قدرت
وہ فاعل کہ جو امور کو اپنے ارادہ سے انجام دیتا ہے اس کے لئے کھا جاتا ہے کہ وہ اپنے امور میں صاحب ''قدرت'' ہے، لھذا قدرت یعنی فاعل مختار کا ھر اس امر کو انجام دینے کا ارادہ کہ جس کا اس سے صادر ھونے کا امکان ہے، جو فاعل جس قدر مرتبہ وجودی کی رو سے کامل ھوگا اس کی قدرت بھی اتنی ھی وسیع ھوگی، پس جو فاعل اپنے کمال میں لامتناھی ھو اس کی قدرت بھی بے نھایت ھوگی ۔
"اِنَّ اللَّہَ عَلَٰی کُلِّ شَئٍ قَدِیر"َ۔(١)
خدا وند عالم ھر چیز پر قادر ہے۔
اس مقام پر چند نکات کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے۔
١۔ جو امر قدرت سے متعلق ھو گا اس میں امکان تحقق کا ھونا ضروری ہے، لھذا جو شی اپنی ذات کے اعتبار سے محال ھو وہ قدرت کا متعلق نھیں بن سکتی، اور خدا کا صاحب قدرت ھونے کا مطلب یہ نھیں ہے کہ خدا اپنی مثل بھی خلق کرسکتا ہے (اس لئے کہ خدا خلق نہیں کیا جاسکتا) یا دوکا عدد دو ھوتے ھوئے تین سے بڑا ھو جائے ،یا ایک فرزند کو فرزند ھوتے ھوئے باپ سے پھلے خلق کردے۔
٢۔ ھر کام کے انجام دینے کی قدرت کا مطلب یہ نھیں ہے کہ وہ ان سب کو انجام دے، بلکہ وہ جسے چاھے گا انجام دے گا، اور جسے چاھے گا انجام نھیں دے گا حکیم خدا ،حکیمانہ فعل کے علاوہ کوئی اور فعل انجام نھیں دے سکتا اگر چہ وہ غیر حکیمانہ امور کے انجام دینے پر بھی قادر ہے، انشاء اللہ آئندہ دروس میں حکمت خدا کے سلسلے میں مزید وضاحت کی جائے گی۔
٣۔ قدرت کے جو معنی بیان ھوئے ہیں اس میں اختیار کے معنی بھی ہیں، خدا جس طرح بے نھایت قدرت کا مالک ہے اسی طرح لامحدود اختیارات سے سرفراز ہے، اور کوئی خارجی عامل اسے کسی عمل کے لئے زبردستی یا اس سے قدرت کو چھین لینے کی طاقت نھیں رکھتا اس لئے کہ ھر موجود کی قدرت اور اس کا وجود خود اسی کا مرھون منت ہے،لھذا وہ کبھی بھی اس طاقت کے مقابلہ میں مغلوب نھیں ھوسکتا کہ جسے اس نے دوسروں کو عطا کیا ہے۔
حوالہ:
۱۔ سورۂ بقرہ۔ آیت /٢٠، اور دوسری آیات۔
منبع: آموزش عقائد، مصباح یزدی.