حیات
حیات کا مفھوم دو طرح کی مخلوقات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ایک سبزہ اور گھاس پھوس جن میں رشد و نمو کی صلاحیت ھوتی ہے ، دوسرے حیوان اور انسان کہ جو ارادہ اور شعور سے متصف ہیں لیکن پھلا معنی ، نقص و احتیاج کا مستلزم ہے اس لئے کہ رشد و نمو کا لازمہ یہ ہے کہ موجود اپنے آغاز میں اس کمال سے عاری ھو ،بلکہ خارجی عوامل کے نتیجہ میں حاصل ھونے والے تغیرات سے آھستہ آھستہ کمالات کا مالک بن جائے، اور ایسا امر خداسے منسوب نھیں کیا جاسکتا، جیسا کہ صفات سلبیہ میں گذرچکا ہے۔
لیکن حیات کا دوسرا معنی ،ایک کمالی مفھوم ہے، ھر چند اس کے امکانی مصادیق نقص کے ھمراہ ہیں لیکن پھر بھی اس کے لئے لامتناھی مقام فرض کیا جاسکتا ہے، کہ جس میں کسی قسم کی کوئی محدودیت اور نقص کا شائبہ نہ ھو، جیسا کہ مفھوم وجود اور مفھوم کمال میں بھی ایسا ھی ہے ۔
حیات اپنے اس معنی میں کہ جو علم اور فاعلیت ارادی کا ملازم ہے یقیناًوجود غیر مادی ھو گا اگر چہ حیات کو مادی امور یعنی جاندار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اصل میں وہ اروح کی صفت ہے اور بدن کا روح سے رابطہ ھونے کی وجہ سے حیات کو بدن سے متصف کیا جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ جس طرح امتداد ، شی جسمانیت کا لازمہ ہے ،حیات بھی وجود مجرد(غیر جسمانی) کا لازمہ ہے لھذا اس طرح حیات خدا پر ایک اور دلیل ایک دلیل متحقق ھو گئی اور وہ یہ ہے کہ ذات مقدس الٰھی مجرد اور غیر جسمانی ہے جیسا کہ گذشتہ دروس میں اسے ثابت کیا جاچکا ہے اور ھر موجود مجرد، حیات سے سرفراز ہے، لھذا اس طرح خدا متعال بھی ذاتاً حیات کا مالک ہے۔
منبع: آموزش عقائد، مصباح یزدی