صحیفہ کاملہ کی اسناد:
صحیفہ کاملہ کے مصنف کے طور پر آج امام زین العابدین کو کون نہیں جانتا؟ لیکن صدیوں پہلے لکھی جانیوالی قدیم کتابوں کے مصنف کی نشاندہی بھی ایک اہم مرحلہ ہوتا تھا۔ معترضین نے نہج البلاغہ کو سید رضی کی تصنیف کہنے سے گریز نہیں کیا۔ حد ہو گئی کہ قرآن کی الہامی حیثیت بھی زیر بحث آتی ہے۔د عا عبدو معبود کے درمیان ہم کلام ہونے کا ذریعہ ہے اس لئے بھی دعا کرنے والے کے اطمینان قلب کے لئے دعائیہ کلمات کی سند جاننا ضروری ہے۔
صحیفہ کاملہ کی اسناد کے ضمن میں علما اور شار حین کی اکثریت بشمول علامہ سید علی خان ( ریاض السالکین) ، میر باقر د اماد (تعلیقات) علامہ مجلسی( بحار الانوار) شاہ محمد دور ابی ( ریاض العافین ) محمد باقر خوانساری ( روضات الجنات) وغیرہ روایات کے ایک سلسلہ پر متفق ہیں۔ یہ سلسلہ ہبتہ اﷲ ابن حامد الحلی ( متوفی ٢٠٩ھ) سے شروع ہو کر سید نجم الدین بہا الشرف سے گزرتے ہوئے ابو الفضل شیبانی پر ختم ہو تا ہے ابو الفضل اس کو دو طریقوں سے روایت کرتے ہیں رجال کا سلسلہ بڑا طویل ہے۔ مختصر یہ کہ ایک روایت کے مطابق صادق آل محمد و نے یہ دعائیں امام محمد باقر(ع) کے تحریک کردہ نسخہ سے متوکل بن ہارون کو لکھوائی تھی۔ دوسری روایت کے مطابق جناب زید شہید ( ابن علی(ع) ابن الحسین(ع)) کے ہاتھ کا لکھا ہو انسخہ بھی یحییٰ بن زید کے ذریعہ متوکل بن ہارون کی نظر سے گزرا اور انہوں نے دونوں نسخوں کو یکساں مطابق پایا۔ مرزا احمد حسن کا ظمینی کے مقدمہ'' تاریخ صحیفہ کاملہ'' ( ملحقہ ترجمہ سید علی، نظامی پریس لکھنو) کے بموجب روایت کا ایک اور سلسلہ بھی ابو الفضل شیبانی پر ختم ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کے شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی کے نواسہ محمد ابن ادریس نے اپنے ماموں ابو علی حسین ( فرزند شیخ الطائفہ ) سے روایت کی جس کا سلسلہ شیخ الطائفہ سے حسن بن عبید اﷲ الفضائری اور ابو الفضل شیبانی سے ہو کر عمری بن متوکل بن ہارون تک پہنچا( حوالہ ریاض السالکین)۔ اس طرح ان تینوں اسناد میں متوکل بن ہارون مشترک راوی ہے۔
متوکل بن ہارون کا بیان ہے کہ امام صادق نے مجھے ٧٥ دعائیں حفظ کر کے لکھوائیں اس میں سے ١١دعائیں یاد نہ کرسکا باقی ساٹھ سے کچھ زیادہ محفوظ ہیں، یہی دعائیں آج ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔ ان میں سے ٥٤ دعائیں تو صحیفہ کے تمام نسخوں میں شامل ہیں ان کے علاوہ ہفتہ کے دنوں سے مخصوص دعائیں اور دیگر دعاؤں کو ملا کر تعداد ٦٨ ہوتی ہے۔ البتہ جناب نسیم امروہوی کے ترجمہ (شایع کردہ شیخ غلام علی ) میں ١٥ مناجاتیں بھی شامل ہیں جو بقول مترجم پاک و ہند کے کسی مطبوعہ صحیفہ میں شائع نہیں ہوئیں ۔ البتہ یہ مناجات شیخ عباس قمی کی مفاتیح الجنان میں موجود ہے اور علامہ اختر عباس اور علامہ ذیشان حیدر جوادی کے اردو ترجموں میں شامل ہیں۔
بہر حال یہ حقیقت ہے کہ اس صحیفہ کی نسبت امام زین العابدین کی طرف اسی طرح شک و شبہ سے بالاتر ہے جس طرح زبور کی نسبت حضرت داؤد کی طرف اور انجیل کی نسبت حضرت عیسیٰ سے ہے ۔ دعاؤں اور مناجاتوں کا یہ مجموعہ صدیوں سے فرمان الہیٰ، معرفت بشر، تزکیہ نفس اور تلقین و تعلیم اخلاق کا ایک بے مثال وسیلہ ہے۔ یہ امام زین العابدین کا انسانیت پر احسان ہے کہ انہوں نے بیش بہا مضامین پر مشتمل اس کتاب کو اپنی نگرانی میں اپنے جگر گوشوں کے ذریعے ضبط تحریر میں لاکر اس کے متن کو کسی قسم کے شک و شبہات سے محفوظ کردیا۔
صحیفہ کاملہ کے اسناد کے ضمن میں اس کا ایک اور وصف بھی قابل ذکر ہے کہ دنیائے اسلام میں بلحاظ قدامت قرآن کے بعد یہ دوسرے نمبر پرہے صحیفہ سے پہلے صحابی امیر المومنین مسلم بن قیس الہلالی کی ایک تصنیف ہے جو ابجد الشیعہ کہلاتی ہے۔ ( حوالہ مرزا احمد حسن کاظمینی)