صحیفہ کے بعض مستدرکات
۱: صحیفہ ثانیہ، تالیف شیخ محمد بن حسن الحر العاملی ، صاحب کتاب وسائل الشیعہ
۲: صحیفہ ثالثہ، تالیف مشہور مورخ و دانائے رجال معروف، میرزا عبد اللہ افندی، صاحب کتاب ریاض العلماء
۳: صحیفہ رابعہ تالیف محدث میرزا حسین نوری طبرسی
۴: صحیفہ خامسہ، علامہ محسن امین حسینی عاملی
۵: صحیفہ سادسہ، تالیف شیخ محمد باقر بن محمد حسن بیر جندی قائینی۔
۶: صحیفہ سابعہ، تالیف شیخ ہادی بن عباس آل کاشف الغطا نجفی، صاحب کتاب المستدرک۔
۷: صحیفہ ثامنہ، تالیف حاج میرزا علی حسینی مرعشی شہرستانی حائری
۸: ملحقات صحیفہ مولف: مرحوم شیخ بہائی کے نامور شاگرد، شیخ محمد المعروف تقی زیا بادی قزوینی، انہوں نے ملحقات کو سن ۱۰۲۳ہجر میں مکمل کیا ہے۔ [17]
ہ) علماء کے نزدیک صحیفہ کا مقام و مرتبہ
صحیفہ کی دعائیں حسن بلاغت اور کمال فصاحت کے ساتھ ساتھ علوم الہیہ یمینیہ کا مجموعہ ہیں جن کے سامنے انسانی عقل سر تسلیم خم کئے رہتی ہے۔ اور عظیم ترین علماء اور دانشور خضوع کےطور پر جھکے رہتے ہیں۔
صحیفہ پر حقیقت میں صاحبان دل کی ایک نگاہ سے ایک حقیقت کے چہرے سےپردے ہٹ جاتےہیں کیونکہ صحیفہ کی عبارات خود ہی اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ یہ کلام مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہے چنانچہ یہ جعل سازوں کے اوہام سے بھی برتر و بالاتر ہےا ور علماء اور دانشوروں نے بھی اس کی جانب شدید توجہ کی ہے اور اس کی تعریف و تحسین کے مواقع ضائع نہیں ہونے دئیے ہیں۔
کچھ مثالیں
اول:
ابن شہر آشوب اپنی کتاب المناقب میں لکھتے ہیں؛
بصرہ میں ایک مرد بلیغ اور ادیب کی موجودگی میں صحیفہ کاملہ کی فصاحت و بلاغت کا حوالہ دیا گیا تو کہنے لگا: میں بھی اسی قسم کا صحیفہ املاء اور بیان کر سکتا ہوں اور خود بھی لکھ سکتا ہوں چنانچہ قم و قرطاس لے کر لکھنے بیٹھ گیا سر جھکائے بیٹھا رہا اور ایک جملہ بھی نہ لکھ سکا اور نہ بیان کر سکا اور شرمندگی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔[18]
دوم:
سن ۱۳۵۳ہجری میں مرحوم آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی نے صحیفہ کاملہ کا ایک نسخہ اہل سنت کے ایک عالم و دانشور اور تفسیر طنطاوی کے مولف مفتی اسکندریہ علامہ طنطاوی کے نام قاہرہ روانہ کیا۔
طنطاوی نے صحیفہ وصول کیا اور اس بیش بہاء تحفے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب میں لکھا:
یہ ہماری بدبختی ہے کہ یہ گرانبہا علم و معرفت کا زندہ جاوید خزانہ جو انبیاء کی مراث ہے اب تک ہماری دسترس سے خارج تھا میں جتنا بھی اس غور و فکر کرتا ہوں دیکھتا ہوں کہ یہ کلام، کلام خالق سے کمتر اور کلام مخلوق سے بالاتر ہے۔ [19]
البتہ ہمیں اس معاصر مفسر پر حیرت ہے جنہوں نے حتی اہل بیت ہی کے مصادر و منابع تک میں غور نہیں کیا ہے حالانکہ قندوزی حنفی جیسے کئی سنی علماء نےا س کتاب کے کچھ حصے اپنی تالیفات میں نقل کئے ہیں۔ (۲۲)
سوم:
میرزا ہادی مشہدی ذاکر سے نقل ہوا ہے کہ ابن جوزی نے خصائص الائمہ میں لکھا ہے:
اگر امیر المومنین علی علیہ السلام نہ ہوتے تو مسلمانوں کی توحید اور ان کے عقائد مکمل نہ ہوتے۔ کیونکہ جو کچھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ارشاد فرمایا وہ اصول عقائد اور دین کے اہم فروعات میں ہے مگر عقائد کی باریکیاں اور دقائق (جیسے صفات ذات و فعل ذات، صفات کا عین ذات ہونا،) ایسے مسائل ہیں جن کے سلسلے میں مسلمان امیر المومنین علی علیہ السلام کے مرہون منت اور آپ کے خوان علم و دانش کے ریزہ خوار اور شاگرد ہیں۔۔۔
اس کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں:
علی بن الحسین زین العابدین املاء و انشاء خدا کے ساتھ بات کرنے اور کلام و خطاب کرنے کی کیفیت اور روش کے حوالہ سے مسلمانوں پر استادی کا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی حاجت خدا کے سامنے رکھنے کا سلیقہ سکھایا۔ کیونکہ اگر امام سجاد علیہ السلام نہ ہوتے تو مسلمان خدا کے ساتھ بات اور مناجات کرنے اور اپنی حاجات بارگاہ قدوس میں پیش کرنے کی روش سے محروم رہتے۔ امام سجاد علیہ السلام نے لوگوں کو سکھایا کہ وہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کسی طرح بات کریں اور بارش کی درخواست کرتے وقت کس زبان اور کس لب و لہجے میں خدا سے نزول باران کی درخواست کریں۔ اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح سے پناہ مانگیں اور کس طرح دشمنوں کے شر کو دفع کرنے کی التجا کریں۔۔۔ (۲۳)
و) صحیقہ کی دعاوں پر ایک نظر
صحیفہ سجادیہ بارگاہ الہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیان حاجات کا ہی مجموعہ نہیں ہے بلکہ اسلامی علوم و معارف کا بیش بہا خزانہ ہے جس میں اعتقادی ، ثقافتی، معاشرتی و سیاسی امور اور بعض قوانین فطرت اور احکام شرعیہ بھی بیان ہوئے ہیں۔ ہاں مگر ان سب کو دعا اور مناجات کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔۔۔ ( چونکہ اس ستمگر زمانے کے حالات کے پیش نظر یہی روش مناسب تھی)