تاریخی مطالعہ اور انقلابات کی تحقیق ھم کو اس اھم نکتہ کی طرف متوجہ کرتی ھے کہ تمام اقوام و قبائل اور مختلف ادوار میں جتنے بھی انقلابات و بغاوتیں ھوئی ھیں ان سب کا محور عدالت و انصاف تھا ۔ جن لوگوں کے حقوق پامال کئے گئے ، جو ظلم و ستم کی چکّی میں پستے رھے انھیں لوگوں نے مردانہ طریقہ سے شیطانی نظاموں کا مقابلہ کیا اور گوھر آزادی کو حاصل کرنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دی اور انتھک کوششوں کے ساتھ اپنے مقاصد کے حصول میں لگے رھے لیکن افسوس اس بات کا ھے کہ ان لوگوں کی اکثر و بیشتر کوششیں نا کام رھیں اور وہ اپنی منزل مقصود تک پھونچے بغیر ملک عدم کے راھی ھو گئے اور اس در مقصود کو حاصل نہ کر سکے اور اپنی امیدوں میں نا کام رھے ۔
ان لوگوں کی ناکامی کا سبب اس نکتہ کی طرف متوجہ ھونے کے بعد واضح ھو جاتا ھے کہ جب بھی معاشرہ کا مزاج اپنی عدالت طبعی کے مدار سے ھٹ جاتا ھے اور اس کے مزاج میں انحطاط و پلیدگی پیدا ھو جاتی ھے تو وہ معاشرہ عدالت پذیر نھیں ھوتا اور نہ وہ کبھی انصاف سے متصف ھو پاتا ھے ، عدالت کا جاری کرنا کچھ ایسے شرائط پر موقوف ھوتا ھے جو اسکے لئے معین و مدد گار ھوں اور جب تک وہ شرائط متحقق نہ ھو جائیں عدالت کا نفاذ نا ممکن ھوتا ھے ۔
سب سے پھلے تو معاشرے کو ایک ایسے قانون کی ضرورت ھوتی ھے جو عدالت کی بنیاد پر وضع کیا گیا ھو اور جس میں ھر طبقہ اور ھر فرد کے حقوق کا لحاظ رکھا گیا ھو نیز وہ مصالح عمومی پر بھی منطبق ھواور اس کے بعداساسی تربیت اور پسندیدہ اخلاق کی تربیت بھی دی گئی ھو ۔
عدالت ایک ایسا فطری قانون ھے جس کا تمام عالم تکوین میں مشاھدہ کیا جا سکتا ھے ، خدا وند عالم نے خط سیر جھاں کو عدالت کی بنیاد پر قائم کیا ھے ۔ جس سے تخلف نا ممکن ھے خود انسان اپنے بدن کے اندر اعضاء کے درمیان اسرار آمیز ھم آھنگی و ھمکاری کا مطالعہ کر سکتا ھے جو عالم تخلیق کی عظیم دستگاہ کا حیرت انگیز مبنی بر تعادلِ دقیق کا درخشاں ترین نمونہ ھے ۔ مختصر یہ ھے کہ ھم اپنے صفحہ ٴ وجود کے مطالعہ سے پورے عالم کے نظام کا اندازہ کر سکتے ھیں ۔
نظام کائنات کے اندر جس تعادل کا دعویٰ کیا جاتا ھے وہ قھری توازن ھے ارادی نھیں ھے، البتہ انسان چونکہ اپنے ارادہ و اختیار میں استقلال رکھتا ھے اس لئے یہ اس کی ذمہ داری ھے کہ اپنے معاشرہ میں اپنے ارادہ و اختیار سے عدالت کی بنیاد وں کو مضبوط کر ے ۔ انسان کی قوت عاقلہ جس طرح بعض مقامات پر تشریعی ھدایت کی محتاج ھے اسی طرح بعض مقامات پر شرع کی ھدایت و رھنمائی سے بے نیاز بھی ھے ۔ وہ خود مستقلاً حقائق کا ادراک کر کے اس کے مطابق فیصلہ کر سکتی ھے ۔ عقل اچھے کاموں کو قابل قدر سمجھتی ھے اور برے کاموں پر توبیخ و مذمت کرتی ھے ۔
بشری زندگی میں عدالت بھت ھی حساس و اھم درجہ رکھتی ھے اور یہ عدالت منجملہ ان اوصاف کے ھے جو سر چشمہ ٴ فضائل ھوتے ھیں ۔ مختصر اً یہ ھے کہ عدالت ایک ایسی حالت ھے جو انسان کو شائستہ و پسندیدہ اعمال کے بجا لانے پر آمادہ کرتی ھے ۔ عدالت ھی ایک ایسی چیز ھے جو انسانی معاشرے کو ایک دوسرے سے مرتبط کرتی ھے اور معاشروں کے درمیان الفت و محبت پیدا کرتی ھے بلکہ معاشروں کو خیر و صلاح کے راستہ پر چلانے کا سبب ھوتی ھے ۔
مشھور یونانی فلسفی افلاطون کھتا ھے : جس انسان کے نفس میں عدالت پیدا ھو جاتی ھے ، تو پھر اس کی شعاعیں اس کی تمام قوتوں پر پڑتی ھیں کیونکہ تمام انسانی فضائل اور پسندیدہ صفات کا مرکز یھی عدالت ھے اور یھی عدالت انسان کو مخصوص اعمال بجالانے پر قدرت عطا کرتی ھے اور یھی انسان کی انتھائی سعادت اور خدا وند عالم سے تقرب کا ذریعہ ھے ۔
اگر منظم اجتماعی زندگی کی عمارت کی خشت اول عدالت کو کھیں تو بعید نھیں ھے اسی عدالت کے سبب انسان اپنی زندگی میں فصل جدید کا آغاز کرتا ھے اور اسی عدالت کی بدولت معاشرہ میں نئی روح پھونکی جاتی ھے،یھی عدالت حیات انسانی کے محیط کو پر فروغ بناتی ھے اور زندگی کو جلال و جمال عطا کرتی ھے ۔ جس معاشرے کے اندر عدالت کا دور دورہ ھوتا ھے ، وہ معاشرہ اس عدالت کی بنا پر حیات دائمی کا مستحق ھو جاتا ھے اور تمام مشکلات کو حل کر لیتا ھے ۔
معاشرے میں عدالت کی ضرورت
- Details
- Written by admin
- Category: ظلم و ستم
- Hits: 789