قرآن مجيد قوم عاد پر عذاب الھى كے بارے ميں فرماتا ہے :
''ہم نے ان پروحشت ناك ،سرداور تيز آندھى ، ايك ايسے منحوس دن ميں جو بہت طويل تھا،ان كى طرف بھيجى ''
اس كے بعد اس تيز آندھى كى كيفيت كے بارے ميں پروردگار عالم فرماتا ہے كہ ''لوگوں كو گھن كھائے ہوئے كھجوركے تنوں كى طرح اكھاڑديا اور وہ ان كو ہرطرف پھينكتى تھي۔ (سورہ قمر آيت20﴾
قوم عاد كے لوگ قوى الجثہ تھے، انہوں نے تيز آندھى سے بچنے كے لئے زمين ميں گڑھے كھود ركھے تھے اور زير زمين پناہ گا ہيں بنا ركھى تھيں ليكن اس روز آنے والى آندھى اتنى زور دار اور طاقتور تھى كہ ان كو ان كى پناہ گا ہوں سے باہر نكالتى تھى اور ادھر اُدھر پھينكتى تھى وہ ان كو اس زور سے زمين پر پٹختى تھى كہ ان كے سرتن سے جدا ہوجا تے تھے ۔اندھى اس قدر تيز تھى كہ پہلے ان كے ہاتھ پيروں اور سروں كو جدا كرتى تھى ،اس كے بعد ان كے اجسام كو بے شاخ و برگ كھجور كى طرح زمين سے اكھاڑتى تھى اور ادھر ادھر لئے پھرتى تھي۔
قرآن كريم اس قوم كے عذاب كے بارے ميں دوسرى جگہ كہتا ہے:
''قوم عاد كى سرگذشت ميں بھى ايك آيت وعبرت ہے ،جبكہ ہم نے ان پر ايك عقيم اور بغير بارش كا طوفان بھيجا ''۔( سورہ ذاريات ايت 41﴾
ھواوٴں كا عقيم اور بانجھ ہونااس وقت ہوتا ہے ،جب كہ وہ بارش برسانے والے بادل اپنے ساتھ لے كر نہ چليں ، گياہ ونباتات ميں اپنے عمدہ اثرات نہ چھوڑيں ،ان ميں كوئي فائدہ اور بركت نہ ہو ،ااور ہلاكت ونابودى كے سوا كوئي چيز ہمراہ نہ لائيں ۔
اس كے بعد اس سخت آندھى كى خصوصيت جو قوم عادپر مسلط ہوئي تھي، بيان كرتے ہوئے مزيد كہتا ہے: '' وہ جس چيز كے پاس سے گزرتى تھى اس كو نابود كئے بغير نہ چھوڑتى تھى ،اور خشك كٹى پھٹى گھاس يا بوسيدہ ہڈيوں كى صورت ميں بدل ديتى تھى ''۔( سورہ ذاريات ايت 32﴾
يہ تعبير اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ قوم عاد كى تيز آندھى ايك عام تيز آندھى نہيں تھى ،بلكہ انہيں تباہ كرنے اور كوٹنے چھٹنے يا پھر پيٹنے كے علاوہ اور اصطلاح كے مطابق فزيكل دبائو سے ،جلانے اور زہريلابنا نے كى خاصيت ركھتى تھى ،جو طرح طرح كى اشيائوںكو بوسيدہ اور كہنہ بناديتى تھى ،جى ہاں ، اس طرح خدا كى قدرت ''نسيم سحر''كو ايك تيز اندھى ميں بدل كر بڑى بڑى طاقتور قوموں كو اس طرح درہم و برہم كر ديتى ہے كہ صرف ان كے بوسيدہ جسم باقى رہ جاتے ہيں ۔
عذاب الھى ايك نحس دن ميں
- Details
- Written by admin
- Category: حضرت ھود (ع) کا واقعہ
- Hits: 526