www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

100021
سوال: تمام چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ھے ، خود اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟
جواب: یہ سوال مادّہ پرستوں کی جانب سے بار بار اٹھایا جا تارھا ھے ۔ وہ یہ پوچھتے ھیں اگر تمھارے بیان کے مطابق اس بات کو مان لیا جائے کہ دنیا کی ھر چیز کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ھے تو بتاؤ خود اللہ تعالیٰ کو کس نے تخلیق کیا ھے ؟
ان کا خیال یہ ھے کہ خدا پرستوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نھیں ھے اور وہ یہ بھی سمجھتے ھیں کہ اس سوال کا جواب دینا صرف خدا پرستوں ھی کی ذمہ داری ھے ۔ اس سوال کا قطعی جواب دینے سے پھلے ھم یہ کھیں گے کہ اس طرح کے سوال کا جواب دینا صرف خدا پرستوں کے ذمّے نھیں ھے بلکہ خود مادہ پرستوں پر بھی یھی اعتراض وارد ھوتا ھے۔ کیونکہ جب وہ یہ کھتے ھیں کہ ھر چیز بالآخر مادّہ کی طرف لوٹتی ھے تو اس کے ساتھ ھی یہ سوال پیدا ھو جاتا ھے کہ اگر تمھارے خیال میں یہ دنیا اور اس کے اندر جو کچھ ھے اس کا سر چشمہ مادّہ ھے تو خود مادہ کھاں سے وجود میں آگیا ؟ اسے کس نے پیدا کیا ؟
اس بنا پر ھمارے نزدیک یہ خیال غلط ھے کہ اس سوال کے مخاطب صرف خدا پرست ھی ھو سکتے ھیں اور اس کا جواب ان ھی کے ذمّے ھے ۔
اب ھم اصل مسئلے کو لیتے ھیں ۔ ھمارا جواب سننے سے پھلے مندرجہ ذیل چند مثالوں پر غور کیجئے تاکہ اصل جواب کے سمجھنے کے لئے آپ کا ذھن تیار ھو جائے ۔
ھر چیز کی نمی و رطوبت پانی کی وجہ سے ھے ( یا کلی طور پر مائعار یہ کھاں سے آئی ؟ت کی وجہ سے ھے ) پانی کی یہ رطوبت کس چیز کی وجہ سے ھے او
تمام غذاؤں میں چکنائی روغن کی وجہ سے ھے ، لیکن روغن کی چکنائی کس چیز کے سبب ھے اور یہ اس میں کھاں سے آئی ؟
ھر چیز کا کھارا پن نمک کی وجہ سے ھے لیکن خود نمک میں یہ کھارا پن کھاں سے آیا ؟
یہ بات ظاھر ھے کہ پانی میں رطوبت ، روغن میں چکنائی اور نمک میں کھارا پن کسی دوسری چیز کی وجہ سے نھیں ھے ۔ یہ در اصل ان چیزوں کی ذاتی اور طبعی خاصیت ھے ۔
پانی بذاتہ مرطوب ھے ۔
۰روغن بذاتہ چکنا ھوتا ھے ۔
نمک بذاتہ کھارا ھوتا ھے ۔ ( پانی کی رطوبت کے ذاتی ھونے اور نمک کے کھارے پن کے ذاتی ھونے کا مطلب ھرگز یہ نھیں ھے کہ پانی میں رطوبت چونکہ اس کی اپنی ذاتی ھے اس لئے اس کا کوئی خالق نھیں ۔ ھماری مراد یہ ھے کہ خالق کائنات نے پانی کو طبعی اور ذاتی طور پر مرطوب بنایا ھے اور اس طرح کہ رطوبت کو پانی سے جدا نھیں کیا جا سکتا ۔!)
اس سے یہ بات واضح ھو گئی کہ ھر چیز بالآخر اپنے منبع اور سر چشمہ کی طرف لوٹتی ھے ۔ اس کے بعد یہ سوال کرنے کی حاجت نھیں رھتی کہ کسی چیز میں کوئی تاثیر کھاں سے آئی اور کس کی طرف لوٹتی ھے ۔
وجود اور ھستی کا معاملہ بھی یھی ھے ۔ تخلیق کے اعتبار سے موجودات کی زندگی اور ان کا وجود ، خود ان ھی کی وجہ سے اور ان کا ذاتی نھیں ھے اور بلا تردید قانون ” علت “ کے مطابق موجودات کی زندگی ایک سر چشمے سے تعلق رکھتی ھے ۔ خدا پرست زندگی کا سر چشمہ اور وجود کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات کو قرار دیتے ھیں البتہ وہ یہ کھتے ھیں کہ خدا کی ھستی ذاتی ھے اور اس کی ذات خود اس کا سر چشمہ ھے ۔کیونکہ اگر خدا دنیا کی موجودات کی طرح مخلوق اور معلول ھوتا تو پھر لازماً پوری کائنات ایک ایسا معلول قرار پاتی جس کی کوئی علت نہ ھو اور یہ بات واضح ھے کہ علت کے بغیر معلول کا ھونا ممکن نھیں ۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ تمام مخلوقات کاوجود کسی علت کے بغیر نھیں ھو سکتا تو پھر ایک منبع اور سر چشمہ کا تعین کرنا پڑے گا جو معلولیت کی صفت سے متصف نہ ھو سکے ۔
اس بنا پر یہ بات واضح ھے کہ تمام موجودات کسی ایسی علت کی طرف لوٹتی ھیں جو خود معلول اور مخلوق نہ ھو۔ جس کی ھستی خود اپنے آپ سے قائم ھو اور وہ صرف خدا ئے کائنات کی ذات ھو سکتی ھے ، جو بے آغاز و بے انجام ھے خو د اول اور آخر ھے ، ازلی اور ابدی ھے ۔
یہ شبہ در اصل اس لئے پیدا ھوا کہ مادہ پرستوں کے مطابق ، خدا پرستوں کا موقف یہ ھے کہ ھر چیز کی کوئی نہ کوئی علت ھوتی ھے، اسی لئے وہ خدا پرستوں سے پوچھتے ھیں کہ بتاؤ ! خدا کی علت کون ھے ؟
حالانکہ خدا پرستوں کا موقف یہ نھیں ھے کہ ھر چیز کی کوئی علت ھوتی ھے ۔ در اصل ان کا موقف یہ ھے کہ ھر موجود جس کا پھلے کوئی وجود نھیں تھا، اسے بعد میں وجود حاصل ھوا اور ھر وہ مخلوق جس کی ھستی اس کی اپنی ذاتی نہ ھو اس کے وجود کے لئے کسی علت و سبب اور ایک خالق کا ھونا لازمی ھے ۔
یہ اصول نہ صرف یہ کہ کائنات کے اصل سر چشمے اور تمام مخلوقات کے وجود اور پیدائش کی اصل علت کی جانب ھماری رھنمائی کرتا ھے، بلکہ اس ضمن میں یہ بھی بتاتا ھے کہ اس اصل منبع اور علت کو کسی دوسرے منبع اور علت کی حاجت نہ ھو ، کیونکہ اس کی ھستی خود اس کی اپنی ذاتی ھے اور وہ مخلوق نھیں ھے ۔
بزرگ فلاسفہ نے اس مفھوم کو اس مختصر سے فقرے میں سمو دیا ھے ۔ وہ کھتے ھیں : ” کلّ ما بالعرض ینتھی الی ما بالذّات “
ھر عرضی وجود ، یعنی غیر ذاتی وجود ، بالآخر کسی وجود ذاتی کی طرف لوٹتا ھے اور اسی پر منتھیٰ ھوتا ھے ۔
ایک یھودی نے امیر المومنین (ع) سے دریافت کیا کہ خدا کب سے موجود ھے ؟
آنجناب (ع) نے جواب میں فرمایا : ” کب سے موجود ھے کا سوال تم اس کے بارے میں اٹھا سکتے ھو جو موجو د نہ رھا ھو ۔ اس طرح کا سوال ھر جگہ با معنی نھیں ھو سکتا ، صرف اس چیز کے بارے میں یہ با معنی ھو سکتا ھے جو پھلے موجود نہ رھی ھو اور بعد میں نمودار ھوئی ھو ۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا کوئی آغاز اور انجام نھیں ھے ۔ وہ ھرآغاز سے پھلے رھا ھے اور ھر انجام کے بعد بھی رھے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ سوال صحیح نھیں ھے ۔ “
سوال :اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات کس لئے بنائی ؟
جواب :انسان اور دوسری کوئی بھی باشعور مخلوق اپنے ارادہ و اختیار سے جن کاموں کو بھی انجام دیتی ھے ان کا کوئی نہ کوئی مقصد اور ھدف ھوتا ھے ۔
انسان غذا کھاتا ھے تاکہ سیر ھو جائے ۔ پانی پیتا ھے تاکہ اس کی پیاس دور ھو ۔وہ لباس پھنتا ھے تاکہ گرمی اور سر دی کے برے اثرات سے خو د کو محفوظ رکھے ۔ علم حاصل کرتا ھے تاکہ دانش مند بن جائے ۔
مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتا ھے تاکہ اس کا نام نیکی سے لیا جائے یا اس کے اس عمل کے بدلے آخرت میں اللہ تعالیٰ اجر و ثواب سے نوازے یا پھر محتاجوں اور غریبوں کی امداد وہ اس لئے کرتا ھے کہ کھیں غریب لوگ متحد ھو کر اس کے مقابل انقلاب و شورش نہ برپا کریں ۔
حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنی میز پر کام کرتے ھوئے قلم و کاغذ ھاتہ میں لے کر ان سے کھیلنے لگتا ھے تو اس کا یہ بظاھر بے سود مشغلہ بھی اپنے پیچھے ایک مقصد رکھتا ھے ۔ اگر ھم ذرا غور کریں تو ھمیں معلوم ھو گا کہ وہ اس طرح اپنے پریشان کن خیالات سے اپنے ذھن کو بچانا چاھتا ھے ۔ یا پھر اسے اس بے سود مشغلے کی عادت ھو گئی ھے اور وہ ایسا نہ کرے تو اسے تکلیف ھوتی ھے ۔ اس تکلیف سے بچنے کے لئے وہ عادت کے مطابق قلم ، کاغذ یا کوئی اور چیز ھاتہ میں لے کر اس سے کھیلنے لگتا ھے ۔
مختصر یہ کہ کوئی بھی با شعور بغیر کسی مقصد کے کوئی کام انجام نھیں دیتا ۔
اب سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ اس دنیا اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے کس مقصد کی خاطر پیدا کیا ھے ؟
کیا اللہ تعالیٰ بھی ھماری طرح اپنے کسی فائدے ،کسی نقصان یا خطرے سے بچنے کے لئے کام انجام دیتا ھے ؟
جب ھم یہ کھتے ھیں کہ کوئی عقلمند کسی کام کو بے مقصد انجام نھیں دیتا ، اس کا کوئی نہ کوئی ھدف ضرور ھوتا ھے تو ھمیں یہ معلوم کرنا چاھئے کہ ھدف کے معنی کیا ھیں ؟
جب ھم غور کریں گے تو ھدف کے تین قابل تصور معانی ھمارے سامنے آئیں گے :
۱۔ فائدہ حاصل کرنا اور نقصان کا سد باب ۔ انسان کی کچھ حاجات اور ضروریات ھوتی ھیں ، اس کی یھی ضروریات اور کمزوریاں مختلف کام انجام دینے کی محرک بنتی ھیں ۔ وہ خطرات سے دور رھنے کے لئے کچھ اقدامات پر مجبور ھوتا ھے ۔ یہ وہ بھت سے محرکات اور ھدف ھیں جو عام طور پر ۰انسانی زندگی کا احاطہ کئے رھتے ھیں ۔
۲۔ ممکن ھے کسی کام کے انجام دینے کی پھلی غرض دوسروں کو نفع پھنچانا ھو ، لیکن در حقیقت اس کام کا مقصد خود انسان کی اپنی معنوی تکمیل اور اپنا روحانی سکون ھو ۔
اس صورت میں بھی اصل مقصد اپنی ذات کے لئے نفع حاصل کرنا اور نقصان و ضرر سے خود کو محفوظ کرنا ھوتا ھے دوسروں کو فائدہ پھنچانا در اصل اس مقصد اور ھدف کے حصول کا ایک ذریعہ ھوتا ھے ۔
بھت سے کام جو انسان بظاھر دوسروں کے نفع کے لئے اور اپنا فائدہ پیش نظر رکھے بغیر انجام دیتا ھے وہ در اصل اسی قسم کے کام ھوتے ھیں ۔ ایک دولت مند آدمی ،محتاجوں کی مدد کرتا ھے اور بظاھر اس میں اس کا اپنا کوئی فائدہ نظر نھیں آتا ، لیکن فی الواقع وہ اپنے اس رنج کو دور کرتا ھے ۔ جو محتاجوں کی تکلیف کو دیکہ کر اسے پھنچتا ھے ۔ اس طرح وہ ایک طرح کا روحانی سکون حاصل کرتا ھے یا اپنی باطنی تکمیل کے لئے یا پھر اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب حاصل کرنے کے لئے وہ محتاجوں کی مدد کرتا ھے ۔
اسی طرح ایک باپ اپنے فرزندوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے تکلیفیں برداشت کرتا ھے اور کھتا ھے کہ یہ کام میں اپنے کسی نفع کے لئے نھیں کر رھا ھوں ۔ حقیقت میں اس کا ھدف ایک مثالی فرزند کا باپ کھلانا ھوتا ھے کیونکہ وہ جانتا ھے کہ اچھے اور نیک فرزند کا باپ ھونا ایک اعزاز اور اعلیٰ افتخار ھے ۔
ظاھر ھے کہ انسان کا ھدف اپنی ذات کی تکمیل ھوتا ھے لیکن اس ھدف کو حاصل کرنے کے لئے وہ دوسروں کی تکمیل کے لئے کام کرتا ھے ۔
یہ خیال نھیں کرنا چاھئے کہ ھر شخص اچھے کام کسی مقصد کے پیش نظر انجام دیتا ھے اور یہ امید رکھتا ھے کہ اس کے اچھے کاموں کا کچھ نہ کچھ فائدہ لوٹ کر اس کی ذات کو پھنچے گا ، اس لئے اچھے کاموں کی کوئی قدر و قیمت نھیں ھے ھمیں اس انداز سے نھیں سوچنا چاھئے ۔ ھر چند کہ انسان اپنے شخصی فائدے کے لئے نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کرتا ھے اور برے و نا پسند یدہ کاموں سے احتراز کرتا ھے اور دوسروں کے فائدے میں اپنا نفع تلاش کرتا ھے ۔ یہ بات خود بڑی اچھی اور قابل قدر ھے کیونکہ اس طرح وہ اپنی تکمیل کی راہ اختیار کرتا ھے ۔
۳۔ بعض کام کرنے والے ایسے ھوتے ھیں جن کے پیش نظر اپنا کوئی مفاد نھیں ھوتا وہ صرف اور صرف دوسروں کی خاطر اور انھیں نفع پھنچانے کے لئے کام کرتے ھیں ۔
جیسے ایک ماں جسے اپنی پرواہ نھیں ھوتی ،اسے صرف اپنے فرزند سے محبت ھوتی ھے ۔ وہ ایک پروانے کی طرح شمع کے گرد چکر لگاتی رھتی ھے ۔ اور خود کو جلا دیتی ھے ۔ وہ اپنے فائدے کو نھیں دیکھتی ۔ یہ بھی ایک کیفیت ھوتی ھے ۔
جو بندہ اللہ تعالیٰ کا فریفتہ و شیفتہ ھوتا ھے وہ اپنے معبود کی بندگی اور عبادت میں ایسا مصروف ھوتا ھے کہ اسے اپنا ھوش نھیں رھتا ۔ جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی (ع) اللہ تعالیٰ کی پرستش اس لئے نھیں کرتے تھے کہ اس میں ان کا فائدہ تھا بلکہ اس لئے کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ عبادت و پرستش کا سزاوارھے ۔ اسی لئے وہ اس کی عبادت و پرستش کرتے تھے ۔ ھدف اس طرح کے بھی ھوتے ھیں ۔
اب ھم زیر بحث سوال کا جواب دیتے ھیں :
جب ھم نے اللہ تعالیٰ کو اس طرح پھچان لیا اور جان لیا کہ وہ ایک ایسا وجود ھے جو ھر پھلو سے بے نھایت ھے اور غیر محدود ھے اور اس کی ذات میں کسی طرح کا نقص اور کمی نھیں ھے تواس سے یہ بات از خود ظاھر ھو جاتی ھے کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں کا ھدف صرف وھی ھے جس کا ذکر ھم نے تیسرے معنیٰ کے ضمن میں کیا ھے ۔ جس سے مراد اپنی مخلوق کو فائدہ پھنچانا اور ا ن کو ھر اعتبار سے ( روحانی ، جسمانی ، مادی اور معنوی ) کامل بنانا ھے ، ان کی خامیوں کو دور کرنا اور ان کی حاجتوں کو پورا کرنا ھے ۔
دو سرے لفظوں میں یہ خدا ھے جو ھر وقت کھتا ھے :
من نہ کردم خلق تا سودی کنم بلکہ تا بر بندگان جودی کنم
” میں نے اس لئے خلق نھیں کیا کہ فائدہ حاصل کروں بلکہ میرا مقصد بندوں پر کرم کرنا ھے “ ۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اور انسان کو اس لئے پیدا نھیں کیا کہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنی حاجتوں میں سے کسی حاجت کو پورا کرے ۔ اس لئے کہ اس کی ذات بے نیاز ھے ۔ اسے کسی چیز کی حاجت نھیں ۔
اس نے کائنات کو اس لئے پیدا نھیں کیا کہ اس طرح اپنی کس خامی کو دور کرے ، اس لئے کہ وہ بے عیب اور بے نقص ھے ۔ ھمیں ھرگز اس کی ذات کو اپنے جیسا نھیں سمجھنا چاھئے کیونکہ ھم سراپا محدود اور حاجتمندھیں ۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا ھے تاکہ وہ منزل کمال کی طرف گامزن رھے اور ھر لمحے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کو بروئے کارلائے اور ترقی و کمال کی آخری حد تک پھنچنے کی جد و جھد کرے ۔
اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے وجود بخشا ھے کہ انسان اپنی ضروریات اور حاجتوں کو پورا کرنے اور ترقی و تکمیل کی منزلیں طے کرنے کے لئے اس کے وسائل سے فائدہ اٹھائے ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ، اوراسے قوت ارادہ عطا فرمائی تاکہ وہ اپنی پسند اور اپنے اختیار سے راہ کمال طے کرنے کی کوشش کرے اور اپنی خامیوں سے نجات حاصل کرے ۔
یہ کھا جا سکتا ھے کہ دنیا اور انسان کی تخلیق کا ھدف ، کائنات کی غیر شعوری اور جبری تکمیل اور انسان کی ارادی اور اس کی خود پسندتکمیل ھے ۔
خالق کائنات کا ھدف اس کی اس تخلیق سے بجز اس کے اور کچھ نھیں ھے کہ وہ انسان کی خاطر تمام موجودات کی تکمیل چاھتا ھے ۔
قرآن کریم اور اسلامی روایات نے اس حقیقت کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ھے ۔
قرآن کریم کا ارشاد ھے :
” افحسبتم انما خلقناکم عبثا و انکم الینا لا ترجعون “ (سورہ مومنون / ۱۱۵)
” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ھے کہ ھم نے تمھیں عبث اور بے ھودہ پیدا کیا ھے اور یہ کہ تم ھماری طرف نھیں لوٹائے جاؤ گے ۔ ( کیا تم یہ خیال کرتے ھو کہ اپنی تکمیل کے سفر کو ایک حقیقت مطلقہ کی طرف جاری نھیں رکھو گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے نھیں جاؤ گے ۔)
نیز ارشاد ھوا :
” و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون “ ( سورہ ذاریات / ۵۴) جن اور انس کو ھم نے سوائے بندگی کے کسی اور مقصد کے لئے پیدا نھیں کیا ۔ ( تاکہ وہ خدا شناسی کے راستوں پر چلیں اور کمال انسانیت کی منزل پر پھنچیں )
یہ بات توجہ طلب ھے کہ اس آیت اور دوسری آیات قرآنی اور روایات میں عبادت کا جو ذکر آیا ھے اس کا مقصد کچھ مخصوص قسم کے مذھبی مراسم اور طریقے نھیں ھیں ۔ عبادت اور بندگی سے مراد خدا کا مطیع اور فرمانبردار ھو جانا اور خود کو بالکل اس کے سپرد کر دینا ھے اور ان احکام کی اطاعت کرنا ھے جو فرد اور معاشرہ کی روحانی اور جسمانی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے دئے ھیں ۔
ایک اور روایت میں آیا ھے :
” ما خلق العباد الا لیعرفوہ “ ( تفسیر نور الثقلین ج / ۵ ص / ۱۳۲ ) بندوں کی تخلیق اس لئے ھوئی ھے کہ وہ خدا کو پھچانیں ۔
یہ اور ایسی ھی دوسری اسلامی روایات اسی معنی اور مفھوم کی حامل ھیں کہ تخلیق کائنات کا ھدف اس دنیا اور بعد کی دنیا میں انسان کی ھمہ جھت تکمیل ھے ۔
ایک حدیث کے مطابق :
” ما خلقتم للفناء بل خلقتم للبقاء “ ( رسول گرامی اسلام ” تمھیں نیست و نابود کرنے کے لئے نھیں پیدا کیا گیا بلکہ تمھیں پیدا کرنے کا مقصد ایک ھمیشہ کی زندگی عطا کرنا ھے ۔“
تخلیق کا ھدف انسان کو کمال کے انتھائی درجے پر پھنچانا اور ایک حیات جاوداں بخشنا ھے ۔
اگر فلاسفہ اسلام نے یہ کھا ھے : ” اللہ تعالیٰ کے کام کسی غرض اور ھدف کے بغیر انجام پاتے ھیں یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق خدا کی غرض اور ھدف خود خدا ھی ھوتا ھے “۔
تو اس بیان سے ان کا مقصد یہ ھے کہ کائنات اور انسان کی تخلیق سے اللہ تعالیٰ کا مقصد کوئی نفع حاصل کرنا یا کسی نقصان اور ضرر سے خود کو محفوظ کرنا نھیں رھا ھے اور نہ ھے ۔ بلکہ دنیا اور انسان کی خلقت کا نتیجہ جیسا کہ ھم نے کھا ھے ، کائنات کی جبری تکمیل لیکن انسان کی ارادی و اختیاری تکمیل ھے ۔
کبھی لوگ پوچھتے ھیں کہ :
کیا اللہ تعالیٰ انسان کی عبادت کا محتاج ھے کہ اس نے اسے عبادت کے لئے پیدا کیا ھے ؟
ھم نے اب تک جو کچھ کھا ھے اس میں اس سوال کا جواب بھی موجود ھے ۔ ھم یہ جان چکے ھیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اور انسان کو منزل کمال تک پھنچنے کے لئے پیدا کیا ھے ۔
اور اس منزل کا راستہ بندگی و اطاعت کا راستہ ھے ۔ اس لئے یہ کھنا درست ھو گا کہ :
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادت اور ھمہ جھت ارتقاء اور تکمیل کے لئے پیدا کیا ھے ۔ یہ بات ظاھر ھے کہ انسان کی عبادت کا نفع اور فائدہ خود اسی کو پھنچتا ھے اور اللہ تعالیٰ انسان کی عبادت کا محتاج نھیں ھے ۔
” ان اللہ لغنی عن العٰلمین “ ( سورہ عنکبوت / ۶)
” اللہ تعالیٰ تمام موجودات سے بے نیاز ھے “ ۔
لوگ یہ بھی سوال کرتے ھیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پوری طرح کامل کیوں نھیں پیدا کیا ؟
اس کا جواب یہ ھے :
کمال حقیقت میں اسی کمال کو کھا جا سکتا ھے اور وھی کمال جزا کا اور تعریف کا مستحق ھو سکتا ھے جسے انسان نے اپنے ارادے سے اور اپنی آزادی و اختیار کو کام میں لا کر حاصل کیا ھو ۔
اگر کسی شخص کو بغیر اس کے مانگے کوئی دولت دے دی جائے اور پھر اس کی خواھش کے بغیر اس سے واپس لے لی جائے اور اس دولت سے شفا خانے اور مسافر خانے تعمیر کئے جائیں تو یہ سارا کام اس کے فضل و کمال کا حصہ نھیں بنے گا اگر چہ یہ کام معاشرہ کے لئے سود مند ثابت ھوا ھے ۔
اگر انسان کو اللہ تعالیٰ ایک کامل انسان کے طور پر پیدا کرتا تو انسان ھر گز اجر و تعریف کا مستحق قرار نہ پاتا ۔
قرآن کھتا ھے :
” انا ھدینٰہ السبیل اما شاکرا و اما کفورا “ ( سورہ دھر / ۳ )
ھم نے انسان کو نیکی اور بدی کی راھیں دکھا دیں تاکہ وہ شکر گزار بنے اور فضیلت روحانی اور کمال انسانی حاصل کرے یا پھر یہ کہ وہ نا شکرا بن جائے اور درجھٴ کمال سے دور رھے ۔
قضا ، قدر ، جبر
سوال مادہ پرست اور اسلام کے مخالفین یہ سمجھتے ھیں کہ قضا و قدر پر اعتقاد کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ انسان خود کو مجبور اور بے بس سمجھنے لگتا ھے اور ایجاد و اختراع اور تعمیر و ترقی کے کاموں میں اپنے کردار کو فراموش کر بیٹھتا ھے اور تقدیر کے فیصلوں کا انتظار کرتا رھتا ھے ۔
اسی بات کو بنیاد بنا کر اسلام کو ایک جبری آئین و قانون کے طور پر پیش کیا جا تا ھے اور اسے اختیار و آزادی کا مخالف قرار دیا جا تا ھے ۔
کیا قضا و قدر کے یھی معنی ھیں جو لوگوں نے سمجھ رکھے ھیں ، کیا انسان کو اپنی قسمت کے بنانے میں کوئی دخل نھیں ھے ؟
جواب قضا و قدر اور جبر و اختیار کے درمیان کیا تعلق، ھے اسے ظاھر کرنے کے لئے ھم پھلے قضا و قدر کے معنی پھر جبر کے مفھوم اور ان دونوں کے درمیان تعلق کی وضاحت کریں گے ۔
۱۔قدر کے معنی ۔اندازہ ، اندازہ لگانے اور کسی چیز کی مقدار اور اس کی حدمعین کرنے کے ھیں اور اس کے اصطلاحی معنی یہ ھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ھر چیز کا ایک اندازہ مقرر فرمایا ھے اور اسے ایک تخمینے ، حساب اور مقدار کی بنیاد پر پیدا کیا ھے ۔
۲۔ قضا کے معنی حکم ، اور قطعیت و حتمیت کے ھیں ۔ تخلیق، پیدائش اور بھت سی چیزوں کے وجود پانے میں کئی طرح سے قضا کا دخل ھوتا ھے ۔
اگر ممکنہ ذرائع سے کسی چیز کی پیدائش کے اسباب فراھم ھو جائیں اور پھر اس چیز کا وجود میں آنا یقینی اور سچ ثابت ھو جائے تو اس سچ ثابت ھونے کے مرحلے کو قضا کھا جا تا ھے ۔
۳۔ جبر : دینی اور قانونی اصطلاحات میں جبر کے معنی یہ ھیں کہ انسان اپنے کاموں کی انجام دھی میں کسی طرح کا اختیار نہ رکھتا ھو ۔
اسی بنا پر قضا و قدر کے وسیع معنی کا اطلاق انسان اور غیر انسان تمام ھی موجودات پر ھوتا ھے ۔
علت و معلول کا نظام
بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے ھر چیز کے لئے کچھ اسباب اور علتیں پیدا کی ھیں اور یہ چیزیں اپنے وجود اور اپنی پھچان کو زندہ اور باقی رکھنے کے لئے ان اسباب اور علتوں سے وابستہ رھتی ھیں ۔
ایسا نھیں ھے کہ جو چیز بھی دنیا میں پیدا ھوتی ھے وہ اپنے ما قبل اور ما بعد سے تعلق رکھے بغیر اتفاقی طور پر پیدا ھوتی ھے یا اس کی مقدار یا تعداد بے حساب اور بے اندازہ ھوتی ھے ۔
مثلاً :
بارش یا برفباری ھوتی ھے تو اس کے پیچھے ضروری عوامل کا ایک پورا سلسلہ کام کرتا ھے اور اسی کی بنا پر ایک خاص علاقے میں بارش اور برف باری ھوتی ھے ۔ ظاھر ھے اسباب اور علتوں کے بغیر یہ کام انجام نھیں پا سکتا ۔
اسی طرح انسانوں کے کام محض کسی اتفاق اور حادثے کی بنا پر خود ان ھی کے ھاتھوں انجام نھیں پاتے بلکہ ایک سلسلہ ٴ عوامل کے تحت انجام پاتے ھیں پھلے انسان کسی کام کے بارے میں سوچتا ھے ۔پھریہ طے کرتا ھے کہ یہ کام اس کے لئے فائدہ مند ھو گا یا نھیں ۔ جب اسے کام کے مفید ھونے کا یقین ھو جاتا ھے تو پھر وہ اسے انجام دینے کی کوشش کرتا ھے ۔
اس سے یہ بات ثابت ھوئی کہ دنیا میں رو نما ھونے والا ھر واقعہ کسی نہ کسی سبب اور علت کی بنا پر رو نما ھوتا ھے ۔ اسباب و علل کا یہ ایک ایسا نظام ھے جس میں کوئی تبدیلی نھیں ھوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو ایسا ھی بنایا ھے ۔
واضح ھے کہ یہ عقیدہ آزادی اور اختیار کے اصول کے منافی نھیں ھے۔ کیونکہ خود اختیار اور آزادی دنیا کے اسباب و علل ھی کا ایک حصہ ھے ۔ انسان اس آزادی سے فائدہ اٹھا کر اپنی توانائی کے مطابق کام انجام دیتا ھے اور اگر نھیں چاھتا تو انجام نھیں دیتا ۔
اب ھم سطور ذیل میں اس بحث کی مکمل وضاحت کرینگے :
دنیا میںجو بھی واقعات رونما ھوتے ھیں انھیں تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے :
۱۔ ایک نظریے کے مطابق دنیا کے موجودہ حوادث اور واقعات کا ماضی سے کوئی رشتہ نھیں ۔ اس دنیا میں جو بھی واقعہ خواہ وہ کسی دور میں واقع ھوا ھو ، اس کا پچھلے امور سے کوئی تعلق نھیں ، اس کا ظھور سابقہ امور سے مربوط نھیں ھے ۔ نہ اس کی خصوصیات اور شکل و صورت اور مقدار و پیمائش کا ماضی کی چیزوں سے کوئی رابطہ ھے ۔
اس مفروضے کے مطابق کسی بھی چیز کی قسمت و سر نوشت پھلے سے نھیں لکھی گئی ۔ اس لئے واقعات اور چیزوں کے اصل سبب اور علت کا یکسر انکار ضروری قرار پاتا ھے اور یہ ماننا بھی ضروری قرار پاتا ھے کہ تمام رونما ھونے والے واقعات کسی اندازے اور حساب کے بغیر اتفاقاً رونما ھو گئے ھیں جبکہ اسباب و علل کا قانون ایک عام قانون ھے اور ھر حادثہ حتمی اور قطعی صورت اس وقت اختیار کرتا ھے اور اس وقت ظھور میں آتا ھے جبکہ وہ پچھلے واقعات سے مربوط ھو ۔
مختصر یہ کہ واقعات کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ حتمی اور ضروری ھے ۔ اس بات سے انکار نھیں کیا جا سکتا کہ تمام واقعات کی کڑیاں اپنے ما قبل اور ما بعد واقعات سے جڑی ھوتی ھیں ۔
۲۔ دوسرا مفروضہ یہ ھے کہ ھم ھر رونما ھونے والے حادثے اور واقعے کے لئے ایک علت و سبب کے قائل ھو جائیں لیکن اس بات کو تسلیم نہ کریں کہ اسباب اور مسببات کا ایک پورا نظام موجود اور کار فرما ھے ۔ اور یہ خیال کر لیں کہ دنیا میں ایک سبب اور ایک فاعل سے زیادہ کا وجود نھیں ھے اور وہ فاعل ، ذات خدا وندی ھے ۔ تمام واقعات اور چیزیں بغیر کسی واسطے کے براہ راست اسی کے ذریعہ ظھور میں آتی ھیں اور خدا کے سوا کوئی عامل موجود نھیں ھے اور ھم یہ کھیں کہ اللہ تعالیٰ نے روز ازل ھی جان لیا تھا کہ دنیا میں فلاں حادثہ فلاں وقت ظھور میں آئے گا اس لئے جبراً و قھراً واقعہ اسی وقت رونما ھو جاتا ھے اور اس حادثے کے ظھور میں کسی اور چیز کا عمل دخل نھیں ھوتا ۔ انسان کے افعال اور اعمال بھی اسی طرح کے حوادث میں سے ایک ھیں ۔ جو اختیار کے بغیر وجود میں آ جاتے ھیں ۔ اور خود انسان ان کاموں میں مداخلت کی طاقت نھیں رکھتا ۔ یہ تو صرف ایک ظاھری اور خیالی پردہ ھے جو ھمیں دکھائی دیتا ھے ۔
یہ نظریہ بھی دو وجوہ سے نا قابل قبول ھے :
۱۔ایک تو یہ کہ اسباب اور مسببات کا نظام اورواقعات کے درمیان علت و معلول کا رابطہ نا قابل انکار ھے ۔ اس لئے کہ تمام علوم طبعی اور حسّی و تجربی مشاھدات کی بنیاد یھی اسباب و مسببات کا نظام ھے ۔ اور سائنس دان اسی کی مدد سے ایجادات و اختراعات کرنے کے قابل ھوئے ھیں ۔
۲۔ دوسری یہ کہ انسان آزاد اور خود مختار پیدا ھوا ھے۔ یعنی اسے عقل ، فکر اور ارادہ دیا گیا ھے ۔ اپنے ارادہ و اختیار کے کاموں میں انسان کوئی ایسا پتھر نھیں ھے کہ جسے اوپر سے نیچے پھینکا جائے تو وہ زمین کی قوت جاذبہ کے تحت چار و نا چار زمین پر پھنچ کر رھے گا ۔ اور انسان کی حیثیت گھاس کی بھی نھیں ھے کہ جس کے سامنے صرف ایک محدود راستہ ھو اور جو نشو ونما کے حالات میسر آتے ھی زمین سے غذا حاصل کرنا شروع کر دیتی ھے اور سر سبز ھو جاتی ھے ۔ اوراسی طرح انسان کوئی جانور بھی نھیں ھے جو اپنی جبلت کی بنا پر کام انجام دیتا ھو ۔
انسان جب کسی چوراھے پر پھنچتا ھے تو وہ کسی ایک ھی راستے کے انتخاب کرنے پر مجبور نھیں ھوتا ۔ اس پر دوسرے راستے بند نھیں کر دیے جاتے ، وہ چار راستوں میں سے اپنی نظر و فکر سے کام لے کر کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کے لئے آزاد ھوتا ھے ۔
آگ جو جلا دیتی ھے اور پانی جو غرق کر دیتا ھے اور گھاس جو اگتی ھے ، ان کے اور انسانوں کے درمیان فرق یھی ھے کہ ان میں سے کسی کے بھی خواص اور فرائض اپنے منتخب کردہ نھیں ھیں جبکہ اس کے بر عکس انسان کے سامنے چند کام اور چند راھیں موجود ھوتی ھیں ان میں سے کسی ایک کام یا راستہ کو وہ اپنی خواھش اور مرضی کے مطابق منتخب کر سکتا ھے ۔
جبر کا یہ دوسرا نظریہ بھی درست نھیں ھے ۔
۳۔ تیسرا نظریہ یہ ھے کہ ھم علت اور سبب کے اصول کو تسلیم کر لیں ۔ کیونکہ نظام عالم اور اس میں رو نما ھونے والے تمام واقعات ، حتی کہ انسانی افعال و اعمال سب علت و معلول کے درمیان رابطے کی بنیاد پر استوار ھیں اور انسان کے ارادہ و اختیار کی طاقت ان امورمیں موٴثر ھے جنھیں انسان انجام دیتا ھے ۔انسان کی قسمت اس نظام سے وابستہ ھوتی ھے جسے وہ خود وجود میں لاتا ھے ۔ ھر شخص کا اچھا یا برا مستقبل ، اس کی شخصیت اس کی روحانی صفات ، اس کی اخلاقی صلاحیتوں اور عملی قوت سے وابستگی رکھتا ھے اور بالآخر وہ اپنے لئے جس راستے کو بھی منتخب کرتا ھے وہ اسی راستے پر ڈال دیا جاتا ھے ۔
انسان ایسے کسی بھی کام کو ترک کرنے کی قدرت رکھتا ھے جس کا انجام دینا مصلحت اندیشی کے خلاف ھو جبکہ اس کام کے انجام دینے میں نہ کوئی رکاوٹ حائل ھوتی ھے اور نہ وہ کام اس کی طبیعت و خواھش کے خلاف ھوتا ھے ۔ اسی طرح وہ ایسے کسی بھی کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ھے جو مصلحت اندیشی اور عقل کی رو سے درست ھو جبکہ وہ کام اس کی اپنی خواھش نفسانی کے خلاف ھوتا ھے اور جس کے انجام دینے میں کوئی خارجی رکاوٹ بھی در پیش نھیں ھوتی ۔ در اصل انسان کو ایک طرح کی آزادی حاصل ھے اور وہ کسی بھی کام کو اپنی عقل و ارادہ کی مدد سے انجام دے سکتا ھے یا اسے ترک کر سکتا ھے ۔ اور کوئی عامل اس کی خواھش اور رغبت کے خلاف اسے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نھیں کرتا ۔
یہ نظریہ ( تیسرا نظریہ ) تمام بڑے بڑے پیغمبروں ، آسمانی کتابوں، مسلمان فلاسفہ اور دانشوران اسلام نے پیش کیا ھے اور مسلمانوں نے اسی عقیدے کو قبول کیا ھے ۔
اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ھے کہ انسان اپنے کام، ارادہ و اختیار کے ساتھ انجام دے ، نہ یہ کہ تقدیر اسے اچھے یا برے کاموں میں سے کسی ایک طرح کے کام انجام دینے پر مجبور کرے ، باوجودیکہ علت و معلول کا نظام اس دنیا پر حکمراں ھے ۔ انسان کے کام کسی جبر کے تحت انجام نھیں پاتے ۔
یہ بات ظاھر ھے کہ قضا و قدر جس میں آزادی اور اختیار کو بھی جگہ دی گئی ھے ترقی اور عروج کی راہ میں حائل نھیں ھے اور انسان کے ھاتہ پاؤں نھیں باندہ دیتی ۔ وہ اپنی آزادی اور حریت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے جس طرح کا بھی کام چاھے انجام دے سکتا ھے اور اپنی ترقی کے لئے کوشش کر سکتا ھے ۔
انسان جس جانب بھی رخ کرتا ھے اس کی قضا و قدر وھاں موجود ھوتی ھے جسے وہ خود اپنے ھاتہ سے منتخب کرتا ھے ۔
انسان صرف ایک طرح کی تقدیر نھیں رکھتا بلکہ گوناگوں تقدیر یں رکھتا ھے جن میں سے کوئی بھی تقدیر دوسری کی جگہ لے سکتی ھے ۔
مثلاً:
اگر کوئی شخص بیمار ھوتا ھے اور علاج کراتا ھے اور صحت مند ھو جاتا ھے تو یہ قضا و قدر کے عین مطابق ھے ۔
اور اگر وہ علاج نھیں کراتا ، بیمار رھتا ھے اور پھر مر جاتا ھے تو یہ بھی قضا و قدر کے مطابق ھوتا ھے ۔
حضرت علی ( ع) ایک ٹیڑھی دیوار کے نیچے سے اٹہ کر ایک دوسری دیوار کے سائے میں بیٹہ گئے ۔ لوگوں نے کھا :
” امیر المومنین (ع) ! کیا آپ قضائے الٰھی سے فرار اختیار کرتے ھیں ؟“
آپ نے جواب دیا :
” میں نے خدا کی قضا سے اس کی قدر کی جانب اور دوسری قضا کی طرف فرار اختیار کی ھے ۔
آخر کار انسان جس جانب بھی قدم اٹھاتا ھے اسے ایک طرح کی اختیاری قسمت اور قضا و قدر سے واسطہ پڑتا ھے اور یہ چیز علت و معلول کے عمومی قانون کے تحت ھوتی ھے اور قضا و قدر پر عقیدہ انسان کو عمل اور کوشش سے باز نھیں رکھتا ۔
اسلام کے دور اول میں مسلمان قضا و قدر پر راسخ اعتقاد رکھتے تھے ۔ انھوں نے تقدیر کے بارے میں یھی تعلیم حاصل کی تھی ۔
وہ قضا و قدر کو اپنے کاموں پر اختیار کے منافی نھیں سمجھتے تھے ۔تقدیر پر ان کے پختہ یقین نے کبھی انھیں جبر کی طرف نھیں ڈھکیلا اور انھیں بے حسی کے ساتھ خود کو تقدیر کے حوالے کر دینے والا نھیں بنایا ۔ انھوں نے اس دور میں جھاں تک ممکن ھو سکا بے مثال ترقی کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔
قضا و قدر کی حدود
دنیا کے کار و بار پر اثر انداز ھونے والے عوامل جو مجموعی طور پر اسباب و علل کے نظام کو وجود میں لاتے ھیں اور جو قضا و قدر کے مظاھر میں شمار کئے جاتے ھیں ، وہ صرف مادی امورتک منحصر اور محدود نھیں ھیں معنوی امور کا بھی ایک سلسلہ موجود ھے جو انسان کی تقدیر کے بدلنے میں موثر ثابت ھوتا ھے ۔ انسان کا چال چلن اور کردار بھی شمار میں آتا ھے اور اپنا ایک رد عمل ظاھر کرتا ھے ۔
جودنیا کی کسوٹی پر اچھا اور برا یکساں نھیں ھوتا ۔
مثلاً:
کسی جاندار کو خواہ وہ حیوان ھو یا انسان اذیت دینا ، خصوصاً ان لوگوں کو جن کے کچھ حقوق عائد ھوتے ھیں ، جیسے ماں ، باپ اور استاد ، اسی دنیا میں اپنے برے نتائج سامنے لے آتا ھے ۔ اسی طرح ان لوگوں کا احترام انسان کی زندگی اور اس کی خوش نصیبی پر اثر انداز ھوتا ھے ۔
دعا بھی اس دنیا میں باطنی اسباب میں سے ایک ھے جو کسی بھی واقعہ کے انجام پر اثر انداز ھو سکتی ھے ۔
اچھے کام ، نیکیاں اور بحیثیت مجموعی گناہ ، سر کشی یا اطاعت ، توبہ یا کسی کی پردہ دری ، انصاف یا ظلم ، نیکوکاری یا بد کاری ، دعا یا لعنت ایسی ھی دوسری چیزیں ھیں جو انسان کی تقدیر ، اس کی عمر ، سلامتی اور روزی پر اچھے یا برے اثرات ڈالتی ھیں ۔
وہ لوگ جن کا نقطھٴ نظر دوسرا ھے بعض حقائق کی توجیہ میں ھم سے اختلاف کر سکتے ھیں ۔مثلا جس چیز کو ھم موت کا سبب قرار دیں ممکن ھے وہ اپنے علم کی بنا پر اسے موت کی علت نہ سمجھیں ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ھے :
” وہ لوگ جو گناھوں کی وجہ سے مرتے ھیں ان کی تعداد ان مرنے والوں سے زیادہ ھے جو مھلت عمر کے ختم ھو جانے کی بنا پر اس دنیا سے رخصت ھوتے ھیں اور ان لوگوں کی تعداد جن کی عمر ان کی نیکوکاری کی وجہ سے دراز کی جاتی ھے اپنی طبعی اور اصلی عمر کے ساتھ زندہ رھنے والوں سے زیادہ ھے ۔“
اب جبکہ بات واضح ھو چکی ھے ، قضا و قدر پر اعتقاد کا مطلب یہ نھیں ھے کہ لازماً جبر پر بھی یقین رکھا جائے ۔
اب ھم جبر پر اعتقاد کے غلط ھونے کو ثابت کریں گے ۔
۱۔ ذمہ دار یا مکلف ھونا ۔
ھر دینی اور اخلاقی مکتب کی بنیاد ، فرض اور ذمہ داری ھے جو جبر کے ساتھ کوئی مطابقت نھیں رکھتی ۔ اگر لوگ اپنے کاموں کی انجام دھی پر مجبور ھوں تو پھر امر و نھی ، بدلے اور سزا، جنت و دوزخ ، سب بے معنی ھو کر رہ جاتے ھیں ۔ جب کسی کو کسی کام سے باز رھنے کا اختیار نھیں تو اس سے یہ کھنا کہ اس کام سے باز آجاؤ ، فضول ھو گا ۔ جب آپ ایک عاقل انسان سے ایسی بات کی توقع نھیں کرتے تو پھر خداوند حکیم سے کس طرح توقع رکہ سکتے ھیں ۔
مکلف ھونے کا مسئلہ ھی اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ اسلام اور تمام آسمانی مذاھب میں سے کوئی بھی جبری آئین و قانون نھیں رکھتا ۔
۲۔ ھم سب وجدانی طور پر یہ جانتے ھیں کہ ھم کاموں کے انجام دینے میں مشین کی طرح نھیں ھیں کہ اختیار و ارادہ کے بغیر ھم سے کام سرزد ھو رھے ھوں ۔ ھم اس بات کو پوری طرح محسوس کرتے ھیں کہ تمام کام ھم آزادی اور اختیار کے ساتھ اور اپنی مرضی سے انجام دیتے ھیں ۔ اسی لئے جس کسی شخص کے حقوق کو پائمال کیا جاتا ھے ، ھم اسے حق دیتے ھیں کہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کرے ۔
اگر انسان اپنے کاموں میں مجبور ھوتا تو اس صورت میں اس شخص کو جس کا حق پائمال کیا گیا ھے یہ حق حاصل نہ ھوتا کہ وہ اعتراض کرے اور غاصب کو عدالت میں کھینچے ۔
۳۔اس سلسلے میں ھم نے جو کچھ لکھا ھے اس کے علاوہ قرآن کریم کی بھت سی آیتیں ، انسانی آزادی و اختیار کے اصول کی تصریح کرتی ھیں اور واضح طور پر یہ بتاتی ھیں کہ اپنی نجات اور گمراھی ، سعادت و بد بختی ، ترقی اور پسماندگی میں خود انسان کے اپنے عمل و اختیار کو بڑا دخل حاصل ھے ۔
مثلاً مندرجہ ذیل آیات :
” ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس “ ( سورھٴ روم / ۴۱) ” لوگوں نے جو اعمال کئے ھیں ان کی بنا پر بر و بحر میں فساد پھوٹ پڑا ھے “۔
” انا ھدینٰہ السبیل امّا شاکراً و امّا کفورا “ ( سورھٴ دھر / ۳ ) ” ھم انسان کی راہ ( راست ) کی جانب رھنمائی کرتے ھیں تاکہ دیکھیں وہ کون سی راہ اختیار کرتا ھے ، آیا وہ ھماری رھنمائی قبول کرتا ھے اور شکر ادا کرتا ھے ( امّا شاکراً) یا رو گردانی اختیار کر کے نا شکر گزار بن جاتا ھے ( و امّا کفورا )
” فامّا ثمود فھدیناھم فاستحبّواالعصی عملی الھدیٰ “ ( سورھٴ فصلت /۱۷) ” ھم نے ملت ثمود کی رھنمائی کی لیکن اس نے ھدایت کو چھوڑ کر گمراھی کو پسند کیا ۔
” لیس للانسان الّا ما سعیٰ “ ( سورھٴ نجم / ۳۹) ” انسان کے لئے خود اس کی سعی اور کوشش کے سوا اور کچھ نھیں ھے ۔
مندرجہ بالا آیات اور ایسی ھی دوسری آیات سے معلوم ھوتا ھے کہ جو شخص بھی اسلام کو ایک جبری آئین و قانون کے طور پر پیش کرتا ھے و ہ در اصل غلط فھمی کا شکار ھے ۔ اور اس نے قضا و قدر کے معنی نھیں سمجھے ھیں یا پھر وہ اسلام کے مخالفین کی طرح اس طریقے سے نا جائز فائدہ اٹھانا چاھتا ھے اور اپنے اس الزام کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ایسی قوم کے طور پر متعارف کرانا چاھتا ھے جو ترقی کرنے کی صلاحیت نھیں رکھتی اور پسماندگی میں پڑی رھنا چاھتی ھے ۔
اختیار پر عقیدے کا فائدہ
جو شخص اس بات پر ایمان رکھتا ھے کہ :
اسے اپنی قسمت پر کوئی اختیار نھیں ھے اور اس کی حیثیت محض ایک تنکے کی سی ھے جو تیز ھوا کے جھونکوں کے ساتھ ادھر اُدھر اڑتا رھتا ھے اس کے عقیدے میں اور ایک ایسے شخص کے عقیدے میں بنیادی اختلاف ھے ، جو خود کو اپنی قسمت کا آپ بنانے والا اور بگاڑنے والا سمجھتا ھے اور یہ یقین رکھتا ھے کہ اسے آزاد پیدا کیا گیا ھے ۔
پھلا عقیدہ رکھنے والا شخص اپنی کوششوں اور محنتوں کی قدر و قیمت کا قائل نھیں ھوتا اور راستے میں پیش آنے والی ھر چیز کے مقابلے میں سر تسلیم خم کرنے کے سوا اس سے کوئی دوسری راہ سجھائی نھیں دیتی ۔
ایسا شخص ھمیشہ اپنی نفسانی خواھشات اور اپنی شھوتوں کے ھاتھوں گرفتار رھتا ھے اور زندگی میں کوئی کامیابی حاصل نھیں کرسکتا ۔ وہ اپنی نفسانی خواھشتا اور در پیش مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ھمت نھیں رکھتا اور اپنے اس عقیدے کے ساتھ زندہ رھتے ھوئے روز بروز اپنی بد بختی میں اضافہ کرتا چلا جاتا ھے ۔
البتہ دوسرا شخص جو یہ عقیدہ رکھتا ھے کہ وہ خود اپنی زندگی کا ایک راستہ بنا سکتا ھے اور راہ میں پیش آنے والی ھر رکاوٹ کے مقابل ایک موٴثر کردار ادا کر سکتا ھے ۔
ایسا شخص تمام امور کے انجام پانے کو اپنے ارادے اور اختیار سے وابستہ سمجھتا ھے ۔ جب بھی وہ چاھتا ھے انھیں انجام دیتا ھے ، اگر نھیں چاھتا تو ان کاموں کے انجام دینے سے خود کو باز رکھتا ھے ۔
بلا شک و شبہ ایک ایسا شخص اپنی زندگی میں زیادہ تر کامیابیوں سے بھرہ مند ھوتا ھے کیونکہ وہ کسی بھی کام کی انجام دھی کے لئے اپنی کوشش اور جد و جھد پر یقین رکھتا ھے ۔ اور وہ حادثات اور اپنی نفسانی خواھشات کے مقابل سر تسلیم خم نھیں کرتا ۔
مزید یہ کہ وہ روحانی اور باطنی نظاموں سے استفادہ کرتے ھوئے نیکیاں کر کے اور گناھوں سے پرھیز کر کے دعاؤں اور مناجات کے ذریعہ اپنی کامیابیوں میں اضافہ کرتا رھتا ھے ۔

Add comment


Security code
Refresh