"وعداللّٰہ المؤمنین والمومنٰت جنّٰت تجری من تحتھا الانھار خٰلدین فیھا "اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نھریں جاری ھوں گی ۔یہ ان میں ھمیشہ رھنے والے ہیں ۔
ھم جانتے ہیں کہ قرآن مجید نے کفار اور گناھگاروں کے ایک گروہ کے بارے میں واضح طور پر دائمی سزا دینے یعنی دوسرے الفاظ میں "خلود"کا ذکر کیا ہے۔
سورہ توبہ کی آیت نمبر۶۸ میں آیا ہے:
"وعداللہّٰ المنٰفقین والمنٰفقٰت والکفّار نار جھنّم خٰلدین فیھا"
اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں سے اور تمام کافروں سے آتش جھنّم کا وعدہ کیا ہے جس میں یہ ھمیشہ رھنے والے ہیں۔
اسی طرح اس آیت کے ذیل میں باایمان مردوں اور عورتوں کے لئے بھشت کے باغوں کا ھمیشہ کے لئے وعدہ کیا ہے:
"وعداللّٰہ المؤمنین والمومنات جنّا ت تجری من تحتھا الانھار خٰلدین فیھا" ( سورہ توبہ،آیت۷۲)
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نھریں جاری ھوں گی ۔یہ ان میں ھمیشہ رھنے والے ہیں ۔
یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ اس بات کو کیسے قبول کیا جائے کہ ایک انسان جس نے دنیا میں زیادہ سے زیادہ اسّی سال یا سو سال زندگی گزاری ھو اور اس سے کوئی گناہ سرزد ھوا ھو ،اسے کروڑوں سال بلکہ ھمیشہ ھمیشہ سزادی جائے؟!
البتہ یہ مطلب نیک اعمال کی جزا کے بارے میں زیادہ اھمیت نھیں رکھتا کیو نکہ خدا کی رحمت کا سمندر وسیع ہے اور جزا جتنی زیادہ ھو خدا کی بے انتھا رحمت اور اس کے فضل و کرم کی علامت ھو گی ۔لیکن برے اعمال اور محدود گناھوں کے نتیجہ میں ھمیشہ کے لئے اس کو کیسے عذاب میں مبتلا رکھا جاسکتا ہے ۔خداوند متعال کی عدالت کے پیش نظر اس کی کیا وجہ بیان کی جاسکتی ہے؟
کیا گناہ اور اس کی سزا کے در میان ایک قسم کا تعادل بر قرارنھیں ھو نا چاھئے؟
جواب:
اس بحث اور سوال کے قطعی حل اور جواب تک پھنچنے کے لئے چند نکات پر دقت کے ساتھ غور وفکر کر نے کی ضرورت ہے:
الف:قیامت کے دن کی سزائیں اس دنیا کی سزاؤں سے ھرگز شباھت نھیں رکھتی ہیں ۔مثلاًاگر کوئی شخص دنیا میں کسی جرم ،جیسے چوری وغیرہ کا مرتکب ھو جائے تو اسے ایک خاص مدت تک جیل میں ڈال دیا جاتاہے،لیکن قیامت کی سزائیں اکثر انسان کے اعمال کے آثار اور اس کے کاموں کی خاصیتوں کے اعتبار سے ھوتی ہیں۔
واضح ترعبارت میں گناھگاروں کی تمام سزائیں ،جن کا سامنا انھیں دوسری دنیا (قیامت)میں کرنا پڑ تا ہے در حقیقت ان کے اپنے کئے گئے گناھوں کا نتیجہ ہے جو ان کے دامن گیر ھو تے ہیں۔
اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ایک واضح تعبیر موجود ہے،فر ماتا ہے:
"فالیوم لا تظلم نفس شیئاًولا تجزون إلاّ ماکنتم تعملون" (سورہ یٰس،آیت۵۴)
پھر آج کے دن کسی نفس پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گا اور تم کو صرف ویسا ھی بدلہ دیا جائے گا،جیسے اعمال تم کر رھے تھے۔
ایک آسان مثال سے ھم اس حقیقت کو واضح کرسکتے ہیں:
ایک شخص منشیات یا شراب پینے کا عادی ہے ،جتنا بھی اس سے کھا جاتا ہے کہ یہ زھریلی چیزیں تیرے معدہ کو خراب،تیرے دل کو بیمار اور تیرے اعصاب کو مجروح کردیں گی ،وہ پروا نھیں کر تا ہے ۔چند ھفتے یا چند مھینے ان مھلک چیزوں کی خیالی لذت میں غرق رھتا ہے اور اس کے بعد بتدریج زخم معدہ ،عارضہ قلب اور اعصاب کی بیماریوں میں مبتلا ھو جاتا ہے اور پھر دسیوں سال عمر بھران بیماریوں میں مبتلا ھو کر شب وروزان کے عذاب میں گزارتا ہے ۔کیا یھاں پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اس شخص نے تو چند ھفتہ یا چند مھینے سے زیادہ عرصہ منشیات یا شراب کا استعمال نھیں کیا تھا ،دسیوں سال عمر بھر کیوں امراض میں مبتلا ھو گیا؟
اس کے جواب میں فوراً کھا جائے گا یہ اس کے عمل کا نتیجہ واثر ہے !حتی اگر وہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر سے بھی زیادہ یعنی دسیوں ھزار سال بھی عمر پائے اور مسلسل رنج و عذاب میں رھے تب بھی ھم یھی کھیں گے کہ اس نے جان بوجھ کر اور آگاھانہ طورپر اس چیز کو اپنے لئے خریدا ہے۔
قیامت کے دن کی سزائیں زیادہ تر اسی طرح ہیں ،اس لئے عدالت الھی پر کسی قسم کا اعتراض باقی نھیں رھتا ہے۔
ب:بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ سزاؤں کی مدت گناہ کی مدت کے برابر ھونی چاھئے ،یہ ایک بڑی غلط فھمی ہے ،کیونکہ گناہ اور اس کی سزا کے در میان زمانہ کے اعتبار سے کوئی ربط نھیں ہے بلکہ سزا کا تعلق اس گناہ کی کیفیت اور نتیجہ سے ھوتا ہے۔
مثلاًممکن ہے کوئی شخص ایک لمحہ میں ایک بے گناہ انسان کو قتل کر ڈالے اور اس دنیا کے بعض قوانین کے مطابق اسے عمر قید کی سزا دی جائے ۔یھاں پر ھم دیکھتے ہیں کہ گناہ انجام دینے کی مدت صرف ایک لمحہ تھی جبکہ سزا کی مدت دسیوں سال (عمر بھر)ہے،اور کوئی شخص اس سزا کو ظالمانہ شمار نھیں کرتا ہے،کیو نکہ یھاں پر منٹ،گھنٹے،مھینے یا سال کی بات نھیں ہے بلکہ گناہ کی کیفیت اور نتیجہ مد نظر رکھا جاتا ہے۔
ج:جھنم میں"خلود"ھمیشگی ،اور دائمی سزائیں ان لوگوں کے لئے ہیں ،جنھوں نے نجات کے تمام راستے اپنے اوپر بند کر لئے ھوں اور جان بوجھ کر فساد،تباھی اور کفر و نفاق میں غرق ھوئے ھوں اور گناھوں نے ان کے سارے وجود کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ھو کہ حقیقت میں وہ خود گناہ و کفر کا روپ اختیار کر گئے ھوں۔
قرآن مجید میں یھاں پر ایک خوبصورت تعبیر ہے:
"بلیٰ من کسب سیّئة واحاطت بہ خطیئتہ فاولٰئک اصحٰب النّار ھم فیھا خٰلدون" (سورہ بقرہ،آیت۸۱)
یقینا جس نے کوئی برائی حاصل کی اور اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا،وہ لوگ اھل جھنّم ہیں اور وھیں ھمیشہ رھنے والے ہیں۔
اس قسم کے افراد خداوند متعال کے ساتھ اپنے رابطہ کو مکمل طور پر منقطع کر لیتے ہیں اور نجات کے تمام راستوں کو اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں ۔
ایسے افراد کی مثال اس پرندہ کے مانند ہے جس نے جان بوجھ کر اپنے پروں کوتوڑ کر آگ لگا دی ھو اور وہ مجبور ہے ھمیشہ زمین پر رھے اور آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر نے سے محروم رھے ۔
مذکورہ بالا تین نکات اس حقیقت کو واضح کر دیتے ہیں کہ دائمی عذاب کا مسئلہ جوکہ منافقین اور کفار کے ایک خاص گروہ کے لئے مخصوص ہے ھر گز"عدل الھی"کے خلاف نھیں ہے بلکہ یہ ان کے برے اعما ل کا نتیجہ ہے اور ان کو پھلے ھی اس بات سے انبیاء الھی کے ذریعہ آگاہ کیا جا چکا ہے کہ ان کاموں کا نتیجہ اتنا تلخ اور برا ہے۔
اگر یہ افراد جاھل ھوں اور انبیاء کی دعوت ان تک نہ پھنچی ھو اور جھالت اور نادانی کی وجہ سے ایسے اعما ل کے مرتکب ھوئے ھوں تو وہ یقینا اس قسم کی سزا کے مستحق نھیں ھوں گے ۔
اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور اسلامی روایتوں سے معلوم ھوتا ہے کہ خدا کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ گناھگاروں کے ایک بڑے گروہ کو بھی بخش دیا جائے گا:
کچھ لوگ معافی کے ذریعے
کچھ لوگ معمولی نیک اعمال کے ذریعہ خدا کے فضل وکرم سے کثیر اجرپا کر بخش دئے جائیں گے۔
اور کچھ لو گ ایک مدت تک جھنم میں اپنے برے اعمال کی سزا بھگتنے اور الہھی بھٹی سے گزر کر پاک و صاف ھو نے کے بعد رحمت و نعمت الھی سے بھرہ مند ھوں گے ۔
صرف ایک گروہ جھنم میں ھمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گاجو حق کے خلاف اپنی دشمنی اور ھٹ دھر می ،ظلم وفساد اور بے حد نفاق کی وجہ سے سرتا پا کفر اور بے ایمانی کی گھری تاریکیوں میں ڈوبا ھوا ہے۔
اقتباس از کتاب: نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق