سوال:شیعوں کے شیخ، حرعاملی کھتے ہیں :" تمام مخلوقات کا حساب شیعوں کے اماموں کے پاس پھنچے گا۔(کتاب الفصول المھمہ فی اصول الائمہ، ج ۱،ص ۴۴۶)
ایک مختصر:
اگر کوئی یہ اعتقاد رکھتا ھو کہ بعض افراد براہ راست اور خدا کی اجازت کے بغیر مخلوقات کے حساب و کتاب کی جانچ پڑتال کرسکتے ہیں اور ان کے لئے جزا یا سزا معین کرسکتے ہیں، تو ظاھر ہے کہ یہ اعتقاد دینی ثقافت اور تعلیمات کے مطابق نھیں ہے- اس کے علاوہ یہ اعتقاد خداوند متعال کی توحید فاعلی کے بھی منافی ہے، لیکن اگر کسی کا یہ اعتقاد ھو کہ بعض خواص، بزرگ اور مخلص افراد، نہ کہ براہ راست، بلکہ اذن الھی سے مخلوقات کے حساب کی جانچ کرسکتے ہیں اور ان کے لئے جزا و سزا معین کرسکتے ہیں، تو یہ امر ممکن ہے اور شرعی اور عقلی طور پر بعید نھیں ہے-
مثال کے طور پر امام حسین (ع) جیسے افراد، جنھوں نے اپنی تمام توانائیاں خدا کے دین کے لئے صرف کی ہیں، اور اس راہ میں ھر قسم کی جانی و مالی قربانی دینے سے گریز نھیں کیا ہے ، اس میں کیا حرج ہے کہ، خداوند متعال اپنے بندوں کا حساب ان کو سونپے تاکہ عدل الھی کے مطابق فیصلہ سنائیں-
تفصیلی جوابات:
سوال کا جواب دینے سے پھلے ضروری ہے کہ ھم سوال میں موجود ابھام پر بحث کریں- سوال میں پیش کیا گیا عدم امکان معلوم نھیں ہے کہ مقام ثبوت سے متعلق ہے یا مقام اثبات سے؟
دوسرے الفاظ میں سوال میں یہ مشخص نھیں ہے کہ حقیقت میں خدا کے علاوہ کسی کے بندوں کے حساب کو اپنے ذمہ لینے پر اعتراض ھوا ہے یا یہ کہ اصل میں یہ کام ممنوع نھیں ہے، لیکن سوال شیعوں کے اماموں کی حیثیت اور مقام و منزلت کے بارے میں ہے؟ اس لحاظ سے ھم دونوں حصوں پر بحث کرکے اس کی تحقیق کریں گے:
ثبوت و امکان کی بحث میں ، دو احتمال قابل تصور ہیں:
الف- یہ کہ بعض افراد آزادانہ طور پر خدا کی اجازت کے بغیر ( خداوند متعال کے ارادہ کے عرض میں) خدا کی مخلوقات کے حساب کی جانچ کرسکتے ہیں تاکہ ان کے لئے سزا یا جزا معین کر سکیں-
ظاھر ہے کہ جو شخص دینی تعلیمات اور ثقافت سے معمولی آشنائی رکھتا ھو، وہ اس قسم کے نظریہ کو قبول نھیں کرے گا، اس کے علاوہ، یہ امر خداوند متعال کی توحید فاعلی کے منافی ہے، اس لحاظ سے کوئی مومن اس بات پر یقین نھیں رکھ سکتا ہے-
ب- یہ کہ خواص اور بزرگوں اور مخلصین کی ایک تعداد، نہ کہ آزادانہ اور بلا واسطہ بلکہ اذن الھی سے (خداوند متعال کے ارادہ کے طول میں) خدا کی مخلوقات کے حساب کی جانچ کرے اور ان کے لئے جزا وسزا معین کرے- یہ ایک ممکن اور قابل قبول امر ہے اور اس کے لئے کسی قسم کا عقلی یا شرعی عدم امکان نہیں ہے-
لیکن اثبات و تحقق خارجی کی بحث میں ، ایک جامع اور کافی جواب حاصل کرنے کے لئے پھلے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل چند نکات پر غور کریں-
اولا: اس میں کوئی شک و شبھہ نھیں ہے کہ پھلی نظر میں ، براہ راست تمام امور خداوند متعال کے ھاتھ میں ہیں اور کوئی مخلوق اس کام میں خدا کی شریک نہیں ہے-(۱)
ثانیا: اگر چہ خداوند متعال اکیلے ھی تمام ممکن کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہے اور اس کے ارادہ سے ھر چیز متحقق ھوتی ہے،(۲) لیکن خداوند متعال کی سنت اور طریقہ کار یہ ہے کہ امور ایک خاص راہ سے عبور کرتے ہیں، اس لحاظ سے کچھ کام اس کی مخلوقات کو سونپے جاتے ہیں ، اس بنا پر ھم مشاھدہ کرتے ہیں کہ خداوند متعال کے لئے دنیا و آخرت میں کچھ رسول اور مامور ہیں کہ بھت سے امور انھیں سونپے گئے ہیں- مثال کے طور پر باوجودیکہ ھم بخوبی جانتے ہیں کہ موت و حیات خداوند متعال کے ھاتھ میں ہے، لیکن قرآن مجید میں خداوند متعال نے انسانوں کی جان لینے کے لئے ملک الموت(۳) یا ایک دوسری جگہ پر فرشتوں(۴) کی نسبت دی ہے-
حضرت زکریا کو یحیی کی بشارت دینے کے سلسلہ میں، باوجودیکہ خداوند بلاواسطہ یہ کام انجام دے سکتا تھا، لیکن ھم مشاھدہ کرتے ہیں کہ خداوند متعال اس کام کے لئے ایک فرشتہ کو مامور کرتا ہے اور فرماتا ہے:" تو ملائکہ نے انھیں اس وقت آواز دی جب وہ محراب میں کھڑے مصروف عبادت تھے کہ خدا تمھیں یحیی کی بشارت دے رھا ہے-(۵) اس قسم کے اور بھی موارد قرآن مجید میں موجود ہیں-
مذکورہ مطلب کے پیش نظر، اس عمل کا کچھ خاص افراد کے ذریعہ انجام پانا کوئی مشکل اور سخت کام نھیں ہے- اس میں کیا حرج ہے کہ خداوند متعال ان افراد کی قدر دانی کے لئے، کہ جنھوں نے اپنی پوری طاقت دین خدا کے لئے صرف کی ہے اور اس راہ میں امام حسین (ع) کے مانند اپنا سب کچھ لٹا دیا ہے ، اپنے بندوں کا حساب (۶)ان کے ذمہ ڈال دے تاکہ وہ عدل الھی کے مطابق فیصلہ سنا دیں-
برادران اھل سنت کی کتابوں میں آیہ شریفہ:" یوم ندعو کل اناس بامامھم " کی تفسیر میں، پیغمبر اکرم (ص) اور علی (ع) سے نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:" قال یدعو کل قوم بامام زمانھم و کتاب ربھم و سنۃ نبیھم" ھر ایک کو اس کے امام زمانہ اور خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی سنت کے ساتھ بلایا جائے گا-(۷)
اور حضرت علی(ع) سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت (ع) نے فرمایا:" ھر ایک کو اپنے امام زمانہ کے ساتھ بلایا جائے گا"-(۸) اس لحاظ سے شیعوں کے اس اعتقاد میں کیا حرج اور مشکل ہے؟
قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے پیغمبر (ص) اور دوسرے مومنین کو دوسروں کے اعمال پر ناظر کے عنوان سے یاد کیا ہے-(۹) اور ھماری روایتوں میں مومنین کی تفسیر ائمہ کی گئی ہے-(۱۰)
اس آیہ شریفہ اور اس کے مشابہ آیات اور ان آیات کے ذیل میں بیان کی گئی روایات کے پیش نظر واضح ہے کہ جو شخص بندوں کے اعمال پر ناظر ھوگا اس سے شاھد یا حساب کرنے والے یا حاکم کے عنوان سے استفادہ کیا جانا چاھئے-
بعض روایتوں میں اس مسئلہ کی بعض حکمتیں بھی بیان کی گئی ہیں-
امام صادق (ع) سے ایک روایت میں آیہ شریفہ:" وعلی الا عراف رجال یعرفون" کی تفسیر کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ: ھر امت کا امام زمانہ، ان کا محاسبہ کرتا ہے اور ائمہ (ع) اپنے (۱۱)دوستوں اور دشمنوں کو ان کے چھروں سے پھچانتے ہیں اور یھی اس قول خدا کے معنی ہیں کہ ارشاد فرماتا ہے:" وعلی الاعراف رجال یعرفون"(۱۲)
قمی کی روایت کے مطابق حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں:" ھر امت کا حساب و کتاب اس امت کے امام زمانہ کے ھاتھ میں ہے، اور ائمہ (ع)اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پھچانتے ہیں، پس اس دن اپنے دوستوں کے اعمال ناموں کو ان کے دائیں ھاتھ میں دیں گے اور اپنے دشمنوں کے اعمال ناموں کو ان کے بائیں ھاتھ میں دیں گے، وہ گروہ ( ان کے دوست) بھشت میں جائیں گے اور یہ گروہ ( ان کے دشمن)جھنم میں داخل ھوں گے-"(۱۳)
حوالہ جات:
۱۔ سورہ کهف/ ۲۶.
۲۔سورہ یس/ ۸۲،"اس کا امر صرف یہ ہےکہ کسی شے کے بارے میں یہ کھنے کا ارادہ کرلے کہ ھوجا اور وہ شے ھوتی ہے-"
۳۔ سورہ سجده /۱۱؛ آپ کھدیجئے کہ تم کو ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پھنچا دے گا جو تم پر تعینات کیا گیا ہے-
۴۔ سورہ انفال/۵۰، کاش تم دیکھتے کہ جب فرشتے ان کی جان نکال رھے تھے اور ان کے منھ اور پیٹھ پر مارتے جاتے تھے کہ اب جھنم کا مزہ چکھو-"
۵۔ سورہ آل عمران/ ۳۹.
۶۔ دينورى، ابو حنيفه احمد بن داود، اخبارالطوال، مهدوى دامغانى، محمود، ص ۲۹۸– ۳۰۸، تهران، نشر نى، طبع چهارم، ۱۳۷۱ھ ش۔
۷۔سيوطى، جلال الدين، الدر المنثور في تفسير المأثور، ج۴، ص ۱۹۴، ناشر كتابخانه آيت الله مرعشى نجفى، قم، ۱۴۰۴ ھ.
۸۔قرطبى، محمد بن احمد، الجامع لأحكام القرآن، ج۱۱، ص ۲۹۷، انتشارات ناصر خسرو، تهران، طبع اول، ۱۳۶۴ ش.
۹۔ توبه، 105، کہدیجئے: اپنے اعمال انجام دو ، خداوند متعال اور اس کا رسول اور مومنین، تمھارےاعمال کو دیکھ رھے ہیں ، اور عنقریب نھانی و آشکار کا علم رکھنے والے کی طرف پلٹا دئے جاو گے اور تم جو اعمال انجام دیتے ھو اس کی خبر دیتے ہیں"-
۱۰۔ کلینی، كافي، ج ۱، ص ۲۱۹، چاپ چهارم دار الكتب الإسلامية، تهران، ۱۳۶۵ هـ ش. کلینی، كافي، ج ۱، ص ۲۱۹، طبع چهارم دار الكتب الإسلامية، تهران، ۱۳۶۵ هـ ش.
۱۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، ج ۲۷، ص ۳۱۵، موسسه الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ هـ .
۱۲۔ قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی،ج۱ ،ص۲۳۱ ، دارالکتاب، قم ،طبع چھارم۱۳۶۷ھ ش۔