www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

میانمار کےمسلمانوں پر انتھا پسند بڈھسٹوں کا تشدد اور مظالم ابھی جاری ھی ہیں کہ اس ملک کی حکومت نے ان مسلمانوں پر دو سے زیادہ بچے پیدا نہ کرنے کے

 قانون کے ذریعے نہ صرف ان مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویہ اختیار کیا ہے بلکہ اس ملک میں مسلمانوں کی نسل ختم کرنے پر مبنی انتھاپسند بڈھسٹوں کی غیر انسانی پالیسی کو عملی جامہ پھنانے کی کوشش کی ہے۔
خبری ذرائع نے اس ملک کے صوبۂ راخین کے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہےکہ میانمار کی حکومت نے مغربی میانمار کے مسلمانوں کے لۓ ایک نیا قانون منظور کیا ہے جس کی رو سے مسلمان خاندان دو سے زیادہ بچے پیدا نھیں کرسکتے ہیں۔ اور اگر کسی خاندان میں دو سے زیادہ بچے پیدا ھوئے تو ان کو غیر قانونی قرار دے کر متعلقہ قوانین کے مطابق عمل کیا جائے گا۔
میانمار میں اکثریت بڈھسٹوں کی ہے اور ان پر دو سے زیادہ بچے پیدا نہ کرنےکی پابندی نھیں ہے لیکن مسلم اقلیت پر یہ پابندی لگا دی گئی ہے جس سے واضح طور پر اس بات کی عکاسی ھوتی ہےکہ میانمارکی حکومت مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک سے کام لے رھی ہے کیونکہ میانمار میں اصلاحات کی دعویدار حکومت مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے تشدد اور مظالم کے اسباب کو ختم کرنے کے بجائے مسلم اقلیت پر دباؤ بڑھا رھی ہے۔
اس امتیازی قانون کے علاوہ شادی کے لۓ میانمار کے روھنگیا مسلمانوں پر جو مظالم روا رکھے جاتے ہیں ان میں حکام سے اجازت حاصل کرنا اور تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں عائد کی جانے والی پابندیاں شامل ہیں۔
ھر حکومت اکثریت کے مقابلے میں اقلیت کے تحفظ کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرتی ہے لیکن بھت سے ماھرین کا کھنا ہےکہ میانمار کی حکومت کی جانب سے اس ملک کے مسلمانوں کو شھریوں کے حقوق دینے کے سلسلے میں لیت و لعل سے کام لۓ جانے کی وجہ سے حالیہ ایک سال کے دوران انتھا پسند بڈھسٹوں کے ھاتھوں روھنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا راستہ ھموار ھوا ہے۔
اسی وجہ سے کھا جارھا ہے کہ میانمار کی حکومت نے دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی کے قانون کے ذریعے حقیقت میں بڈھسٹوں کے مسلم نسل کشی کے غیر انسانی اقدام کو جائز ظاھر کرنے کی کوشش کی ہے۔
میانمار کے انتھا پسند بڈھسٹوں نے گزشتہ موسم گرما سے مسلمانوں کے قتل عام کا ایک نیا مرحلہ شروع کیا جبکہ اس ملک کی حکومت اور سیکورٹی ادارے ان مظالم کے خاموش تماشائي بنے رھے۔
میانمار کے مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے تشدد کے نتیجےمیں اب تک دسیوں مسلمان جاں بحق اور ھزاروں بے گھر ھوچکے ہیں۔ لیکن میانمار کے مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے ان تمام مظالم کو نہ صرف اس ملک کی حکومت اور سیاسی رھنماؤں نے نظر انداز کر رکھا ہے بلکہ انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں من جملہ امریکہ سمیت یورپی ممالک نے بھی ان مظالم کے سلسلے میں اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور وہ میانمار میں انسانی المیۓ کی روک تھام کے لۓ کوئی اقدام انجام نھیں دے رھے ہیں۔ ان ممالک نے میانمارکے ذخائر کی لوٹ مار کے لۓ اس ملک پر عائد پابندیوں کو دوسروں سے بھی پھلے ختم کردیاہے۔
حقیقت یہ ہےکہ یورپی حکومتوں خصوصا امریکہ نے ثابت کردیا ہے کہ وہ انسانی حقوق اور جمھوریت کو صرف اپنے مفادات کے تناظر میں ھی دیکھتے ہیں۔ یھی وجہ ہے کہ حال ھی میں امریکہ کا دورہ کرنے والے میانمار کے صدر کی جانب سے مسلمانوں پر دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر عائد کردہ پابندی ان کے نزدیک ایک مبھم اقدام ہے اور اس سے میانمار کی حکومت پر اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے خلاف زیادہ پابندیاں عائد کۓ جانے کے سلسلے میں ڈالے جانے والے دباؤ کا پتہ چلتا ہے۔
امریکہ سے میانمار کی حکومت کے سربراہ کی واپسی کے بعد توقع یہ کی جارھی تھی کہ وہ میانمار کے مسلمانوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کے ذریعے مسلمانوں پر انتھا پسند بڈھسٹوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم کی روک تھام اور بے گھر ھونے والے مسلمانوں کی ان کے گھروں کی جانب واپسی کے سلسلے میں پھلا قدم اٹھائيں گے۔ لیکن ایسا کچھ نھیں ھوا ہے جس سے امریکہ کے انسانی حقوق کے تحفظ کا دعوی ایک بار پھر جھوٹا ثابت ھوگيا ہے۔
    

Add comment


Security code
Refresh