قران اس كے بعد اس تيز اور سر كوب كرنے والى آندھى كى ايك دوسرى توصيف كو بيان كرتے ہوئے مزيد كہتا ہے :''خدا نے اس كو اس قوم پر مسلسل سات راتيں اور آٹھ دن ان كى بنياديں اكھاڑنے كے لئے مسلط كئے ركھا ''(سورہ حاقہ آيت 7﴾
سات راتوں اور آٹھ دنوں ميں اس عظيم قوم كى وسيع اور بارونق زندگى كوبالكل تباہ وبرباد كيا اور ان كو جڑسے اكھاڑ كر پر اگندہ كرديا۔
نتيجہ يہ ہوا كہ جيسا كہ قرآن كہتا ہے ''اگر تو وہاں ہوتا تو مشاہدہ كرتا كہ وہ سارى قوم منہ كے بل گرى پڑى ہے اور سوكھے اور كھوكھلے درختوں كى طرح ڈھير ہوگئے ہيں ''۔( سورہ حاقہ آيت 7﴾
كتنى عمدہ تشبيھہ ہے،جو ان كے طويل قدوقامت كو بھى مشخص كرتى ہے ،ان كے جڑسے اكھڑجانے كو بھى ظاہر كرتى ہے اور خدا كے عذاب كے مقابلہ ميں ان كے اندر سے خالى ہونے كو بھى بيان كرتى ہے اس طرح كہ وہ تيز آندھى جدھر چاہتى ہے انھيں آسانى كے ساتھ لے جاتى ہے ۔
قرآن اس واقعہ كے آخر ميں مزيد كہتا ہے '' كيا تم ان سے كسى كو باقى ديكھتے ہو''؟۔( سورہ حاقہ آيت 8﴾
ہاں :آج نہ صرف قوم عاد كا كوئي نام ونشان باقى نہيں بلكہ ان كے آباد شہروں اور پر شكوہ عمارتوں كے كھنڈرات اور ان كے سبز كھيتوں ميں سے كوئي چيز باقى نہيں ہے۔
كيا ان ميں سے كسى كو ديكھتے ھو؟
- Details
- Written by admin
- Category: حضرت ھود (ع) کا واقعہ
- Hits: 492