ کرتے تو شاید انھیں حماس، لبنان اور یمن کے وہ ھزاروں مالکی، حنبلی، شافعی اور زیدی مسلمان نظر آتے جو دھائیوں سے ایرانیوں سے وابستہ ہیں اور اپنے مسالک پر قائم رھتے ھوئے آزادی و حریت کا پرچم سربلند کئے ھوئے ہیں۔
انتھائی افسوسناک امر یہ ہے کہ محمد بن سلمان کو ایران کا نظریہ مھدویت تو نظر آتا ہے، تاھم صھیونی کے پروٹوکول نظر نھیں آتے، جن کے تحت وہ عرب دنیا میں وارد ھوچکے ہیں، ایک ریاست پر قابض ہیں اور آھستہ آھستہ اپنے تسلط کو اقوام عرب پر مضبوط سے مضبوط تر کر رھے ہیں۔
بھرحال سعودی شھزادے کے اس بیان نے مسلمان ملکوں کے اس فوجی اتحاد کے خدوخال کو بھی نھایت واضح کر دیا کہ یہ فوج ایران نھیں بلکہ نظریہ مھدویت اور اس عالمی حکومت کے قیام کی کوششوں کو روکنے کے لئے قائم کی گئی ہے۔ ایک طاقتور مسلمان شھزادے کی جانب سے ان خیالات کا اظھار اگرچہ نھایت مضحکہ خیز ہے، تاھم تشویشناک بھی ہے، جو عالم اسلام کے آئندہ کے منظر نامہ کو واضح کرتا ہے۔
اللہ کریم اپنے حبیب کے صدقے اس امت کو تمام آفتوں سے نجات عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: سید اسد عباس

Add comment


Security code
Refresh