(تحریر فصاحت حسین) "لا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین" آپ نے اپنی زندگی میں یہ آیت بھت بار سنی ھوگی ۔ھم میں میں سے بھت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خشک و تر یعنی دنیا کی کوئی ایسی چیز نھیں ہے جو قرآن میں نہ ھو۔
اس کے بارے میں سب سے پھلا سوال یہ ہے کہ کیا کسی روایت میں ہے کہ اس آیت میں "کتاب مبین" سے مراد قرآن ہے۔اس سوال کے جواب کے لئے جب ھم قرآن کی تفسیریں دیکھتے ہیں تو ھمیں تفسیر کی کسی کتاب میں کوئی ایسی روایت نھیں ملتی ہے جس میں کھا گیا ھو کہ یھاں کتاب مبین کا مطلب قرآن ہے۔ پھر کتاب مبین کیا ہے۔
معصومین علیھم السلام نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد "لوح محفوظ" ہے ۔ لوح محفوظ بھی آسمان میں لٹکی ھوئی کسی لکڑی یا لوھے کے ٹکڑے کا نام نھیں ہے بلکہ یہ خدا کا علم ہے جس میں دنیا کی ھر چیز موجود ہے اور اس سے کچھ بھی چھپا ھوا نھیں ہے۔ درخت پر اُگنے اور اس سے گرنے والے ھر پتے، بارش کی ھر بوند، سورج ، چاند اور ستاروں کے پھیلائی ھوئی روشنی اور انسانوں کی ھر بات، ھر کام، آنکھوں کے اشاروں، چھروں کےا تار چڑھاؤ اور ان کےدلوں میں چھپے ھوئے ھر ارادے کو وہ اچھی طرح جانتا ہے۔
اگر ھم اس پوری آیت کو پڑھیں تو ھمارے لئے یہ بات بالکل صاف ھوجائے گی۔ یہ سورہ انعام کی ۵۹ ویں آیت ہے جس میں خدا فرما رھا ہے :" اور اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنھیں اس کے علاوہ کوئی نھیں جانتا ہے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے -کوئی پتہ بھی گرتا ہے تو وہ اسے جانتا ہے" خدا اپنے علم کو بیان کرتےھوئے فرماتا ہے " زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نھیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ھو" ۔ اس آیت سے ھی معلوم ھوجاتا ہے کہ کتاب مبین سے مراد قرآن نھیں ہے۔
بھت سے لوگ اسی آیت کو بنیاد بنا کر ھر نئی رسرچ کو قرآن پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاھے اس کے لئے انھیں قرآن کے معنی ھی کیوں نہ بدلنے پڑے۔ جب ڈارون نے "Theory of evolution" پیش کی تھی اور دنیا میں اس نظریہ کوسو فیصد صحیح سمجھ لیا گیا تھا تو بھت سے لوگوں نے اس نظریہ کو قرآن پر تھوپنے کی کوشش کی تھی اور قرآن نے انسان کی پیدائش کی جو اسٹیج بیان کی ہیں اسے اس نظریہ کے مطابق بتایا تھا۔ تھیوری آف اوولوشن کو بعد میں سائنسدانوں نے غلط ثابت کردیا لیکن اگر غلط ثابت نہ بھی کیا ھوتا تب بھی اسے قرآن سے بھرحال ثابت نھیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ اتنا ھی غلط ہے جتنا "اللہ نور السموات والارض" سے بجلی کی ایجاد ثابت کرنا۔
آیت کی اسی تفسیر کی وجہ سے کسی بچہ نے اپنے ٹیچر سے پوچھا کہ جب قرآن میں سب کچھ ہے تو کمپیوٹر کا ذکر تو ضرور ھوگا کیونکہ کمپیوٹر ساری دنیا پر چھایا ھوا ہے پھر کیسے ھوسکتا ہے کہ یہ قرآن میں نہ ھو تو ٹیچر نے جواب دیا کہ بالکل ہے۔ کمپیوٹر compute سے ہے جس کا مطلب Calculation ہے اور قرآن میں کیلکولیشن کا بھت ذکر ہے۔ خدا نے اپنے بارے میں بھی کھا ہے کہ اس سے زیادہ حساب و کتاب رکھنے والا کوئی اور نھیں ہے۔اتنی بھت سی آیتوں میں کمپیوٹر ہے۔ بچہ کی سمجھ میں تو نھیں آیا لیکن خاموش ھوگیا۔
اسی طرح بھت سے لوگوں کو ھر نئی رسرچ کے بارے میں یہ کھنے کا شوق ھوتا ہے کہ "یہ تو چودہ سو سال پہلےسے ھماری کتاب میں ہے"۔ اور یہ جملہ اتنے طنز کے لھجہ میں کھا جاتا ہے جیسے دسیوں سال کی رسرچ کرنے والوں کی محنت کو ایک پھونک میں اڑا دیا گیا ھو اورایک جملہ میِں ان کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا گیا ھو۔
ان ساری باتوں کا جواب وہ واقعہ ہے جسے جارج جرداق نے دنیا بھر میں مشھور اپنی کتاب "انسانی انصاف کی آواز" میں لکھا ہے کہ عرب ملک کا کوئی لیڈر کسی وسٹرن کنٹری گیا اور جب Civil rights پر بات ھونے لگی تو اس عرب لیڈر نے کہا کہ آج تم نے اپنی عوام کو جو حقوق دئیے ھوئے ہیں یہ ھمارے لئے کوئی نئے نھیں ہیں ھم تم سے بہت آگے ہیں کیونکہ آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے ایک بھت بڑے دانشور "علی (ع) اپنی کتاب نھج البلاغہ میں یہ حقوق بیان کرچکے ہیں۔ وہ لیڈر کھتا ہے کہ پھر تو تم ھم سے آگے نھیں ھو بلکہ چودہ سو سال پیچھے ھو کیونکہ تم اس کے ھوتے ہوئے بھی ابھی تک ھمارے برابر نھیں آسکے اور اپنی عوام کو وہ رائٹس نھیں دے سکے ھو جو ھم نے دئیے ہیں۔
کچھ لوگ جناب ابن عباس کا یہ قول بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کھا ہے کہ اگر میرے گھوڑے کا چابک کھو جائے تو میں اسے قرآن سے ڈھونڈتا ھوں۔اس کا مطلب ہے کہ قرآن میں سب کچھ ہے یھاں تک کہ ان کے چابک کا پتہ بھی ہے۔ بس انسان کے پاس اتنا علم ھونا چاھئے کہ اس سے سب کچھ نکال سکے۔
اگر انھوں نے یہ کھا ہےاور اس روایت کا یھی مطلب ہے تب بھی جناب ابن عباس کی صداقت و وثاقت سر آنکھوں پر۔ وہ بھت اھم شخصیت ہیں اور بھروسہ مند راوی ہیں لیکن ان کی حیثیت کا سارا اعتبار نقل روایت میں ہے نہ کہ صدور روایت میں۔ یعنی بحیثیت راوی ان کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ وہ معصوم سے روایت کریں۔ انھوں نے رسول اللہ (ص) اور حضرت علی (ع) یا دوسرے اھلبیت کو جو کرتے ھوئے دیکھا ہے یا کھتے ھوئے سنا ہے اسے بیان کردیں ۔ جب ھم نھج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ اور اصول کافی جیسی کتابوں میں قرآن کے بارے میں وہ حدیثییں دیکھتے ہیں جنھیں معصومین علیھم السلام نے بیان کیا ہے تو ھمیں اس میں قرآن کی تعریف، اس کی تفسیر او راس کا مقصد بیان کرنے والی ایسی عظیم حدیثیں دکھتی ہیں جن کی ھم جناب ابن عباس سے امید بھی نھیں رکھتے ہیں لیکن اِن میں ایسی کوئی بات نھیں دکھائی دیتی ہے۔
کچھ روایتوں میں کھا گیا ہے کہ قرآن میں گزرے ھوئے زمانے کی خبریں بھی ہیں اور مستقبل کی بھی۔ لیکن ظاھر ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ پچھلے نبیوں اور گزری ھوئی قوموں کے حالات بتائے گئے ہیں اور فیوچر کی باتوں میں کچھ پیشین گوئیاں ہیں اور قیامت کی خبر دی گئی ہے اور اس کے حالات بتائے گئے ہیں۔ ورنہ قرآن میں تو سارے نبیوں کا بھی ذکر نھیں ہے اور جن کا ہے ان کی بھی پوری زندگی نھیں ہے صرف زندگی کے کچھ واقعات ہیں۔
تو کیا ایسا ہے کہ ھم ان ایک لاکھ چوبیس ھزار نبیوں کے نام اور حالات نھیں سمجھ سکتے ہیں لیکن معصومین سمجھ سکتے ہیں؟ وہ قرآن سے ان نبیوں کے نام اور ان کی قوموں کے حالات نکال سکتے ہیں؟ ایسا ھرگز نھیں ہے۔
پھر قرآن میں ہے کیا؟!!
کیا ان سب چیزوں کے قرآن میں نہ ھونے کا مطلب یہ نھیں ہے کہ قرآن مکمل نھیں ہے، ناقص ہے اور اس میں کمی ہے؟
اس سوال کا جواب ھمیں اُسی وقت مل سکتا ہے جب ھم یہ سمجھ جائیں کہ قرآن کس لئے نازل ھوا ہے، قرآن کی کیا ذمہ داری ہے اور اس نے لوگوں کو کیا پیغام دیا ہے۔
اگر ھم یہ جان گئے تو پھر ھم ھر چیز کو قرآن میں شامل کرنے کی کوشش نھیں کریں گےاور یہ بھی نھیں سوچیں گے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کے لئے یہ صحیح نھیں ہے کہ اس میں "سب کچھ" نہ ھو ورنہ وہ ناقص ھوجائے گا۔
انسان کو زندگی گزارنے کے لئے چار سوالوں کا جواب چاھئے؟
۱۔ اس کا اپنے بنانے والے سے کیسا رابطہ ھو؟
۲۔اس کا اپنا آپ سے کیسا رابطہ ھو؟
۳۔ اس کا اپنے جیسے انسانوں سے کیسا تعلق ھو؟
۴۔ اس کا اس کائنات سے کیسا رابطہ ھو؟
دنیا میں جتنے بھی مذاھب اور مکاتب بنتےہیں وہ انھی سوالوں کا جواب دینے کے لئَے بنتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ان سب کا جواب نھیں دے پاتے ہیں بلکہ کسی ایک سوال پر پورا زور لگا دیتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو غلط جواب دیتے ہیں۔
قرآن نے ان سارے سوالوں کا جواب دیا ہے۔ جنھیں یھاں پر پیش کیا جارھا ہے۔
۱۔انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بنانے والے کو پھچانے۔ اس مرحلہ پر پھلا سوال یہ ہے کہ وہ خدا کو اپنے ذھن کی پیداوارا سمجھے یا اپنے آپ کو خدا کا بنایا ھوا سمجھے۔ قرآن نے جواب دیا :" هُوَ خَلِقُ كُلِّ شىَْء" (۶:۱۰۲) صرف بنانے والا ھی نہیں ہے بلکہ ان کی پرورش کرنے والا بھی ہے اس لئے انھیں ھر وقت خدا کی ضرورت ہے :" هُوَ رَبُّ كلُِّ شىَْء"۔ (۶:۱۶۴۹) ایک ہے یا کئی ہے "قل ھو اللہ احد" "لا الہ الا ھو" (۶:۱۰۲) وہ بھی اپنی بنائی ھوئی چیزوں جیسا ہے یا ان سے الگ ہے :"لیس کمثلہ شی"۔ (۶۲:۱۱) انسان کو صرف اس کی بات ماننا ہے اور اسی کے حکم پر عمل کرنا ہے۔ "ْ أَطِيعُواْ الله"(۳:۳۲) اور "وَ لَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ " (۲:۱۶۸) ا نسان اُس ایک کی عبادت کرے یا جتنے چاھے خدا تراش لے " لَا إِلَاهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُون"(۲۱:۲۵) "يَأَيهُّا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم"۔ (۲:۲۱) لوگ خدا سے محبت کریں ،نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کریں اور غلطی ہوجانےپر اس سے معافی مانگیں۔
اس اطاعت اور عبادت کا راستہ جاننے کے لئے کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جنہیں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہو اور وہ لوگوں کو خدا کی طرف لے جائیں۔ لہذا ان کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا :"اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم"
۲۔ انسان کا اپنے آپ کے ساتھ کیسا رابطہ ھو؟ اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے کہ وہ کیا ہے اور اس دنیا میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
قرآن نے ایک طرف اسے یہ بتایا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں انسان کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ "ولقد کرمنا بنی آدم " (۱۷:۷۰)"لَقَدْ خَلَقْنَا الْانسَانَ فىِ أَحْسَنِ تَقْوِيم"(۴:۹۵) اور "اسے خدا نے علم و عقل کی روشنی دی ہے۔
اسے سورج، چاند، ستاروں اور خدا کی بنائی ہوئی دوسری چیزوں کے سامنے سر نہیں جھکانا نہیں چاہئے کیونکہ "دنیا کی ہر چیز اس کے لئے بنائی گئی ہے اور اس کے اختیار میں دی گئی ہے أَ لَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْض"(۱۴:۳۳)
لیکن اس عزت کو دیکھنے کے بعد اُسے گھمنڈ نہ ہوجائے اور وہ یہ نہ سمجھنے لگے کہ وہی اس دنیا میں سب کچھ ہے اس کے اوپر کوئی نہیں ہے، اس سے زیادہ طاقت رکھنے والا کوئی نہیں ہے اس لئے خدا نے اُس سے کہا کہ "تمہیں تمہارے خدا کے بارے میں کس نے بہکا دیا ہے۔ تمہیں اُسی خدا نے جیساچاہا ویسا پیدا کیا ہے" يَأَيهَُّا الْانسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِى خَلَقَكَ فَسَوَّئكَ فَعَدَلَكَ فىِ أَىِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَك (۸۲:۶) "وَ اللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيًْا وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصَرَ وَ الْأَفِْدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون"(۱۶:۷۸) اُس نے تمہارے لئے موت لکھ دی ہے جس سے تم بھاگ نہیں سکتے ہو۔ أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنتُمْ فىِ بُرُوجٍ مُّشَيَّدَة (۴:۷۸) اس لئے وہ کتنا بھی طاقت ور کیوں نہ ہوجائے اپنے خدا کے سامنے بے بس ہے۔
دوسری طرف خدا نے انسان کی کچھ کمیاں بھی بتائی ہیں کہ "انسان نادان ہے"(۳۳:۷۲) اُس کے پاس چاہے جتنا بھی علم ہوجائے لیکن وہ کم ہے۔ اس کے پاس ایسی خواہشیں ہیں کہ وہ پابندیاں ہٹا کر "گناہوں کی طرف جانا چاہتا ہے" (۷۵:۵) "وہ ناانصافی کرنے والا ہے"(۳۳:۷۲)
قرآن نے انسان کو اس کی اہمیت بتانے کے بعد کمیاں بھی بتائیں تاکہ اُسے خطرہ کا احساس دلا دے ۔ اُسے یہ بتا دے کہ خدا نے اُسے آگے بڑھنے اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی بھی صلاحیت دی ہے اور گناہوں کی پستی میں گرنے کی بھی۔ اب اُسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا کرے۔ وہ جیسا فیصلہ کرے گا ویسا ہی اس کا انجام ہوگا۔
۳۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ انسان کا اپنے جیسے انسانوں سے کیساتعلق ھو؟
سب سے پہلے قرآن انسانوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ تم سب ایک ماں باپ سے ہو۔ اس طرح ان کو برابری کا احساس دلاتا ہے اور ان سےایسا معاشرہ بنانے کے لئے کہتا ہے جس کی بنیاد ایمان ہو ، اُس خدا پر ایمان جس نے انہیں ایک ماں باپ سے پیدا کیا ہے۔ * يَأَيهَُّا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكمُ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنهَْا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنهُْمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَ نِسَاء (۴:۱)
اور پھر انہیں "انصاف سے کام لینے، نیکی کرنے، لوگوں کا حق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے روکتا ہے"۔(۱۶:۹۰)
جو لوگ ایمان اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں انہیں آپس میں بھائی اور رحمدل بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اِسی محبت کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو اچھائی کا حکم دیتے ہیں اور صرف حکم ہی نہیں دیتے بلکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مددبھی کرتے ہیں ، اسی طرح برائی سے روکتے ہیں اور برے کاموں میں کسی کا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔
۴۔ انسان کا اس کائنات سے کیا رابطہ ھو؟
قرآن نے سب سے پہلے انسان کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے چھوڑ کر وہ الگ بیٹھ جائے بلکہ یہ دنیا انسان کے لئے ہے اس لئے "وہ اس دنیا میں سے اپنا حصہ لینا نہ بھولے" وَ لَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا (۲۸:۷۷) اور دنیا سے اپنا حصہ لینے کا طریقہ یہ ہے کہ" وہ اس دنیا کی پاکیزہ اور حلال لذتوں سے فائدہ اٹھائے اور حرام چیزوں سے بچے کیونکہ خدا نے پاکیزہ چیزوں کو حلال بنایا ہے اور بری چیزوں کو حرام لیکن شیطان اس کا الٹا حکم دیتا ہے۔"(۲:۱۶۸-۱۶۹، ۷:۱۵۷)
خدا اُسے توجہ دلاتا ہے کہ وہ اس دنیا کو بے کار نہ سمجھے بلکہ اِسے خدا کی نشانیوں کی جگہ سمجھے اس لئے اِس میں غور و فکر کرے۔
اس میدان میں بھی آگے بڑھنے کے لئے خدا نے انسان کو عقل جیسی نعمت دی تھی اس لئے اس نے انسان کو کائنات میں غور و فکر کرنے پر ابھارا کیونکہ یہ کام وہ خود کرسکتا تھا، ضرورت نہیں تھی کہ خدا اُسے کائنات کا ہر قانون بتائے اور اُسے اپاہج بنا دے۔
خدا نے ایک طرف زمین و آسمان، چاند سورج، دنیا اور انسان کی تخلیق، جانوروں،پرندوں،درختوں اور سمندروں کا ذکر کرکے انسان کے ذہن کو توجہ دلائی کہ ان کے بارے میں سوچے تو دوسری طرف اُسے یہ بتادیا کہ اس کائنات میں پھیلی ہوئی یہ ہماری نشانیاں ہیں اس لئے ان کو دیکھ کر ہمیں بھول نہ جانا۔
"أَ فَلَا يَنظُرُونَ إِلىَ الْابِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَ إِلىَ السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ وَ إِلىَ الجِْبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْوَ إِلىَ الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَت" (۸۸:۱۹)
"أَ وَ لَمْ يَرَ الَّذينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما وَ جَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَ فَلا يُؤْمِنُون"(۲۱:۳۳)
"سَنُريهِمْ آياتِنا فِي الْآفاقِ وَ في أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَق"
اور اس طرح اُن سے قدم بڑھانے اور علم کی نئی منزلیں طے کرنے کے لئے کہا گیا۔
دنیا کے تمام مذہب اور سسٹم کے بارے میں رسرچ کرنے والے یہ قبول کرتے ہیں کہ کسی مذہب ، کسی فلاسفر یا اسکالر نے ان چاروں سوالوں کا جواب قرآن سے بہتر اور جامع انداز میں نہیں دیا ہے۔
جب ہم ان چاروں جواب پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے یہ کیوں کہا ہے کہ َ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْء۔ (۱۶:۸۹)
بات کو بہتر طور پر واضح کرنے کے لئے۔ آیت اللہ بہاء الدینی :"ایشان ثروتمندترین مرد جھان ھستند"۔
اسی طرح سے قرآن نے اپنی پوری حیثیت لوگوں کے سامنے یہ کہہ کر واضح کردی ہے "ھدی للمتقین"
ہاں یہ ضرور ہے کہ انسانوں اور کائنات کے بارے میں بات کرتے کرتے قرآن نے کچھ ایسی سچائیاں بتائیں جو اُس وقت لوگوں کو نہیں معلوم تھیں اور بعد میں نئی رسرچ کے ذریعہ ہمیں اُس کے بارے میں پوری طرح پتہ چلا۔ لیکن پھر بھی انہیں اُس سے جو ہدایت لینا تھی وہ انہوں نے لے لی۔ یہ صرف سائنسی سچائیاں نہیں ہیں بلکہ دوسرے بہت سے علم کے قانون بھی ہیں لیکن اِن سب کا مقصد خدا کی طرف متوجہ کرنا اور دنیا کے بارے میں سوچنے سمجھنے کی دعوت دینا ہے۔
اس لئے نہ تو ہر نئی رسرچ کو قرآن پر تھوپنے کی کوشش کرنا چاہئے اور نہ قرآن کی ہر آیت کو ان رسرچ کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔ کیونکہ کچھ قانون بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے ہر علم کا ہر قانون بیان کیا ہے ۔قرآن دنیا میں اُن چیزوں کو بیان کرنے کے لئے نہیں آیا تھا جن تک انسان کو اپنی محنت سے پہنچنا چاہئے بلکہ اُس کا مقصد انسان کو اِس دنیا میں اس کی صحیح حیثیت بتانا تھا اور یہ بتانا تھا کہ یہ دنیا ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی ایک دنیا پائی جاتی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ان میں رابطہ پایا جاتا ہے اور وہ رابطہ یہ ہے کہ یہ دنیا عمل کرنے کی جگہ ہے اور وہ دنیا آخری نتیجہ لینے کی۔ اِس دنیا میں کئے گئے عمل کا اثر دوسری دنیا میں بھی دکھائی دے گا؟ اس لئے وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اِس کامیابی تک پہنچنے کا صحیح راستہ کیا ہے یعنی قرآن کی جاودانگی کا راز یہ ہے کہ اس نے صحیح اور بامقصد زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ بیان کیا ہے اور اسی وجہ سے قرآن کی ہر دور میں ضرورت رہے گی۔ زمانہ کتنی بھی ترقی کرجائے لیکن زندگی گزارنے کے سلیقہ سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے اس لئے قرآنی ہدایت سے بھی بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے۔