فن و ھنر خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ھو، الھی عطیہ ہے۔ حالانکہ فن اپنے طرز اظھار میں نمایاں ھوتا ہے لیکن فن کی حقیقت یھی نھیں ہے بلکہ اظھار سے قبل بھی ایک فنکارانہ احساس و ادراک ھوتا ہے جو در حقیقت سب سے بنیادی شئ ہے۔
جب ایک حقیقت، لطافت اور خوبصورتی کا ادراک ھو جاتا ہے تب ایک فنکار اس ادراک کے سھارے ایسے ھزاروں ظریف و لطیف نکات اپنے فنکارانہ ذوق اور ھنرمندانہ احساس کے ذریعے وجود میں لاتا ہے جن میں کسی ایک نکتے کا بھی فھم و ادراک عام آدمی کے لئے ممکن نھیں۔ اسے کھتے ہیں حقیقی فن و ھنر جس کا سرچشمہ ایک ادراک ایک رد عمل اور ایک اظھار ہے۔
در حقیقت فن ایک عطیہ الھی اور بڑی با افتخار حقیقت ہے۔ فطری سی بات ہے کہ دیگر ثروتوں کی مانند جس شخص کو اللہ تعالی اس دولت سے نواز دیتا ہے اسے اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کرنا ھوتی ہیں۔ یعنی الھی عطیہ ھمیشہ اپنے ساتھ کچھ فرائض بھی لیکر آتا ہے۔ فن ایسی دولت نھیں جسے محنت و مشقت کے ذریعے حاصل کر لیا جائے، جب تک آپ کے اندر وہ "مخصوص" فنکارانہ استعداد نہ ھوگی آپ کتنی ھی محنت کر لیجئے، ایک قدم بھی آگے نھیں بڑھ پائیں گے۔ یہ استعداد آپ کی محنت کا نتیجہ نھیں بلکہ یہ تو خداداد شئ ھوتی ہے۔ آپ کو ساری نعمتیں اللہ تعالی عطا کرتا ہے، اب ممکن ہے کہ اس کا ذریعہ معاشرہ، ماں باپ، ماحول یا دیگر چیزیں بن جائیں۔ محنت و کد و کاوش کی توفیق اور موقع بھی اللہ تعالی ھی سے آپ کو ملا ہے جس کی بناءپر آپ اپنی فنکارانہ صلاحیت کو نکھار پانے میں کامیاب ھوئے۔
بعض افراد کھتے ہیں کہ "فرض شناس فن" کی ترکیب کے دونوں لفظ بھم متضاد ہیں۔ یعنی فن وہ چیز ہے جو انسان کے آزادانہ تخیل پر استوار ھوتی ہے جبکہ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری ایک قید و بند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان دونوں چیزوں میں مطابقت کیونکر پیدا ھو سکتی ہے؟! یہ ایک نظریہ ہے جو صحیح نھیں ہے۔ جھاں تک فنکار کی فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کا سوال ہے تو اس کا تعلق اس کے انسان ھونے سے ہے۔ کوئی بھی ھو فنکار ھونے سے پھلے وہ ایک ا نسان ہے اور انسان بے حس اور غیر ذمہ دار نھیں ھو سکتا۔ ایک انسان کا اولیں فریضہ دیگر انسانوں کے تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ یوں تو زمین و آسمان اور قدرت و جھان کے سلسلے میں بھی انسان پر ذمہ داریاں عائد ھوتی ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری دیگر انسانوں کے تعلق سے ھوتی ہے۔ اس کے ساتھ ھی ساتھ ایک فنکار اپنی خصوصیات کی بناء پر کچھ اور ذمہ داریوں کا بھی احساس کرتا ہے۔
فنکار کے سامنے اپنے فن کی شکل و پیکر اور اسی طرح اس کے مضمون کے سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں ھوتی ہیں۔ جس کے اندر فنکارانہ استعداد ھو اسے محدود نھیں رھنا چاھئے۔ یہ ایک طرح کی ذمہ داری ہے۔ آرام طلب اور کاھل فنکار، ایسا فنکار جو اپنے فن اور خلاقیت کے لئے سعی و کوشش نہ کرے در حقیقت اپنی فنکارانہ ذمہ داری و فریضے کو نظر انداز کر رھا ہے۔ فنکار میں سعی پیھم کا جذبہ ھونا چاھئے۔ ھاں یہ بھی ھو سکتا ہے کہ فنکار کبھی محنت کرکے کسی ایسی منزل پر پھنچ جائے جس کے بعد اسے محسوس ھو کہ اب اور محنت کی گنجائش ھی نھیں ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن جب تک فن کو نکھارنے اور صلاحیتوں کو بروی کار لانے کی گنجائش باقی ہے، اسے کوشش کرنا چاھئے۔ یہ ذمہ داری ہے فن اور فن پارے کے قالب و پیکر کے سلسلے میں جو بغیر جوش و ولولے اور عشق و الفت کے پیدا نھیں ھوتی۔ ویسے عشق و الفت بھی ایک ذمہ داری ہے۔ یہ بڑا قوی جذبہ ہے جو انسان کو محنت و مشقت کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور اس میں سستی و آرام طلبی پیدا نھیں ھونے دیتا۔
اس (قالب و پیکر) کے علاوہ (فن پارے کے) مضمون کے سلسلے میں بھی ذمہ داری ھوتی ہے۔ ھم کس چیز کی عکاسی کرنا چاھتے ہیں۔ اگر کوئی با وقار اور محترم شخصیت ھوتی ہے تو اس کا ذھن و دل اور اس کی فکر و نظر بھی محترم ھوتی ہے۔ ھر مخاطب کے سامنے صرف اس بناء پر کہ وہ ھمارے روبرو بیٹھا ھماری باتیں سن رھا ہے، ھر چیز تو پیش نھیں کی جا سکتی۔ غور کرنا پڑے گا کہ اس سے کیا بات کرنی ہے۔ فن کے شعبے میں جو چیز ذمہ دار اور دلسوز افراد کے لئے باعث تشویش بن گئی ہے وہ یہ ہے کہ آزادی تخیل یا آزادی فن کے نام پر ھتک حرمت اور بد اخلاقی نہ ھو جائے۔ یہ بہت اھم بات ہے۔ بنابریں" فرض شناس اور ذمہ دار فن" کی ترکیب ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کیا ہے؟ یہ بات کہ ایک فنکار فکر و نظر کی کس منزل پر فائز ہے اور وہ حقیقت کو جزوی طور پر ھی سمجھ سکتا ہے یا کلی طور پر اس کے ادراک کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک الگ بحث ہے لیکن بھرحال فکر و نظر میں جتنی گھرائی اور بلندی ھوگی فنکارانہ تخيل میں اتنی ھی لطافت و ظرافت پیدا ھوگی۔ حافظ صرف ایک فنکار نھیں ہیں بلکہ ان کی باتوں میں بلند معرفت جلوہ گر ہے۔ یہ معرفت صرف فنکار بن جانے سے حاصل نھیں ھوتی بلکہ اس کے لئے فکری اور فلسفیانہ سرمایہ ضروری ھوتا ہے۔ فنکارانہ ادراک اور فنکارانہ طرز بیان کو بلند فکر و نظر کے سھارا، سرچشمہ اور تکیہ گاہ کی ضرورت ھوتی ہے۔ البتہ سب کی فکری سطح یکساں نھیں ھوتی اور اس کی توقع بھی نھیں کی جا سکتی۔ یہ چیز فن و ھنر کی تمام اقسام میں صادق آتی ہے۔ معماری سے لیکر مصوری، سنیما، تھئیٹر، شعرو موسیقی اور فن و ھنر کی دیگر اقسام تک ھر جگہ اس کا اطلاق ھوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کو کوئی ایسا معمار نظر آجائے جو بڑی اچھی فکر کا مالک ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی ملاقات ایسے معمار سے ھو جائے جس کے پاس کوئی آئیڈیا ھی نھیں۔ یہ دونوں معمار جب عمارت تعمیر کریں گے تو دونوں میں بڑا فرق رھے گا۔ اگر اس طرح کے دو آدمیوں کو ایک شھر کی تقدیر سونپ دی جائے تو شھر کا آدھا حصہ دوسرے نصف حصے سے بالکل متفاوت ھوگا۔ معلوم ھوا احساس ذمہ داری اور فرض شناسی لازمی ہے۔
یہ نھیں ھو سکتا کہ ایک انسان بغیر جوش و جذبے کے اور گرے ھوئے مورال کے ساتھ بس یونھی فنکار بن جائے اور نام کمائے۔ فنکار کے اندر ایک مخصوص سرور ھوتا ہے جو دیگر خوشیوں سے مختلف ھوتا ہے اور عام لوگوں کے ھاں نظر بھی نھیں آتا۔ انسان کے اندر یہ سرور اسی وقت پیدا ھوتا ہے جب اسے اپنے ھدف سے پوری آگاھی ھو اور اس کی ایک ایک حرکت نپی تلی ھو تب ھی تو وہ اپنی ھنرمندی اور فنکاری سے سرور حاصل کرے گا کہ اس نے اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے دیا۔ بنابریں ضرورت اس امر کی ہے کہ اخلاقیات، اعلی دینی معرفت و تعلیمات پر توجہ دی جائے۔ میں امید کرتا ھوں کہ سب سے پہلے تو فن کو اس کے حقیقی مقام پر رکھتے ھوئے توجہ کا مرکز بنایا جائے گا اور پھر اھل فن حضرات اپنے وجود میں پائے جانے والے اس گراں قدر ذوق اور صلاحیت پر دھیان دیں گے اور اس کا احترام کریں گے۔ اس صلاحیت کا احترام کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا استعمال اس کے شایان شان مقام پر کریں گے۔ "حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تمھاری جان اور انسانی وجود نھایت با ارزش شئ ہے، اس جنت کے علاوہ جس کا وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہے کوئی بھی چیز اس جان کی قیمت نھیں قرار پا سکتی۔ اسے تم اللہ تعالی کی جنت کے علاوہ کسی بھی شئ کے سپرد نہ کرنا۔" فن انسانی جان کا سب سے قیمتی اور با ارزش حصہ ہے، اس کی قدر کی جانی چاھئے۔ اسے اللہ تعالی کی راہ میں استعمال کرنا چاھئے۔
دینی فن و ھنر سے مراد وہ فن ہے جو دین اسلام کی تعلیمات اور اھداف کو مجسم کر دے۔ یہ اھداف وھی چیزیں ہیں جو انسان کی خوشبختی، معنوی و روحانی حقوق، بلندی و سرفرازی، تقوی و پرھیزگاری اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کو یقینی بناتی ہیں۔ دینی فن، دینداری کے دکھاوے اور ریاکاری کے معنی میں ھرگز نہیں ہے، یہ ضروری بھی نھیں کہ اس فن کے ساتھ دینی کا لفظ بھی ضرور لگا ھو۔ کیونکہ بھت سے فن ایسے ہیں جو صد فیصد دینی ہیں لیکن ان میں غیر دینی الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تصور درست نھیں کہ دینی فن و ھنر وہ ہے جو ھر حال میں کسی دینی و مذھبی داستان کی عکاسی کرے یا کسی مذھبی چیز مثلا علم دین وغیرہ کی بات کرے۔ دینی فن وہ ہے جوان تعلیمات اور مفاھیم کی ترویج کرے اور انھیں نا قابل فراموش بنائے جن پر تمام الہی ادیان بالخصوص دین اسلام نے خاص توجہ دی اور ان کی ترویج کی راہ میں بڑی قیمتی جانیں قربان ھو گئیں۔ یہ تعلیمات و مفاھیم بڑے اعلی و ارفع ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنھیں انسانی زندگی میں شامل کر دینے کے لئے پیغمبروں نے سختیاں برداشت کیں۔ یہ تو نھیں ھو سکتا کہ ھم بیٹھے بیٹھے پیغمبروں، مصلحین اور مجاھدان راہ خدا کی کوششوں اور کاوشوں پر نکتہ چینی کریں یا انھیں نظر انداز کر جائيں۔ دینی فن انھیں تعلیمات و مفاھیم کو منظر عام پر لاتا ہے، انصاف و مساوات کو اقدار کی حیثیت سے سماج میں متعارف کراتا ہے۔ حالانکہ ممکن ہے بظاھر اس میں لفظ دین اور انصاف و مساوات کے بارے میں کسی آیت یا حدیث کو نقل نہ کیا گیا ھو۔ مثلا فلموں اور ڈراموں میں یہ ضروری نہیں کہ ایسے نام اور شکلوں کو پیش کیا جائے جو دین اور دینداری کی علامت بن چکی ہیں، تاکہ یہ ڈرامہ یا فلم دینی ھو جائے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنے فن کا مظاھرہ کرتے ھوئے عدل و انصاف کے بارے میں با اثر طریقے سے اپنا پیغام پھنچا دیجئے تو آپ نے دینی فن کا تقاضا پورا کر دیا۔
ایک اور نکتے کی جانب بھی میں اشارہ کرنا چاھوں گا اور وہ ہے انقلاب سے متعلق فن و ھنر۔ ایک قوم آٹھ سالہ دفاع کے دوران اپنے پورے وجود کے ساتھ میدان کارزار میں اتر پڑی۔ نوجوان میدان جنگ میں گئے اور اس با ارزش راہ کے لئے جس کا انھوں نے انتخاب کیا تھا جاں نثاری و فداکاری کی۔ بیشتر افراد "دین" کی حفاظت کے لئے گئے، ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ افراد نے وطن اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے خیال سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ھو۔ محاذ جنگ کے پیچھے ماں باپ، بیویاں اور بچے بھی جو کچھ کر رھے تھے وہ بھی عظیم کارنامہ تھا۔ آپ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے واقعات پر نظر دوڑائیے اور غور کیجئے کہ ایک معاشرے کی حالت و کیفیت پر فنکارانہ نگاہ ڈالنے کا اس سے بھتر کوئی موقع و محل ھو سکتا ہے؟! آپ دنیا کے شھرہ آفاق ڈراموں میں جب کسی انسان کی جاں نثاری کا منظر دیکھتے ہیں تو اس کی تعریف و ستائش کئے بغیر نھیں رھتے۔ جب کوئی فلم، تصویر، ترانہ یا پینٹنگ کسی انقلابی یا کسی ملک کے بھادر سپاھی کی عکاسی کرتی ہے تو آپ دل سے اس کے کارنامے کو سراھتے ہیں۔ اس فن پارے میں جو چیز پیش کی گئی ہے اس سے کھیں زیادہ با ارزش اور با عظمت ھزاروں واقعات، مقدس دفاع کے آٹھ برسوں اور خود انقلاب کے دوران آپ کے گھر میں رونما ھوئے۔ کیا ان کی دلکشی اور خوبصورتی کسی سے کم ہے۔ کیا فن ان واقعات کو نظر انداز کر سکتا ہے؟ فن سے انقلاب کی بس یھی توقع ہے اور اس میں کوئی جبر و اکراہ بھی نہیں ہے۔ صرف فنکارانہ ذوق کو بروی کار لائے جانے کی توقع ہے۔ فن وھی ہے جو خوبصورتی کا ادراک کرے۔