فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 04 December 2024

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

470885
قرآن مجید ستمگاروں کے انجام کا اعلان کرتے ھوئے کھتا ھے :” و تلک القریٰ اھلکنا ھم لما ظلموا و جعلنا لمھلکھم موعدا “ (۱ ﴾
اور ان بستیوں کو ( جن کو تم دیکھتے ھو ) جب ان لوگوں نے سر کشی کی تو ھم نے ھلاک کر دیا اور ھم نے ان کی ھلاکت کا وقت معین کر دیا تھا ۔
رھبران دین معاشرہ کی پائداری سے بھت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے ۔ عدل و انصاف کی وسعت کے لئے دل سے خواھاں تھے اور یھی ان کا اصلی مقصد تھا ، انھیں حضرات نے معاشرے میں ظلم و ستم کے مقابلے میں قیام کرنے کی ھمت پیدا کی ۔ظالموں کی کمین گاھوں کو مسخر کر لیا ، ان کی وحشیانہ طاقتوں کو شکست دیدی ۔ ظلم کو ناقابل عفو قرار دیدیا اور لوگوں کو اس کے قریب جانے سے اتنا روک دیا کہ شرک کو بھی ایک قسم کا ظلم قرار دیدیا ۔
در حقیقت بزرگان دین و پیشوایان مذھب کا رویہ و طور طریقہ خود ھی ظلم کے خلاف ایک عظیم قیام تھا ۔ قرآ ن کا اعلان ھے :” لقد ارسلنا رسلنا با لبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس با لقسط “ (۲﴾
”ھم نے اپنے پیغمبروں کو واضح روشن معجزے دیکر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور انصاف کی ترازو نازل کی تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رھیں “۔
چونکہ اسلام کا سب سے بڑا مقصد ھر چیز میں عدالت قائم کرنا ھے اس لئے وہ اپنے ماننے والوں کو ھر ایک کے ساتھ کسی چیز کا اعتبار کئے بغیر اور کسی شخصی عنوان کا لحاظ کئے بغیر عدالت و مساوات برتنے کا حکم دیتا ھے ۔ حق کشی و ستمگری کو ھر اعتبار سے ھر شخص کے ساتھ ممنوع قرار دیتا ھے ۔ ارشاد ھوتا ھے :
” یآیھا الذین اٰمنوا کونوا قوّامین للہ شھداء بالقسط و لا یجرمنکم شناٰن قوم علیٰ الا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ “ (۳﴾
” اے ایماندارو خدا کی خوشنودی کے لئے انصاف کے ساتھ گواھی دو اور خدا کے لئے قیام کرو ، تمھیں کسی قبیلے کی دشمنی خلاف عدالت کام پر آمادہ نہ کر دے ( بلکہ ) تم ھر حال میں عدالت سے کام لو یھی پرھیز گاری سے بھت قریب ھے ۔
اسی طرح عدالت و قضاوت کے سلسلے میں ارشاد فرما رھا ھے :
” و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا با لعدل “ (۴﴾
” اور جب لوگوں کے باھمی جھگڑوں کا فیصلہ کیا کرو تو انصاف سے فیصلے کرو “۔
اسلام کی نظر میں عدالت کی اتنی زیادہ اھمیت ھے کہ اگر کسی شخص کے اندر تمام خصوصیات جمع ھوں لیکن عدالت نہ ھو تو وہ مسند قضاوت پر بیٹھنے کا حق نھیں رکھتا ۔
خود والدین کی حساس و بنیادی ذمہ داریوں میںایک ذمہ داری یہ بھی ھے کہ اپنی اولاد کے معاملے میں بھی اصول عدالت کا لحاظ رکھیں تاکہ بچوں کی سرشت میں عدالت راسخ ھو جائے اور ان کی طبیعت کبھی ظلم و ستم کی طرف مائل نہ ھو۔ اس کے لئے ضروری ھے کہ ان کے ساتھ ھر قسم کی عدالت برتی جائے ۔ جن بچوں کے والدین عدالت سے کام نھیں لیتے ان کے اندر کبھی یہ صفت پیدا نھیں ھو سکتی بلکہ وہ فطرتا ظلم و ستم کے عادی ھوں گے ۔ایسے بچے معاشرے کے اندر حق کشی اورتجاوز کریں گے بلکہ والدین بھی ان سے عادلانہ برتاؤ نھیں دیکھیں گے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس روحانی و تربیتی موضوع کی طرف توجہ فرمائی ھے اور اپنے ماننے والوں کو اس کی بھت تاکید فرمائی ھے چنانچہ فرماتے ھیں : اگر تم چاھتے ھو کہ تمھارے بچے تمھارے ساتھ مھر و محبت ، نیکی و عدالت کا برتاؤ کریں تو ان کو کچھ بھی دینے میں انکے ساتھ عدالت و مساوات رکھو ۔(۵﴾
برٹرانڈر اسل کھتا ھے : انسانی نفس بخار کی طرح ھمیشہ روبترقی ھے۔ اس لئے بچوں کی صحیح تربیت کا طریقہ یہ ھے کہ خارجی تعلیمی دباؤ کو اس طرح قرار دیں کہ بچوں کے ذھن و فکر ، قلبی میلان و جذبات اس کو قبول کر لیں ۔ تربیت کا طریقہ یہ نھیں ھے کہ ان کو ھر وقت زود کوب کیا جائے اس سلسلے میں سب سے زیادہ ضروری چیز عدالت کا برتنا ھے ۔ عدالت ایک ایسا مفھوم ھے جس کے لئے ھماری کوشش یہ ھونی چاھئے کہ بچوں کے افکار و عادات میں رفتہ رفتہ کر کے داخل کریں ۔ عدل کی صحیح تربیت اسی وقت ھو سکتی ھے جب اس بچے کے ساتھ کئی اور بچے ھوں جو چیز ایسی ھو کہ جس سے ایک وقت میں صرف ایک ھی بچہ لذت و مسرت حاصل کر سکتا ھو اور اس کے حصول کے لئے ھر ایک کی کوشش ھو مثلا سائیکل کی سواری کہ ھر بچے کی خواھش یہ ھوتی ھے کہ بلا شرکت غیر سے صرف وھی استفادہ کرتے تو یھاں پر عدالت کی تربیت دینا ممکن ھے ۔ اس طرح کہ بزرگ حضرات نمبر لگا دیں آپ کو تعجب ھو گا کہ تمام بچوں کی خواھشات مغلوب ھو جائیں گی اور سب اس پر تیار ھو جائیں گے، میں اس بات کو تسلیم نھیں کرتا کہ حس عدالت جبلی و فطرتی ھے لیکن جب میں نے دیکھا کہ کتنی جلدی یہ عدالت اس نے مان لی تو مجھے بھت تعجب ھوا لیکن اس میں عدالت حقیقی ھونا چاھئے اس میں ایک بچے کو دوسرے پر ترجیح نھیں دینی چاھئے ۔ اگر آپ کسی ایک بچے سے زیادہ محبت کرتے ھیں تو اس کا لحاظ رکھئے کہ اپنے جذبات پر کنٹرول کیجئے ۔ ایک قاعدہ ٴکلیہ یہ ھے کہ کھیل کود کے اسباب ( اور کھلونوں ) میں مساوات رکھیئے ۔ کسی مشق یا اخلاقی ورزش کے ذریعے بچوں میں عدالت پیدا کرنا سعی لا حاصل ھے ۔
معصوم علیہ السلام کا ارشاد ھے : اگر تم چاھتے ھو کہ تمھاری اولاد تمھارے ساتھ نیکی و حسن سلوک کرے تو اپنی اولاد کے درمیان عدالت و مساوات برتو اور خدا سے ڈرو! (۶﴾
حضرت علی علیہ السلام نے جب محمد ابن ابی بکر کو مصر کی گورنری دی ھے تو جو دستوران کو دیے ھیں ، ان میں سے ایک یہ ھے : ان کے لئے اپنے بازووں کو جھکادو ۔ ان کے ساتھ خوشروئی سے پیش آؤ ۔ان کے ساتھ اوقات و لمحات میں مواسات کرو تاکہ بڑوں کو تم سے ظلم کی توقع نہ رھے اور غریبوں کو تمھارے انصاف سے مایوسی نہ ھو ۔(۷﴾
سفرائے الٰھی بنیان گزار عدالت اور انسان کی تکمیل کی سعی کرنے والے تھے ، حضرت علی علیہ السلام کی ظاھری خلافت میں جناب عقیل ( حضرت علی علیہ السلام کے حقیقی بھائی ) ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور اپنی تھی دستی و پریشانی کا شکوہ کیا اور اصرار کیا کہ آپ مجھے میرے حق سے تھوڑا سا گیھوں زیادہ دیدیں ۔ حضرت علی علیہ السلام نے بھت سمجھایا ۔ جب ان کا اصرار بڑھتا گیا تو آپ نے ایک لوھے کے ٹکڑے کو گرم کر کے عقیل کے بدن سے قریب کیا ۔ عقیل تڑپ اٹھے ۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : اے عقیل! تمھاری ماں تمھارے ماتم میں بیٹھے ۔ تم تو اس آگ سے جس کو ایک انسان نے روشن کیا ھے اتنا بیتاب ھو گئے اور نالھٴ و فریاد کرنے لگے ۔لیکن میں اس آگ سے نہ ڈروں ، جس کو قھر و غضب الٰھی نے روشن کیا ھو ؟ بھلا میں کیونکر اس کا متحمل ھو سکتا ھوں ؟ کیا یہ انصاف ھے کہ تم تو ذرا سا جسم کے متاثر ھو جانے پر داد و فریاد کرو اور میں عذاب الٰھی پر صبر کروں !؟ اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا : خدا کی قسم اگر پوری دنیا کی حکومت مع اس کی دولت و ثروت کے اس شرط کے ساتھ میرے سپرد کی جائے کہ ایک چیونٹی کے منہ سے ظلم و ستم کے ساتھ جو کے چھلکے کو چھین لوں تو میں ھر گز قبول نہ کروںگا ۔ یہ پوری دنیا اور تمھاری محبت اس چیز سے کھیں پست ھے کہ اس کی خاطر میں کسی چیونٹی کو آزردہ کروں !
امام حسین علیہ السلام نے یزیدی ظلم کے خلاف اور آئین عدالت و مقصد انسانیت کے لئے اتنا عظیم قدم اٹھایا تھا کہ آج بھی تاریخ بشریت کی پیشانی پر وہ اقدام روشن و منور ھے ۔
حوالہ
۱۔ سورہٴ کھف/ ۵۹
۲۔ سورہ ٴحدید /۲۵
۳۔ سورہ ٴمائدہ / ۸
۴۔سورہٴ نساء /۵۸
۵۔نھج الفصاحة ص/ ۶۶
۶۔نھج الفصاحة ص/ ۸
۷۔نھج البلاغہ ص/ ۸۷۷۔

Add comment


Security code
Refresh