جب بھی زبانوں پر اور کانوں میں لفظ وفا آتا ہے، ایک ھی لمحے میں ذھن ایک پیکر وفا کی طرف جاتا ہے، جس نے صحیح معنوں میں وفا کے مفھوم کو دنیا والوں کو سمجھا دیا۔ وہ پیکر وفا جس نے وفا کا اصلی روپ دکھایا، وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا بھادر اور شیر دل فرزند عباس ہے۔ عباس علیہ السلام کی قدر و منزلت اس حدیث سے معلوم ھوتی ہے کہ ﴿روز قیامت تمام شھداء حضرت عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے﴾ عباس اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نھیں تھے، لیکن مقام و منزلت میں اتنے کم بھی نھیں تھے، عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کرینگے۔
عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیھما السلام کے بھائی چار شعبان سن 26 ھجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ھوئے اور 61 ھجری کو کربلا میں مقام شھادت پر فائز ھوئے۔ شھادت کے وقت آپ کی عمر مبارک 34 سال تھی۔ چودہ سال اپنے بدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام کے زیر تربیت گزارے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں، جن کی کنیت ام البنین ہے۔
حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی شھادت کو دس برس ھوچکے تھے، ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا ﴿کہ جو نسب شناسی میں ماھر تھے﴾اور کھا: میرے لئے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو، جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ھو، تاکہ اس خاتون سے ایک بھادر اور شجاع فرزند پیدا ھو۔ جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین علیہ السلام کو پھچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھا، جس کے آباؤ اجداد عرب کے شجاع اور بھادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھی۔ اسے فاطمہ کلابیہ کھا جاتا تھا اور بعد میں انھوں نے ام البنین کے نام سے شھرت پائی۔ جناب عقیل رشتہ کے لئے اس کے باپ کے پاس گئے، اس نے بڑے ھی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ فاطمہ کلابیہ نھایت ھی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعد آپ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر تشریف لائی، بچوں کی دیکھ بال اور ان کی خدمت شروع کی۔ جب انھیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کھتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو، کھیں تمھارے لئے تمھاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ھو جائے۔ میں تمھاری خادمہ ھوں۔
اللہ نے آپ کو چار بیٹوں سے نوازا۔ عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان اور یہ چاروں بھائی کربلا میں شھید ھوگئے۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ھمیشہ انھیں اپنی اولاد پر ترجیح دی، جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام پر قربان ھونے خاص تاکید کی اور ھمیشہ جو لوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرھے تھے، ان سے سب سے پھلے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں سوال کرتی تھیں۔ امام سجاد علیہ السلام اپنے چچا عباس علیہ السلام کی اس طرح توصیف کرتے ہیں: ﴿رَحِمَ اللَّهُ عَمِىَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلى وفَدى أَخاهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى قُطِعَتْ يَداهُ فَأَبْدَلَهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ مِنْهُما جِناحَيْن يَطيرُ بِهِما مَعَ الْمَلائِكَةِ فى الْجَنَّةِ كَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبى طالِبْ عليه السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبارَكَ وَتَعالى مَنْزِلَةٌ يَغبِطَهُ بِها جَميعَ الشُّهدَاءِ يَوْمَ القِيامَةِ﴾ خدا میرے چچا عباس پر رحمت کرے کہ جنھوں نے ایثار و فداکاری کی، اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا اور اپنے بھائی پر فدا ھوگئے۔ یھاں تک کہ ان کے دونوں بازو قلم ھوگئے، پس خدا نے انھیں دو پر دیئے، جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں، جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دیئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شھداء قیامت کے دن رشک کریں گے۔
امام صادق علیہ السلام جناب عباس علیہ السلام کی توصیف میں فرماتے ہیں: ﴿كانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصيرَةِ، صَلْبَ الْأيمانِ، جاهَدَ مَعَ أَبى عَبْدِاللَّهِ عليه السلام وَأَبْلى بَلاءً حَسَناً وَمَضى شَهيدا﴾ ھمارے چچا عباس علیہ السلام اھل بصیرت تھے، مستحکم ایمان کے مالک تھے، ابا عبداللہ علیہ السلام کی رکاب میں جھاد کیا، اس امتحان میں کامیاب ھوئے اور آخر کار مقام شھادت پر فائز ھوئے۔ جناب عباس علیہ السلام کے بچپنے کے بارے میں تاریخ کے اندر زیادہ معلومات نظر نھیں آتیں۔ صرف اتنا نقل ھوا ہے کہ ایک دن اپنے بابا امیرالمومنین کے زانو پر بیٹھے ھوئے تھے امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹا کھو ایک۔ حضرت عباس نے کھا ایک۔ پھر آنحضرت نے کھا: کھو دو۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کھا اس سے دو کھتے ھوئے شرم آتی ہیں۔
آپ کی جوانی کے بارے میں نقل ھوا ہے کہ آپ جنگ صفین میں موجود تھے۔ بعض نے ابوالشعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے قتل کی آپ کی طرف نسبت دی ہے۔ خوارزمی نے لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب کریب نامی ایک شخص امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے آیا تو آپ نے جناب عباس کا جنگی لباس پھنا اور اس کے ساتھ جنگ کی۔ حضرت علی علیہ السلام کو ایک ایسے بھادر فرزند کی تمنا تھی، جو ان کے بعد اسلام کی حفاظت کرسکے اور حسین بن علی علیہ السلام کے لئے مددگار بنے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی دعا عباس کی شکل میں پوری ھوئی، حسین علیہ السلام کے محافظ نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عقیل کے ذریعے عرب کے بھادر قبیلے کی بھادر خاتون ام البنین کے ساتھ عقد کیا۔ ام البنین سیرت و کردار میں نھایت باکردار خاتون تھیں۔ یوں علی ابن ابی طالب کے نامور فرزند عباس کی شکل میں دنیا میں تشریف لائے، جس نے ایک دفعہ پھر جنگوں میں اپنے بابا کی یاد تازہ کر دی۔
عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں عجین ھونے کا نام ہے، عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ھاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔ صفین کی جنگ کے دوران ایک نوجوان امیرالمومنین علیہ السلام کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چھرے پر نقاب ڈال رکھی تھی، جس کی ھیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جاکر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا، اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی (ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ھزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کھا: اے امیر لوگ مجھے دس ھزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں، آپ کیسے حکم دے رھے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟ معاویہ نے کھا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کھا میرے سات بیٹے ہیں، ان میں سے ایک کو بھیجتا ھوں، تاکہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کھا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پھلے وار میں اسے واصل جھنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ھوگیا، تیسرے کو بھیجا، چوتھے کو یھاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ھاتھوں واصل جھنم ھوگئے۔ معاویہ کی فوج میں زلزلہ آگیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا، یہ رجز پڑھتا ھوا: اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے، خدا کی قسم تمھارے ماں باپ کو تمھاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزے سے حملہ کیا، تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں، آخرکار اس نوجوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبھوت رہ گئے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسے واپس بلا لیا اور نقاب کو ھٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ یہ قمر بنی ھاشم شیر خدا کا فرزند تھا۔
قمر بنی ھاشم ھمیشہ امام حسین علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ رھے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گزار دیا۔ بنی ھاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ھاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ھمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ھمیشہ امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کے ساتھ ساتھ رھتے اور ھر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رھتے تھے۔ اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کے مرنے کے بعد یزید کی بیعت کے لئے امام کو دارالامارہ بلایا، اس وقت بھی جناب عباس تیس جوانوں کو لے کر امام کے ساتھ دار الامارہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق حکم جھاد کا انتظار کرتے ہیں، تاکہ اگر ضرورت پڑے تو فوراً امام کا دفاع کرنے کو حاضر ھو جائیں۔ حضرت عباس (ع) عرب کے عظیم بھادروں میں شمار ھوتے تھے، کوئی عباس کا مقابلہ نھیں کرسکتا تھا، لیکن ایک مقام پر جب اسلام کو خطرے میں دیکھا، نانا محمد (ص) کا دین سرے سے نابود ھوتے دیکھا، 61 ھجری میں یزید نے علی ابن ابی طالب کے ھاتھوں بدر و احد میں واصل جھنم ھونے والے بڑے بڑے سرداروں کا بدلہ لینا چاھا تو عباس (ع) سے برداشت نہ ھوسکا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا عظیم فرزند حسین علیہ السلام اور علی کی شیر دل بیٹیاں یزیدی فوجیوں کا سامنا کریں، اس لئے عباس (ع) نے حسین علیہ السلام کی فوج سے اسلام کا علم بلند کیا، وھی علم جسے محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر میں علی علیہ السلام کے سپرد کیا تھا، اسی علم کو حسین بن علی علیہ السلام نے کربلا میں حضرت عباس کو عطا کیا۔
مجھے جب حکم ملا عنوان وفا لکھنے کا
میں نے عباس لکھا اور قلم توڑ دیا
تعداد میں بھتر جان نثاروں کے سپہ سالار اور جرنیل عباس علمدار تھے، لیکن یھی بھترافراد یزیدی افواج کے ھزاروں افراد سے مقام و منزلت میں بالا درجوں پر فائز تھے۔ حضرت عباس (ع) نے اس مشکل وقت میں اسلام کو بچانے کے لئے جان کی پروا نہ کی اور دنیا والوں کو وفائے عباس دکھا دی۔ یزیدی فوجوں نے عباس کو امان نامہ پیش کرکے راہ مستقیم سے ھٹانے کی کوشش کی، تاکہ قمر بنی ھاشم حسین (ع) کا ساتھ نہ دیں اور حسین اکیلے میدان میں رہ جائیں، لیکن قمر بن ھاشم نے ایسا عملی نمونہ پیش کیا، جو قیامت تک کے لئے اسوہ بن گیا۔
عباس کبریا کا عجب انتخاب تھا
طفلی میں بھی علی کا مکمل شباب تھا
حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشھور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشنا ترین اور مشھور ترین القاب میں سے ہے۔ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو دو جھت سے باب الحوائج کھا جاتا ہے, ایک یہ کہ آپ واقعہ کربلا میں اھل بیت اطھار کی ھر مشکل گھڑی میں ان کا سھارا تھے اور ھر ایک کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ دوسری علت یہ ہے کہ آپ کا روضہ آج بھی لوگوں کی مشکلات اور حاجت روائی کا مرجع ہے، جھاں ھزاروں لاکھوں حاجت مند آپ کے روضے سے اپنی مرادیں پوری کرکے واپس ھوتے ہیں، اس بنا پر بھی آپ کو باب الحوائج یعنی مرادیں پوری کرنے والا در کھا جاتا ہے۔
سلام ھو اس عظیم غازی پر، حسین (ع) کے علمدار پر، سقائے سکینہ پر، جس نے فرات کے پانی پر حوض کوثر کے پانی کو ترجیح دی اور نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بابا علی مرتضٰی علیہ السلام کے ھاتھوں سیراب ھونے کے لئے اسلام پر قربان ھوئے۔ عباس علمدار نہ صرف حسینی فوج کے علمدار تھے بلکہ سقائے سکینہ بھی تھے، اس لئے مشک اٹھا کر علقمہ کا رخ کرتے ہیں۔ یزیدی فوج فرزند علی علیہ السلام سے بخوبی واقف تھی کہ کوئی عباس کا مقابلہ نھیں کرسکتا، اس لئے عباس کو گھیرے میں لینے کا حکم ھوا اور یوں عباس اشقیاء کے گھیرے میں آگئے۔
شجاعت کا صدف مینارہ الماس کھتے ہیں
غریبوں کا سھارا بے کسوں کی آس کھتے ہیں
یزیدی سازشیں جس کے علم کی چھاوں سے لرزیں
اسے ارض و سماء والے سخی عباس کھتے ہیں
عباس (ع) جو سکینہ سے پانی لانے کا وعدہ کرکے آئے تھے، اس لئے مشک پانی سے بھر کر جلدی سے خیمے کا رخ کرتے ہیں۔ یزیدی افواج کو یہ بات ناگوار گزری کہ خیمے کے اندر پانی پھنچ جائے اور حسین علیہ السلام کی معصوم بچیاں سیراب ھوں، اس لئے ھر طرف سے تیروں کی بارش شروع کر دی، لیکن عباس (ع) نے امام وقت کا دفاع کرتے ھوئے فرمایا:
وَاللَّهِ إِنْ قَطَعْتُمُ يَمينى
إنّى أُحامِى أبَداً عَنْ دينى
وَعَنْ إمامٍ صادِقِ الْيَقينِ
نَجْلِ النَّبىِّ الْطَّاهِرِ الأَمينِ
خدا کی قسم اگر میرا دائیاں ھاتھ قلم کیا [تو کوئی بات نھیں] میں ابھی بھی اپنے دین کا دفاع کروں گا اور اپنے سچے امام کی حمایت کروں گا، جو پاک اور امین نبی کا فرزند ہے۔
پیکر وفا نے اپنے دونوں ھاتھ اسلام اور وقت کے امام کا دفاع کرتے ھوئے قربان کئے۔
جنھیں بھی حق نے بنایا تھا کربلا کے لئے
وہ سب کے سب ھی نمونہ تھے دوسروں کے لئے
مگر یقین ہے قائم کہ حضرت عباس
بطور خاص بنائے گئے وفاء کے لئے
امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کو خراج تحسین پیش کرتے ھوئے فرماتے ہیں: اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للهِ وَلِرَسُولِهِ وَلاَميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ۔ سلام ھو آپ پر اے خدا کے نیک بندے، اے اللہ، اس کے رسول، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین علیم السلام کے اطاعت گزار و فرمانبردار...
امام زمانہ عج شھدائے کربلا کو سلام کرتے ھوئے فرماتے ہیں: "السلام على أبي الفضل العباس بن أمير المؤمنين، المواسي أخاه بنفسه، الآخذ لغده من أمسه، الفادي له، الواقي الساعي إليه بمائه المقطوعة يداه۔ سلام ھو ابوالفضل العباس بن امیرالمؤمنین (ع) پر، جنھوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نچھاور کر دی، دنیا کو اپنی آخرت کا ذریعہ قرار دیا وہ جو محافظ تھے اور لب تشنگانِ حرم تک پانی پھنچانے کی بھت کوشش کی اور ان کے دونوں ھاتھ قلم ھوئے۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
پیکروفا حضرت عباس علیہ السلام
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2666