۴۔ انسان کا اس کائنات سے کیا رابطہ ھو؟
قرآن نے سب سے پہلے انسان کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے چھوڑ کر وہ الگ بیٹھ جائے بلکہ یہ دنیا انسان کے لئے ہے اس لئے "وہ اس دنیا میں سے اپنا حصہ لینا نہ بھولے" وَ لَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا (۲۸:۷۷) اور دنیا سے اپنا حصہ لینے کا طریقہ یہ ہے کہ" وہ اس دنیا کی پاکیزہ اور حلال لذتوں سے فائدہ اٹھائے اور حرام چیزوں سے بچے کیونکہ خدا نے پاکیزہ چیزوں کو حلال بنایا ہے اور بری چیزوں کو حرام لیکن شیطان اس کا الٹا حکم دیتا ہے۔"(۲:۱۶۸-۱۶۹، ۷:۱۵۷)
خدا اُسے توجہ دلاتا ہے کہ وہ اس دنیا کو بے کار نہ سمجھے بلکہ اِسے خدا کی نشانیوں کی جگہ سمجھے اس لئے اِس میں غور و فکر کرے۔
اس میدان میں بھی آگے بڑھنے کے لئے خدا نے انسان کو عقل جیسی نعمت دی تھی اس لئے اس نے انسان کو کائنات میں غور و فکر کرنے پر ابھارا کیونکہ یہ کام وہ خود کرسکتا تھا، ضرورت نہیں تھی کہ خدا اُسے کائنات کا ہر قانون بتائے اور اُسے اپاہج بنا دے۔
خدا نے ایک طرف زمین و آسمان، چاند سورج، دنیا اور انسان کی تخلیق، جانوروں،پرندوں،درختوں اور سمندروں کا ذکر کرکے انسان کے ذہن کو توجہ دلائی کہ ان کے بارے میں سوچے تو دوسری طرف اُسے یہ بتادیا کہ اس کائنات میں پھیلی ہوئی یہ ہماری نشانیاں ہیں اس لئے ان کو دیکھ کر ہمیں بھول نہ جانا۔
"أَ فَلَا يَنظُرُونَ إِلىَ الْابِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَ إِلىَ السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ وَ إِلىَ الجِْبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْوَ إِلىَ الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَت" (۸۸:۱۹)
"أَ وَ لَمْ يَرَ الَّذينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما وَ جَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَ فَلا يُؤْمِنُون"(۲۱:۳۳)
"سَنُريهِمْ آياتِنا فِي الْآفاقِ وَ في أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَق"
اور اس طرح اُن سے قدم بڑھانے اور علم کی نئی منزلیں طے کرنے کے لئے کہا گیا۔
دنیا کے تمام مذہب اور سسٹم کے بارے میں رسرچ کرنے والے یہ قبول کرتے ہیں کہ کسی مذہب ، کسی فلاسفر یا اسکالر نے ان چاروں سوالوں کا جواب قرآن سے بہتر اور جامع انداز میں نہیں دیا ہے۔
جب ہم ان چاروں جواب پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے یہ کیوں کہا ہے کہ َ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْء۔ (۱۶:۸۹)
بات کو بہتر طور پر واضح کرنے کے لئے۔ آیت اللہ بہاء الدینی :"ایشان ثروتمندترین مرد جھان ھستند"۔
اسی طرح سے قرآن نے اپنی پوری حیثیت لوگوں کے سامنے یہ کہہ کر واضح کردی ہے "ھدی للمتقین"
ہاں یہ ضرور ہے کہ انسانوں اور کائنات کے بارے میں بات کرتے کرتے قرآن نے کچھ ایسی سچائیاں بتائیں جو اُس وقت لوگوں کو نہیں معلوم تھیں اور بعد میں نئی رسرچ کے ذریعہ ہمیں اُس کے بارے میں پوری طرح پتہ چلا۔ لیکن پھر بھی انہیں اُس سے جو ہدایت لینا تھی وہ انہوں نے لے لی۔ یہ صرف سائنسی سچائیاں نہیں ہیں بلکہ دوسرے بہت سے علم کے قانون بھی ہیں لیکن اِن سب کا مقصد خدا کی طرف متوجہ کرنا اور دنیا کے بارے میں سوچنے سمجھنے کی دعوت دینا ہے۔
اس لئے نہ تو ہر نئی رسرچ کو قرآن پر تھوپنے کی کوشش کرنا چاہئے اور نہ قرآن کی ہر آیت کو ان رسرچ کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔ کیونکہ کچھ قانون بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے ہر علم کا ہر قانون بیان کیا ہے ۔قرآن دنیا میں اُن چیزوں کو بیان کرنے کے لئے نہیں آیا تھا جن تک انسان کو اپنی محنت سے پہنچنا چاہئے بلکہ اُس کا مقصد انسان کو اِس دنیا میں اس کی صحیح حیثیت بتانا تھا اور یہ بتانا تھا کہ یہ دنیا ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی ایک دنیا پائی جاتی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ان میں رابطہ پایا جاتا ہے اور وہ رابطہ یہ ہے کہ یہ دنیا عمل کرنے کی جگہ ہے اور وہ دنیا آخری نتیجہ لینے کی۔ اِس دنیا میں کئے گئے عمل کا اثر دوسری دنیا میں بھی دکھائی دے گا؟ اس لئے وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اِس کامیابی تک پہنچنے کا صحیح راستہ کیا ہے یعنی قرآن کی جاودانگی کا راز یہ ہے کہ اس نے صحیح اور بامقصد زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ بیان کیا ہے اور اسی وجہ سے قرآن کی ہر دور میں ضرورت رہے گی۔ زمانہ کتنی بھی ترقی کرجائے لیکن زندگی گزارنے کے سلیقہ سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے اس لئے قرآنی ہدایت سے بھی بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے۔
- << Prev
- Next