بچی کا تھا یہ کھنا، بابا نہ جائو رن میں
ھوجاوں گی یتیمہ، بابا نہ جاو رن میں
اب سووں گی کھاں میں سینہ نہ مل سکے گا
ننھا سا دل ہے میرا کیسے یہ غم سھے گا
مجھکو یوں چھوڑ تنھا، بابا نہ جاو رن میں
بچی کا تھا یہ کھنا، بابا نہ جاو رن میں
عمو یہ کھہ رھے تھے لانے چلا ھوں پانی
لوٹی فرات سے نہ دادا کی وہ نشانی
دریا پہ ڈالا ڈیرا، بابا نہ جاو رن میں
بچی کا تھا یہ کھنا، بابا نہ جاو رن میں
اصغر وہ سو رھے ہیں ریگِ تپاں پہ جا کر
اکبر نے بھی ہے کھائی برچھی جگر پہ جاکر
کھتا ہے دل یہ میرا، بابا نہ جاو رن میں
بچی کا تھا یہ کھنا، بابا نہ جاو رن میں
بھیا کو رو رھی ہے تھامے جگر وہ بیٹھی
خالی پڑا ہے جھولا ماں ہے جسے جھلاتی
کھتی ہے آجا بیٹا، بابا نہ جاو رن میں
بچی کا تھا یہ کھنا، بابا نہ جاو رن میں
صغریٰ وطن میں بیٹھی دل میں ہے آس لے کر
آئیں گے گھر کو اک دن پردیس کے مسافر
ویران ہے مدینہ، بابا نہ جاو رن میں
بچی کا تھا یہ کھنا، بابا نہ جاو رن میں
نقوی بپا ہے محشر ھر بی بی رو رھی ہے
بھائی کو ایک دکھیا ھمشیر کھو رھی ہے
جائے گی شام وکوفہ، بابا نہ جاو رن میں
بچی کا تھا یہ کھنا، بابا نہ جاو رن میں