جس ذوالقرنين كا قرآن مجيد ميں ذكر ہے،تاريخى طور پر وہ كون شخص ہے،تاريخ كى مشہور شخصيتوں ميں سے يہ داستان كس پر منطبق ہوتى ہے،اس سلسلے ميں مفسرين كے مابين اختلاف ہے۔ اس سلسلے ميں جو بہت سے نظريات پيش كيے گئے ہيں ان ميں سے يہ تين زيادہ اہم ہيں۔( پہلا:بعض كا خيال ہے كہ''ا سكندر مقدوني'' ہى ذوالقرنين ہے﴾
جديد ترين نظريہ يہ ہے جو ہندوستان كے مشہور عالم ابوالكلام آزاد نے پيش كيا ہے۔ ابوالكلام آزاد كسى دور ميں ہندوستان كے وزير تعليم تھے۔اس سلسلے ميں انہوں نے ايك تحقيقى كتاب لكھى ہے۔ اس نظريہ كے مطابق ذوالقرنين،''كورش كبير'' ''بادشاہ ہخامنشى ''ہے۔( فارسى ميں اس كتاب كے ترجمے كا نام''ذوالقرنين يا كورش كبير'' ركھا گيا ہے)( اس سلسلے ميں مزيد آگاہى كيلئے رجوع كريں تفسير نمونہ جلد 7 صفحہ 197﴾
ذوالقرنين كو يہ نام كيوں ديا گيا؟
پہلى بات تو يہ ہے كہ''ذوالقرنين''كامعنى ہے۔''دوسينگوں والا''سوال پيدا ہوتا ہے كہ انہيں اس نام سے كيوں موسوم كيا گيا۔ بعض كا نظريہ ہے كہ يہ نام اس لئے پڑا كہ وہ دنيا كے مشرق و مغرب تك پہنچے كہ جسے عرب''قرنى الشمس''(سورج كے دوسينگ)سے تعبير كرتے ہيں۔
بعض كہتے ہيں كہ يہ نام اس لئے ہوا كہ انہو ں نے دوقرن زندگى گزارى يا حكومت كي۔اورپھر يہ كہ قرن كى مقدار كتنى ہے،اس ميں بھى مختلف نظريات ہيں۔ بعض كہتے ہيں كہ ان كے سر كے دونوں طرف ايك خاص قسم كا ابھار تھا اس وجہ سے ذوالقرنين مشہور ہوگئے۔ آخر كار بعض كا نظريہ يہ ہے كہ ان كا خاص تاج دوشاخوں والا تھا۔
جناب ذوالقرنين كے ممتاز صفات
قرآن مجيد سے اچھى طرح معلوم ہوتا ہے كہ ذوالقرنين ممتاز صفات كے حامل تھے ۔اللہ تعالى نے كاميابى كے اسباب ان كے اختيار ميں ديئےھے،انہوں نے تين اہم لشكر كشياں كيں۔پہلے مغرب كى طرف،پھر مشرق كى طرف اور آخر ميں ايك ايسے علاقے كى طرف كہ جہاں ايك كوہستانى درہ موجود تھا، ان مسافرت ميں وہ مختلف اقوام سے ملے۔ وہ ايك مرد مومن،موحد اور مہربان شخص تھے۔ وہ عدل كا دامن ہاتھ سے نہيں چھوڑتے تھے۔ اسى بناء پر اللہ كا لطف خاص ان كے شامل حال تھا۔ وہ نيكوں كے دوست اورظالموں كے دشمن تھے۔ انہيں دنيا كے مال و دولت سے كوئي لگائو نہ تھا۔ وہ اللہ پر بھى ايمان ركھتے تھے اور روز جزاء پر بھي۔ انہو ں نے ايك نہايت مضبوط ديوار بنائي ہے،يہ ديوار انہوں نے اينٹ اور پتھر كے بجائے لوہے اور تانبے سے بنائي(اور اگر دوسرے مصالحے بھى استعمال ہوئے ہوں تو ان كى بنيادى حيثيت نہ تھي)۔اس ديواربنانے سے ان كا مقصد مستضعف اور ستم ديدہ لوگوں كى ياجوج و ماجوج كے ظلم و ستم كے مقابلے ميں مدد كرنا تھا۔
وہ ايسے شخص تھے كہ نزول قرآن سے قبل ان كا نام لوگوں ميں مشہور تھا۔لہذا قريش اور يہوديوں نے ان كے بارے ميں رسول اللہ (ص) سے سوال كيا تھا، جيسا كہ قرآن كہتا ہے: ''تجھ سے ذوالقرنين كے بارے ميں پوچھتے ہيں :'' رسول اللہ (ص) اور ائمہ اہل بيت عليہم السلام سے بہت سى ايسى روايات منقول ہيں جن ميں ہے كہ: ''وہ نبى نہ تھے بلكہ اللہ كے ايك صالح بندے تھے'' ۔
لہذا وہ اسے اسكندر ذوالقرنين كے نام سے پكارتے ہيں۔ ان كا خيال ہے كہ اس نے اپنے باپ كى موت كے بعد روم،مغرب اور مصر پر تسلط حاصل كيا۔اس نے اسكندريہ شہر بنايا۔ پھر شام اور بيت المقدس پر اقتدار قائم كيا۔وہاں سے ارمنستان گيا۔عراق و ايران كو فتح كيا۔پھر ہندوستان اور چين كا قصد كيا وہاں سے خراسان پلٹ آيا۔ اس نے بہت سے نئے شہروں كى بنياد ركھي۔پھر وہ عراق آگيا۔ اس كے بعد وہ شہر'' زور'' ميں بيمار پڑا اور مرگيا۔بعض نے كہا ہے كہ اس كى عمر چھتيس سال سے زيادہ نہ تھي_ اس كا جسد خاكى اسكندريہ لے جاكر دفن كرديا گيا۔
دوسرا:مورخين ميں سے بعض كا نظريہ ہے كہ ذوالقرنين يمن كاايك بادشاہ تھا۔
اصمعى نے اپنى تاريخ'' عرب قبل از اسلام'' ميں،ابن ہشام نے اپنى مشہور تاريخ''سيرة''ميں اورابوريحان بيرونى نے''الاثار الباقيہ''ميں يہى نظريہ پيش كيا ہے۔
يہاں تك كہ يمن كى ايك قوم''حميري''كے شعراء اور زمانہ جاہليت كے بعض شعراء كے كلام ميں ديكھا جا سكتا ہے كہ انہوں نے ذوالقرنين كے اپنے ميں سے ہونے پر فخر كيا ہے۔
حضرت ذوالقرنين كون تھے؟
- Details
- Written by admin
- Category: حضرت ذوالقرنین (ع) کا واقعہ
- Hits: 515