صحیفہ سجادیہ یا زبور آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)
امام سجاد علیہ السلام نے چچا حسن مجتبی علیہ السلام کی امامت کے پورے دس برسوں
اور بابا حسین علیہ السلام کی امامت کے بھی پورے ۱۰برسوں کا ادراک فرمایا۔[1]
یاد رہے کہ امیر المومنی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام دس برس تک اور امام حسین علیہ السلام ۲۰برس تک زندہ رہے۔
محرم سنہ ۶۱ہجری امام حسین علیہ السلام نے قیام اور واقعہ عاشورا کے موقع پر کربلا میں حاضر تھے اور عاشورا کو امام علیہ السلام کی جانگداز شہادت کے بعد امامت امت اور ولایت کون و مکان کے عہدیدار ہوئے۔ زمانے کے حالات اور گھٹن سے بھر پور فضا کے باوجود آپ نے تبلیغ و ہدایت و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھا اور حساسیت ابھارے بغیر ستمگر حکمرانوں کے خلاف جد و جہد فرمائی۔ آپ کی کارکردگی میں مندرجہ ذیل اقدامات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
۱: عاشورہ کی یاد زندہ رکھنا اور عاشورا کا پیغام دوسروں تک پہنچانا۔
۲: امت اسلامی کی ہدایت اور رہنمائی
۳: دعا اور مناجات کے ذریعے اسلامی معارف و تعلیمات کی تشریح
امام سجاد علیہ السلام سے منسوب کتابیں
امام سجاد علیہ السلام کا دور ( آپ کی جد وجہد کی مذکورہ بالا روشوں کی بنا پر) شیعہ تہذیب و تعلیمات کی تابندگی اور درخشندگی کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس دور میں حدیث و دعا کو نئی جلا و رونق ملتی ہے۔
اس دور میں امام سجاد علیہ السلام کی مکتوب کاوشوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
آپ علیہ السلام کی تصنیفات و مکتوبات کی گنتی کرتے ہوئے ہمیں ذیل کی کتابوں کے نام و نشان ملتے ہیں:
۱: صحیفہ سجادیہ (موجودہ مقالہ اپنے تسلسل میں اس کتاب پر بحث کرے گا)
۲: مناسک الحج، یہ کتاب امام سجاد علیہ السلام کے فرزندوں نے نقل کی ہے اور بغداد میں طبع ہوئی ہے۔[2]
۳: رسالۃ الحقوق، یہ رسالہ نہایت اہم ہے جو انفرادی اور اجتماعی سلوک اور آداب کا مجموعہ ہے اور اس میں شرح و تفصیل کے قابل بہت سے نکتے موجود ہیں۔ [3]
۴: الجامع فی الفقہ، یہ کتاب ابو حمزہ ثمالی نے نقل کی ہے۔[4]
۵: صحیفۃ الزھد، یہ کتاب بھی ابو حمزہ ثمالی نے نقل کی ہے۔ [5]
۶: ایک حدیث کی کتاب ہے جو داود بن عیسی نے امام سجاد علیہ السلام سے نقل کی ہے۔[6]
۷: کتاب علی بن الحسین علیہ السلام ، یہ ایک اور کتاب ہے جو منابع اور ماخذ میں منقول ہے۔[7]
اب آپ کے سامنے در حقیقت ایک قدم صحیفہ سجادیہ کا تعارف کروانے کی جانب اس امید کے ساتھ کہ ہمارا معاشرہ بالخصوص ہمارے نوجوان اس کتاب کی زیادہ سے زیادہ معرفت حاصل کریں اور اس میں موجود بحر عمیق میں غوطہ زن ہو کرمعرفت کے موتی چن لیں اور اپنی دنیا کو بھی اور آخرت کو بھی اس کتاب سے انس حاصل کر کے آباد کریں۔
آئیے صحیفہ سجادیہ کو پھچانیں
تیرہ صدیوں سے صحیفہ سجادیہ زاہدین اور صالحین کا مونس و انیس اور مشاہیر علماء اور مصنفین کا مرجع و ملجا رہا ہے روحانیت و معنویت کے اس خزانے کی معرفت کی غرض سے ہم اپنی بحث کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے پیش کر رہے ہیں:
الف) صحیفہ سجادیہ کی سند کیا ہے؟
سند کے لحاظ سے تواتر کی حد سے بھی بالاتر ہے شیخ آقا بزرگ تہرانی رقمطراز ہیں: " الصحیفۃ الاولی المنتھی سندھا الی امام زین العابدین۔۔۔۔ و ھی من المتواترات عند الاصحاب لاختصاصھا بالاجازۃ و لروایۃ فی کل طبۃ و عصر۔۔۔" [8]
صحیفہ اولی، جس کی سند امام زین العابدین علیہ السلام تک پہنچتی ہے علماء اور اصحاب امامیہ کے نزدیک متواترات میں سے ہے۔ کیوں کہ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ تمام اصحاب و علماء نے اپنے استادوں سے تمام رجالی طبقات اور تمام ادوار میں اس کی نقل و رعایت کی اجازت حاصل کرکے اسے نقل کیا ہے۔
صحیفہ سجادیہ کی شہرت کا درجہ اس قدر اونچا ہے کہ علامہ محمد باقر مجلسی صاحب بحار الانوار کے والد ماجد مرحوم علامہ محمد تقی مجلسی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ کی نقل و روایت کے حوالے سے ۱۰لاکھ اسناد و ثبوت موجود ہیں۔ [9] اسی طرح شیخ محمد بن محمد بن نعمان " شیخ مفید" متوفی ۴۱۳نے ارشاد میں اور ان کے علاوہ شیخ صدوق بن بابویہ قمی کے شاگرد علی بن محمد خزاز قمی متوفی ۳۸۱اور احمد بن عیاشی متوفی ۴۰۱اور ابو الفضل شیبانی، وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے۔۔۔
علماء اھلسنت نے بھی صحیفہ سجادیہ کی روایت کی ہے۔ مثال کے طور پر ابن جوزی نے خصائص الائمہ میں اور حافظ سلیمان بن ابراہیم القندوزی نے ینابیع الامودہ میں صحیفہ سجادیہ کا ذکر کیا ہے اور اس کی بعض دعائیں نقل کی ہیں۔[10]
ابو الفضل شیبانی کی سند
ہمارے لیے عامر بن عیسی بن عامر سیرافی نے ۳۸۱کو مکہ میں روایت کی ہے کہ:
میرے لیے ابو محمد حسن بن محمد بن یحیی بن حسن بن جعفر بن عبید اللہ بن حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام نے روایت کی کہ میرے لیے میرے والد نے عمیر بن متوکل سے نقل کرتے ہعئے روایت کی، انہوں نے اپنے والد متوکل بن ہارون سے اور متوکل بن ہارون نے یحییٰ بن زید سے روایت کی کہ جبکہ اپنے والد زید بن علی بن الحسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد خراسان کی جانب رخت سفر باندھے ہوئے تھے اور میں نے ان کی عقل و دانش کے پائے کا کوئی مرد نہیں دیکھا اور یحییٰ بن زید نے مجھے صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ دکھایا۔[11]
تاریخی اور رجالی کتب کے علاوہ دعاوں کی کوئی بھی معتبر کتاب ایسی نہیں ہے جس میں صحیفہ سجادیہ کی دعائیں درج نہ ہوں۔ جیسے:
۱: مصباح المتہجد، شیخ طوسی
۲: سلوک الحزین، قطب الدین بن سعید بن یبۃ اللہ رواندی، ان کی کتاب دعوات الراوندی کے نام سے مشہور ہے۔
۳: سید علی بن حسین بن باقی کی کتاب " اختیار المصباح"
۴: سید رضی الدین علی بن طاوس کی کتابیں اقبال الاعمال، جمال الاسبوع اور فتح لابواب
۵: ابو القاسم علی بن رضی الدین کی کتاب زوائد الفوائد
۶: ابراہیم بن علی کفعمی کی کتاب البلد الامین وغیرہ
ان سب کے علاوہ مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی کی روایت کے مطابق علامہ مجلسی اول، نے اپنے بہت سے اجازات میں اشارہ کیا ہے کہ وہ صحیفہ سجادیہ کو بالمشافہ اور بلاواسطہ حضرت حجۃ بن الحسن صاحب الزمان علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔
علامہ مجلسی اول کہتے ہیں:
میں خواب اور بیداری کی سی حالت میں تھا۔۔۔ دیکھ رہا تھا کہ گویا اصفہان کی جامع مسجد عتیق میں کھڑا ہوں اور حضرت مہدی علیہ السلام بھی کھڑ ے ہیں میں نے وہ مسائل آپ علیہ السلام سےدریافت کئے جو میرے لیے مشکل اور دشوار تھے آپ نے وہ مسائل بیان فرمائے۔
میں نے پوچھا: ایسی کوئی کتاب تجویز فرمائیں جس پر میں عمل کروں تو آپ نے مجھے مولانا محمد التاج کا حوالہ دیا۔ میں ان کے پاس چلا گیا اور ان سے ایک کتاب لی۔ مجھے ایسا لگا کہ دعا کی کتاب تھی چنانچہ میں نے وہ کتاب چوم لی اور اسے اپنی آنکھوں سے لگایا لیکن اتنے میں وہ حالت ختم ہوئی اور میں پوری طرح جاگ اٹھا مگر جب دیکھا کہ وہ کتاب میرے ہاتھ میں نہیں ہے تو میں صبح تک روتا رہا دوسرے دن مولانا محمد التاج کو ڈھونڈنے نکلا چلتے چلتے دار البطیخ پہنچا۔۔۔ وہاں مجھے ایک نیک اور صالح آقا حسن تاجا نظر آئے ۔ میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے مجھے اپنے قریب بلایا اور اپنے کتب خانہ میں لے گئے۔
انہوں نے جو پہلی کتاب مجھے تھمائی وہی کتاب تھی جو میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔ میں رونے لگا اور ان سے کہا: یہی کتاب میرے لیے کافی ہے اور اس کے بعد شیخ محمد مدرس کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے پاس صحیفہ کے اس نسخے سے اپنے نسخے کا موازنہ کرایا جو ان کے پر دادا نے شہید نسخے سے نقل کر کے لکھا تھا۔ اور میں نے دیکھا کہ صاحب الزمان علیہ السلام نے مجھے عنایت فرمایا تھا اس نسخے کے عین مطابق تھا۔[12]
ب) صحیفہ سجادیہ کے نام
مشہور ہے کہ قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد صحیفہ سجادیہ معارف اور حقائق الہی کا عظیم ترین سرچشمہ شمار کیا جاتا ہے۔ اور شیخ آقا بزرگ تہرانی نے بقول: اخت القرآن یعنی قرآن کی بہن ، انجیل اہل بیت، زبور آل محمد، اور صحیفہ کاملہ بھی کہا جاتا ہے۔[13]
اور قندوزی نے بھی صحیفہ کے بارے میں یوں قلم فرسائی کی ہے:
" فی ایراد بعض الادعیۃ و لمناجاۃ التی تکون فی الصحیفۃ الکاملہ للامام الہمام زین العابدین۔۔۔" وہی زبور اہل بیت علیہم السلام ، ان دعاوں اور مناجاتوں کا بیان امام ہمام زین العابدین علیہ السلام کے صحیفہ کاملہ میں مندرج ہیں۔ اور وہ زبور اہل بیت ہے۔
اس کتاب کو اس لیے صحیفہ کاملہ کا نام دیا گیا ہے کہ زیدیہ فرقہ کے پاس صحیفہ کا ایک نسخہ موجود ہے جو مکمل نہیں ہے بلکہ موجودہ صحیفہ کے نصف کے برابر ہے۔ ایس وجہ سے اثنی عشری شیعوں کے پاس موجودہ صحیفہ کو صحیفہ کاملہ کہا گیا ہے۔ [14]
ج) صحیفہ کی شرحیں
مرحوم علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی کتاب الذریعہ الی تصانیف الشیعہ" میں تراجم کے علاوہ صحیفہ سجادیہ کے پچاس شرحوں کا تعارف کرایا ہے۔ [15]
ان شروح کے سوا ماضی اور حال کے بہت سے علماء نے اس کےمتعدد تراجم کئے ہیں [16] اور یہاں ان میں سے بعض شرحوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
۱: الازھار اللطیفۃ فی شرح مفردات الصحیفہ، تالیف سید علامہ محمد رضا اعراجی حسینی۔
۲: شرح میرزا محمد مشہدی جمال الدین طوسی صاحب وقائق التنزیل
۳: شرح محمد علی بن محمد نصیر چہار وہی رشتی، صاحب کتاب شرح الوقت و القبلہ
۴: صرح سید افصح الدین محمد شیرازی
۵: شرح مولا تاج الدین المعروف ( تاجا)
۶: شرح مفتی، میر محمد عباس جزائری
۷: شرح مولی حبیب اللہ کاشانی
۸: شرح ابن مفتاح ابو الحسن عبد اللہ بن ابی القاسم بن مفتاح الزیدی الیمنی
۹: شرح مولی خلیل قزوینی
۱۰: شرح آقا ہادی ابن مولا صالح مازندرانی
۱۱: شرح مولا محمد طاہر بن حسین شیرازی
۱۲: تیرہوں صدی ہجری کےزیدی عالم دین سید محسن بن قاسم بن اسحاق صنعانی یمنی۔
۱۳: شرح سید محسن بن احمد شامی حسنی یمنی زیدی
۱۴: شرح سید جمال الدین کوکہانی یمنی نژاد مقیم ہند
د) مستدرکات صحیفہ
بعض علماء اور دانشوروں نے صحیفہ سجادیہ پر مستدرکات لکھے ہیں:
مستدرکات صحیفہ سےمراد امام سجاد علیہ السلام کی وہ دعائیں ہیں جو صحیفہ میں درج نہیں ہیں۔
صحیفہ کے بعض مستدرکات
۱: صحیفہ ثانیہ، تالیف شیخ محمد بن حسن الحر العاملی ، صاحب کتاب وسائل الشیعہ
۲: صحیفہ ثالثہ، تالیف مشہور مورخ و دانائے رجال معروف، میرزا عبد اللہ افندی، صاحب کتاب ریاض العلماء
۳: صحیفہ رابعہ تالیف محدث میرزا حسین نوری طبرسی
۴: صحیفہ خامسہ، علامہ محسن امین حسینی عاملی
۵: صحیفہ سادسہ، تالیف شیخ محمد باقر بن محمد حسن بیر جندی قائینی۔
۶: صحیفہ سابعہ، تالیف شیخ ہادی بن عباس آل کاشف الغطا نجفی، صاحب کتاب المستدرک۔
۷: صحیفہ ثامنہ، تالیف حاج میرزا علی حسینی مرعشی شہرستانی حائری
۸: ملحقات صحیفہ مولف: مرحوم شیخ بہائی کے نامور شاگرد، شیخ محمد المعروف تقی زیا بادی قزوینی، انہوں نے ملحقات کو سن ۱۰۲۳ہجر میں مکمل کیا ہے۔ [17]
ہ) علماء کے نزدیک صحیفہ کا مقام و مرتبہ
صحیفہ کی دعائیں حسن بلاغت اور کمال فصاحت کے ساتھ ساتھ علوم الہیہ یمینیہ کا مجموعہ ہیں جن کے سامنے انسانی عقل سر تسلیم خم کئے رہتی ہے۔ اور عظیم ترین علماء اور دانشور خضوع کےطور پر جھکے رہتے ہیں۔
صحیفہ پر حقیقت میں صاحبان دل کی ایک نگاہ سے ایک حقیقت کے چہرے سےپردے ہٹ جاتےہیں کیونکہ صحیفہ کی عبارات خود ہی اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ یہ کلام مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہے چنانچہ یہ جعل سازوں کے اوہام سے بھی برتر و بالاتر ہےا ور علماء اور دانشوروں نے بھی اس کی جانب شدید توجہ کی ہے اور اس کی تعریف و تحسین کے مواقع ضائع نہیں ہونے دئیے ہیں۔
کچھ مثالیں
اول:
ابن شہر آشوب اپنی کتاب المناقب میں لکھتے ہیں؛
بصرہ میں ایک مرد بلیغ اور ادیب کی موجودگی میں صحیفہ کاملہ کی فصاحت و بلاغت کا حوالہ دیا گیا تو کہنے لگا: میں بھی اسی قسم کا صحیفہ املاء اور بیان کر سکتا ہوں اور خود بھی لکھ سکتا ہوں چنانچہ قم و قرطاس لے کر لکھنے بیٹھ گیا سر جھکائے بیٹھا رہا اور ایک جملہ بھی نہ لکھ سکا اور نہ بیان کر سکا اور شرمندگی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔[18]
دوم:
سن ۱۳۵۳ہجری میں مرحوم آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی نے صحیفہ کاملہ کا ایک نسخہ اہل سنت کے ایک عالم و دانشور اور تفسیر طنطاوی کے مولف مفتی اسکندریہ علامہ طنطاوی کے نام قاہرہ روانہ کیا۔
طنطاوی نے صحیفہ وصول کیا اور اس بیش بہاء تحفے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب میں لکھا:
یہ ہماری بدبختی ہے کہ یہ گرانبہا علم و معرفت کا زندہ جاوید خزانہ جو انبیاء کی مراث ہے اب تک ہماری دسترس سے خارج تھا میں جتنا بھی اس غور و فکر کرتا ہوں دیکھتا ہوں کہ یہ کلام، کلام خالق سے کمتر اور کلام مخلوق سے بالاتر ہے۔ [19]
البتہ ہمیں اس معاصر مفسر پر حیرت ہے جنہوں نے حتی اہل بیت ہی کے مصادر و منابع تک میں غور نہیں کیا ہے حالانکہ قندوزی حنفی جیسے کئی سنی علماء نےا س کتاب کے کچھ حصے اپنی تالیفات میں نقل کئے ہیں۔ (۲۲)
سوم:
میرزا ہادی مشہدی ذاکر سے نقل ہوا ہے کہ ابن جوزی نے خصائص الائمہ میں لکھا ہے:
اگر امیر المومنین علی علیہ السلام نہ ہوتے تو مسلمانوں کی توحید اور ان کے عقائد مکمل نہ ہوتے۔ کیونکہ جو کچھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ارشاد فرمایا وہ اصول عقائد اور دین کے اہم فروعات میں ہے مگر عقائد کی باریکیاں اور دقائق (جیسے صفات ذات و فعل ذات، صفات کا عین ذات ہونا،) ایسے مسائل ہیں جن کے سلسلے میں مسلمان امیر المومنین علی علیہ السلام کے مرہون منت اور آپ کے خوان علم و دانش کے ریزہ خوار اور شاگرد ہیں۔۔۔
اس کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں:
علی بن الحسین زین العابدین املاء و انشاء خدا کے ساتھ بات کرنے اور کلام و خطاب کرنے کی کیفیت اور روش کے حوالہ سے مسلمانوں پر استادی کا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی حاجت خدا کے سامنے رکھنے کا سلیقہ سکھایا۔ کیونکہ اگر امام سجاد علیہ السلام نہ ہوتے تو مسلمان خدا کے ساتھ بات اور مناجات کرنے اور اپنی حاجات بارگاہ قدوس میں پیش کرنے کی روش سے محروم رہتے۔ امام سجاد علیہ السلام نے لوگوں کو سکھایا کہ وہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کسی طرح بات کریں اور بارش کی درخواست کرتے وقت کس زبان اور کس لب و لہجے میں خدا سے نزول باران کی درخواست کریں۔ اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح سے پناہ مانگیں اور کس طرح دشمنوں کے شر کو دفع کرنے کی التجا کریں۔۔۔ (۲۳)
و) صحیقہ کی دعاوں پر ایک نظر
صحیفہ سجادیہ بارگاہ الہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیان حاجات کا ہی مجموعہ نہیں ہے بلکہ اسلامی علوم و معارف کا بیش بہا خزانہ ہے جس میں اعتقادی ، ثقافتی، معاشرتی و سیاسی امور اور بعض قوانین فطرت اور احکام شرعیہ بھی بیان ہوئے ہیں۔ ہاں مگر ان سب کو دعا اور مناجات کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔۔۔ ( چونکہ اس ستمگر زمانے کے حالات کے پیش نظر یہی روش مناسب تھی)
خدا کےساتھ راز و نیاز اور مناجات کے باب میں ایسی دعائیں ہیں جو سال میں ایک دفعہ پڑھی جاتیہیں جیسے دعائے عرفہ اور ماہ رمضان کی دعائے وداع، بعض دعائیں مہینے میں ایک بار پڑھی جاتی ہیں جیسے دعائے رویت ہلال، یا رمضان کی دعائیں، بعض ہفتہ وار ہیں اور بعض دعائیں ہر روز و شب کے لیے ہیں:
صحیفہ سجادیہ ۵۴دعاوں پر مشتمل ہے جن کے عنوانات کی فہرست درج ذیل ہے:
۱: حمد و ثنائے الہی جو لفظ حمد سے شروع اور لفظ حمید پر ختم ہوتی ہے۔
۲: محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور آل محمد پر درود و صلوات
۳: عرش کی حفاظت کرنے والے فرشتوں اور اسرافیل، جبرائیل، میکائیل، روح ملک الموت، منر و نکیر، وغیرہ جیسے مقرب فرشتوں پر درود و صلوات
۴: انبیاء کے پیروکاروں اور ان پر ایمان لانے والوں پر درود و صلوات
۵: امام سجاد علیہ السلام کی دعا اپنے لیے اور اپنے دوستوں کے لیے۔
۶: صبح و شام کے لیے دعا۔
۷: اہم حوادث و وقائع پیش آنے نیز غم و حزن کے وقت کی دعا۔
۸: کراہتوں اور ناپسندیدگیوں، اخلاقی برائیوں اور بھونڈے اور مذموم کردار سے خدا کی پناہ۔
۹: خدا کی مغفرت مانگنے کا اشتیاق۔
خدا کی بارگاہ سے درخواست پناہ۔
۱۱: انجام بخیر ہونے کی دعا۔
۱۲: گناہوں کا قرار اور توبہ و انابہ کی درخواست۔
۱۳: خدا کی بارگاہ سے حوائج پورے ہونے کی دعا۔
۱۴: جس وقت انسان ظلم کا یا ستمگروں سے ناخوشایند افعال کا مشاہدہ کرتا ہے۔
۱۵: بیماری، غم اور تکالیف کا موقع۔
۱۶: گناہوں اور عیوب کی معافی کی درخواست۔
۱۷: شر شیطان کے دفع ہونے اور اس کی دشمنی اور مکرو فریب سے خدا کی پناہ۔
۱۸: خطرات کےرفع ہونے اور حاجت کے سریع بر آوردہ ہونے کی دعا
۱۹: خشک سالی میں باران رحمت کی دعا
۲۰: بارگاہ رب کریم سے مکارم اخلاق اور پسندیدہ کردار کی درخواست
۲۱: حزن و غم کی دعا
۲۲: رنج و دشوار اور امور مشکل ہونے جانے کے وقت کی دعا
۲۳: تندرستی کے وقت کی دعا اور تندرستی پر شکر الہی کی بجا آوری
۲۴: والدین کے لیے دعا
۲۵: اولاد کے لیے دعا
۲۶: پڑوسی اوردوست کے حق میں دعا
۲۷: مجاہدین اور اسلامی مملکت کی سرحدوں کے محافظین کے لیے دعا
۲۹: تنگدستی کے وقت کی دعا
۳۰: قرض کی ادائیگی کے لیے مدد مانگنا
۳۱: توبہ اور خدا کی طرف لوٹنے کی درخواست۔
۳۲؛ نماز تہجد کے بعد کی دعا
۳۳: خیر و نیکی کی درخواست
۳۴: مشکل وقت اور بلا و آزمائش کے وقت کی دعا یا اس وقت کی دعا جب انسان گناہ میں مبتلا شخص کو دیکھتا ہے۔
۳۵: دنیا داروں کو دیکھتے وقت خدا کی مشیت پر رضا و خشنودی۔
۳۶: بادلوں اور آسمانوں پر گرج چمک دیکھتے وقت کی دعا
۳۷: خدا کا شکر ادا کرنے سے عاجزی و قصور کا اقرار۔
۳۸: بندگان الہی کے حقوق کی ادائیگی میں کاتاہی سے اعتذار
۳۹: کدا کی رحمت کے وقت کی دعا اور موت کو یاد رکھنا۔
۴۰: دوسروں کی موت کے وقت کی دعا اور موت کو یاد رکھنا
۴۱: گناہ سے پردہ پوشی اور حفاظت کی درخواست
۴۲: ختم قرآن کے موقع پر دعا
۴۳: رویت ہلال کے وقت کی دعا
۴۴: پہلی ماہ رمضان کی دعا
۴۵: دعائے وداع ماہ رمضان
۴۶: دعائے عید فطر و جمعہ
۴۷: دعائے عرفہ
۴۸: دعائے جمعہ و عید ضحیٰ
۴۹: شیطان کے شر و مکر کے دفع ہونے کی دعا
۵۰: عقلمدوں کا خوف خدا
۵۱: بارگاہ الہی میں آہ و زاری اور مناجات
۵۲: خدا کی بارگاہ سے درخواست پر اصرار
۵۳: بارہگاہ الہی میں اپنے چھوٹے پن کا اظہار
۵۴: ہم و غم کے دور ہونے کی دعا
حوالہ
[1] محمد بن یعقوب کلینی، اصول کافی، ج۱، ص ۴۶۷، شیخ مفید، الارشاد، ص ۲۵۶۔
[2] سید محمد تحف حسینی جلالی، تدوین السنۃ الشریفۃ، ص ۱۵۱۔
[3] علی بن شعبہ، تحف العقول، ص۲۵۵۔
[4] ابو العباس نجاشی، رجال نجاشی، ص۱۱۶۔
[5] الکافی، ج۸، ص۱۷۔
[6] رجال نجاشی، ص۱۵۷۔
[7] رجال نجاشی، ص۱۱۵۔
[8] آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج ۱۵، ص ۱۸،۱۹۔
[9] صحیفہ سجادیہ، ترجمہ سید صدر الدین بلاغی، ص۹مقدمہ۔
[10] سلیمان بن ابراہیم قندوزی، ینابیع المودۃ ج۱، ص۵۹۹۔
[11] مقدمہ آیت اللہ مرعشی نجفی، ص۸،۹۔
[12] وہی حوالہ۔
[13] الذیرہ، ج۱۵،ص۱۸، ۱۹۔
[14] ینابیع المودۃ ص۵۹۹۔
[15] مقدمہ آیت الہہ مرعشی، ص۴۶۔
[16] الذریعہ، ج۳، ص۳۴۵۔
[17] گزشتہ حوالہ۔
[18] گزشتہ حوالہ۔
[19] گزشتہ حوالہ۔