www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

پھر قرآن میں ہے کیا؟!!
کیا ان سب چیزوں کے قرآن میں نہ ھونے کا مطلب یہ نھیں ہے کہ قرآن مکمل نھیں ہے، ناقص ہے اور اس میں کمی ہے؟
اس سوال کا جواب ھمیں اُسی وقت مل سکتا ہے جب ھم یہ سمجھ جائیں کہ قرآن کس لئے نازل ھوا ہے، قرآن کی کیا ذمہ داری ہے اور اس نے لوگوں کو کیا پیغام دیا ہے۔
اگر ھم یہ جان گئے تو پھر ھم ھر چیز کو قرآن میں شامل کرنے کی کوشش نھیں کریں گےاور یہ بھی نھیں سوچیں گے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کے لئے یہ صحیح نھیں ہے کہ اس میں "سب کچھ" نہ ھو ورنہ وہ ناقص ھوجائے گا۔
انسان کو زندگی گزارنے کے لئے چار سوالوں کا جواب چاھئے؟
۱۔ اس کا اپنے بنانے والے سے کیسا رابطہ ھو؟
۲۔اس کا اپنا آپ سے کیسا رابطہ ھو؟
۳۔ اس کا اپنے جیسے انسانوں سے کیسا تعلق ھو؟
۴۔ اس کا اس کائنات سے کیسا رابطہ ھو؟
دنیا میں جتنے بھی مذاھب اور مکاتب بنتےہیں وہ انھی سوالوں کا جواب دینے کے لئَے بنتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ان سب کا جواب نھیں دے پاتے ہیں بلکہ کسی ایک سوال پر پورا زور لگا دیتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو غلط جواب دیتے ہیں۔
قرآن نے ان سارے سوالوں کا جواب دیا ہے۔ جنھیں یھاں پر پیش کیا جارھا ہے۔
۱۔انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بنانے والے کو پھچانے۔ اس مرحلہ پر پھلا سوال یہ ہے کہ وہ خدا کو اپنے ذھن کی پیداوارا سمجھے یا اپنے آپ کو خدا کا بنایا ھوا سمجھے۔ قرآن نے جواب دیا :" هُوَ خَلِقُ كُلّ‏ِ شىَ‏ْء" (۶:۱۰۲) صرف بنانے والا ھی نہیں ہے بلکہ ان کی پرورش کرنے والا بھی ہے اس لئے انھیں ھر وقت خدا کی ضرورت ہے :" هُوَ رَبُّ كلُ‏ِّ شىَ‏ْء"۔ (۶:۱۶۴۹) ایک ہے یا کئی ہے "قل ھو اللہ احد" "لا الہ الا ھو" (۶:۱۰۲) وہ بھی اپنی بنائی ھوئی چیزوں جیسا ہے یا ان سے الگ ہے :"لیس کمثلہ شی"۔ (۶۲:۱۱) انسان کو صرف اس کی بات ماننا ہے اور اسی کے حکم پر عمل کرنا ہے۔ "ْ أَطِيعُواْ الله"(۳:۳۲) اور "وَ لَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ " (۲:۱۶۸) ا نسان اُس ایک کی عبادت کرے یا جتنے چاھے خدا تراش لے " لَا إِلَاهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُون"(۲۱:۲۵) "يَأَيهُّا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم"۔ (۲:۲۱) لوگ خدا سے محبت کریں ،نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کریں اور غلطی ہوجانےپر اس سے معافی مانگیں۔
اس اطاعت اور عبادت کا راستہ جاننے کے لئے کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جنہیں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہو اور وہ لوگوں کو خدا کی طرف لے جائیں۔ لہذا ان کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا :"اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم"
۲۔ انسان کا اپنے آپ کے ساتھ کیسا رابطہ ھو؟ اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے کہ وہ کیا ہے اور اس دنیا میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
قرآن نے ایک طرف اسے یہ بتایا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں انسان کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ "ولقد کرمنا بنی آدم " (۱۷:۷۰)"لَقَدْ خَلَقْنَا الْانسَانَ فىِ أَحْسَنِ تَقْوِيم"(۴:۹۵) اور "اسے خدا نے علم و عقل کی روشنی دی ہے۔
اسے سورج، چاند، ستاروں اور خدا کی بنائی ہوئی دوسری چیزوں کے سامنے سر نہیں جھکانا نہیں چاہئے کیونکہ "دنیا کی ہر چیز اس کے لئے بنائی گئی ہے اور اس کے اختیار میں دی گئی ہے أَ لَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْض"(۱۴:۳۳)
لیکن اس عزت کو دیکھنے کے بعد اُسے گھمنڈ نہ ہوجائے اور وہ یہ نہ سمجھنے لگے کہ وہی اس دنیا میں سب کچھ ہے اس کے اوپر کوئی نہیں ہے، اس سے زیادہ طاقت رکھنے والا کوئی نہیں ہے اس لئے خدا نے اُس سے کہا کہ "تمہیں تمہارے خدا کے بارے میں کس نے بہکا دیا ہے۔ تمہیں اُسی خدا نے جیساچاہا ویسا پیدا کیا ہے" يَأَيهَُّا الْانسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِى خَلَقَكَ فَسَوَّئكَ فَعَدَلَكَ فىِ أَىّ‏ِ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَك (۸۲:۶) "وَ اللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيًْا وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصَرَ وَ الْأَفِْدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون"(۱۶:۷۸) اُس نے تمہارے لئے موت لکھ دی ہے جس سے تم بھاگ نہیں سکتے ہو۔ أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنتُمْ فىِ بُرُوجٍ مُّشَيَّدَة (۴:۷۸) اس لئے وہ کتنا بھی طاقت ور کیوں نہ ہوجائے اپنے خدا کے سامنے بے بس ہے۔
دوسری طرف خدا نے انسان کی کچھ کمیاں بھی بتائی ہیں کہ "انسان نادان ہے"(۳۳:۷۲) اُس کے پاس چاہے جتنا بھی علم ہوجائے لیکن وہ کم ہے۔ اس کے پاس ایسی خواہشیں ہیں کہ وہ پابندیاں ہٹا کر "گناہوں کی طرف جانا چاہتا ہے" (۷۵:۵) "وہ ناانصافی کرنے والا ہے"(۳۳:۷۲)

قرآن نے انسان کو اس کی اہمیت بتانے کے بعد کمیاں بھی بتائیں تاکہ اُسے خطرہ کا احساس دلا دے ۔ اُسے یہ بتا دے کہ خدا نے اُسے آگے بڑھنے اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی بھی صلاحیت دی ہے اور گناہوں کی پستی میں گرنے کی بھی۔ اب اُسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا کرے۔ وہ جیسا فیصلہ کرے گا ویسا ہی اس کا انجام ہوگا۔
۳۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ انسان کا اپنے جیسے انسانوں سے کیساتعلق ھو؟
سب سے پہلے قرآن انسانوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ تم سب ایک ماں باپ سے ہو۔ اس طرح ان کو برابری کا احساس دلاتا ہے اور ان سےایسا معاشرہ بنانے کے لئے کہتا ہے جس کی بنیاد ایمان ہو ، اُس خدا پر ایمان جس نے انہیں ایک ماں باپ سے پیدا کیا ہے۔ * يَأَيهَُّا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكمُ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنهَْا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنهُْمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَ نِسَاء (۴:۱)
 اور پھر انہیں "انصاف سے کام لینے، نیکی کرنے، لوگوں کا حق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے روکتا ہے"۔(۱۶:۹۰)
جو لوگ ایمان اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں انہیں آپس میں بھائی اور رحمدل بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اِسی محبت کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو اچھائی کا حکم دیتے ہیں اور صرف حکم ہی نہیں دیتے بلکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مددبھی کرتے ہیں ، اسی طرح برائی سے روکتے ہیں اور برے کاموں میں کسی کا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔

Add comment


Security code
Refresh