www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

0133
قرآن ميں حضرت ذوالقرنين علیہ السلام كے ايك اور سفر كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا گيا ہے:
''اس كے بعد اس نے حاصل وسائل سے پھر استفادہ كيا''۔( سورہ كھف آيت92﴾
''اور اس طرح اپنا سفر جارى ركھا يہاں تك كہ وہ دوپہاڑوں كے درميان پہنچا وہاں ان دوگروہوں سے مختلف ايك اور گروہ كو ديكھا۔ يہ لوگ كوئي بات نہيں سمجھتے تھے''۔( سورہ كھف آيت93﴾
يہ اس طرف اشارہ ہے كہ وہ كوہستانى علاقے ميں جاپہنچے۔مشرق اور مغرب كے علاقے ميں وہ جيسے لوگوں سے ملے تھے يہاں ان سے مختلف لوگ تھے،يہ لوگ انسانى تمدن كے اعتبار سے بہت ہى پسماندہ تھے كيونكہ انسانى تمدن كى سب سے واضح مظہر انسان كى گفتگو ہے۔( بعض نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ يہ مراد نہيں كہ وہ مشہور زبانوں ميں سے كسى كو جانتے نہيں تھے بلكہ وہ بات كا مفہوم نہيں سمجھ سكتے تھے يعنى فكرى لحاظ سے وہ بہت پسماندہ تھے۔﴾
اس وقت يہ لوگ ياجوج ماجوج نامى خونخوار اور سخت دشمن سے بہت تنگ اور مصيبت ميںتھے_ ذوالقرنين كہ جو عظيم قدرتى وسائل كے حامل تھے،ان كے پاس پہنچے تو انہيں بڑى تسلى ہوئي ۔انہوں نے ان كا دامن پكڑليا اور''كہنے لگے:اے ذوالقرنين ياجوج ماجوج اس سرزمين پر فساد كرتے ہيں۔كيا ممكن ہے كہ خرچ آپ كو ہم دے ديںاور آپ ہمارے اور ان كے درميان ايك ديوار بناديں''۔( سورہ كھف آيت94﴾
وہ ذوالقرنين كى زبان تو نہيں سمجھتے تھے اس لئے ہوسكتا ہے يہ بات انہوں نے اشارے سے كى ہو يا پھر ٹوٹى پھوٹى زبان ميں اظہار مدعا كيا ہو۔( يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ ہوسكتا ہے كہ ان كے درميان مترجمين كے ذريعے بات چيت ہوئي ہو يا پھر خدائي الہام كے ذريعے حضرت سليمان نے ان كى بات سمجھى ہو جيسے حضرت ذوالقرنين بعض پرندوں سے بات كرليا كرتے تھے۔﴾
بہر حال اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ ان لوگوں كى اقتصادى حالت اچھى تھى ليكن سوچ بچار، منصوبہ بندي، اور صنعت كے لحاظ سے وہ كمزور تھے۔لہذا وہ اس بات پر تيار تھے كہ اس اہم ديوار كے اخراجات اپنے ذمہ لے ليں، اس شرط كے ساتھ ذوالقرنين نے اس كى منصوبہ بندى اور تعمير كى ذمہ دارى قبول كرليں۔
اس پر ذوالقرنين نے انہيں جواب ديا:''يہ تم نے كيا كہا؟اللہ نے مجھے جو كچھ دے ركھا ہے،وہ اس سے بہتر ہے كہ جو تم مجھے دينا چاہتے''۔( سورہ كھف آيت 95﴾
اور ميں تمہارى مالى امداد كا محتاج نہيں ہوں۔
''تم قوت و طاقت كے ذريعے ميرى مدد كرو تا كہ ميں تمہارے اور ان دو مفسد قوموں كے درميان مضبوط اور مستحكم ديوار بنادوں''۔( سورہ كھف آيت96﴾
پھر ذوالقرنين نے حكم ديا:''لوہے كى بڑى بڑى سليں ميرے پاس لے آوٴ''۔( سورہ كھف آيت96﴾
جب لوہے كى سليں آگئيں تو انہيں ايك دوسرے پر چننے كا حكم ديا''يہاں تك كہ دونوں پہاڑوں كے درميان كى جگہ پورى طرح چھپ گئي''۔( سورہ كھف آيت96﴾
تيسرا حكم ذوالقرنين نے يہ ديا كہ آگ لگانے كا مواد (ايندھن وغيرہ)لے آئو اور اسے اس ديوار كے دونوں طرف ركھ دو اور اپنے پاس موجود وسائل سے آگ بھڑكائو اور اس ميں دھونكو يہاں تك كہ لوہے كى سليں انگاروں كى طرح سرخ ہوكر آخر پگھل جائيں۔( سورہ كھف آيت96﴾
درحقيقت وہ اس طرح لوہے كے ٹكڑوں كو آپس ميں جوڑكر ايك كردينا چاہتے تھے_ يہى كام آج كل خاص مشينوں كے ذريعے انجام ديا جاتا ہے، لوہے كى سلوں كو اتنى حرارت دى گئي كہ وہ نرم ہوكر ايك دوسرے سے مل گئيں۔
پھر ذوالقرنين نے آخرى حكم ديا:''كہا كہ پگھلا ہوا تانبا لے آئو تاكہ اسے اس ديوار كے اوپرڈال دوں''۔( سورہ كھف آيت96﴾
اس طرح اس لوہے كى ديوار پر تانبے كا ليپ كركے اسے ہوا كے اثر سے اور خراب ہونے سے محفوظ كرديا_بعض مفسرين نے يہ بھى كہا ہے كہ موجودہ سائنس كے مطابق اگر تانبے كى كچھ مقدار لوہے ميں ملادى جائے تو اس كى مضبوطى بہت زيادہ ہوجاتى ہے_ ذوالقرنين چونكہ اس حقيقت سے آگاہ تھے اس لئے انہوں نے يہ كام كيا_آخر كار يہ ديوار اتنى مضبوط ہوگئي كہ اب وہ مفسد لوگ نہ اس كے اوپر چڑھ سكتے تھے اور نہ اس ميں نقب لگا سكتے تھے۔( سورہ كھف آيت 97﴾
يہاں پرذوالقرنين نے بہت اہم كا م انجام ديا تھا_مستكبرين كى روش تو يہ ہے كہ ايسا كام كركے وہ بہت فخر وناز كرتے ہيں يا احسان جتلاتے ہيں ليكن ذوالقرنين چونكہ مرد خدا تھے۔
'' لہذا انتہائي ادب كے ساتھ كہنے لگے:يہ ميرے رب كى رحمت ہے''۔( سورہ كھف آيت97﴾
اگر ميرے پاس ايسا اہم كام كرنے كے لئے علم و آگاہى ہے تو يہ خدا كى طرف سے ہے اور اگر مجھ ميں كوئي طاقت ہے اور ميں بات كرسكتا ہوں تو وہ بھى اس كى طرف سے ہے اور اگر يہ چيزيں اور ان كا ڈھالنا ميرے اختيار ميں ہے تو يہ بھى پروردگار كى وسيع رحمت كى بركت ہے ميرے پاس كچھ بھى ميرى اپنى طرف سے نہيں ہے كہ جس پر ميں فخر و ناز كروں اور ميں نے كوئي خاص كام بھى نہيں كيا كہ اللہ كے بندوں پر احسان جتاتا پھروں۔ اس كے بعد مزيد كہنے لگے:''يہ نہ سمجھنا كہ يہ كوئي دائمى ديوار ہے''جب ميرے پروردگار كا حكم آگيا تو يہ درہم برہم ہوجائے گى اور زمين بالكل ہموار ہوجائے گى ،اور ميرے رب كا وعدہ حق ہے''۔( سورہ كھف آيت 98﴾
يہ كہہ كر ذوالقرنين نے اس امر كى طرف اشارہ كيا كہ اختتام دنيا اور قيا مت كے موقع پر يہ سب كچھ درہم برہم ہوجائے گا۔

Add comment


Security code
Refresh