جاری ھفتے میں شام کی صورت حال نئے مرحلے میں داخل۔ غاصب صھیونیوں نے امریکی ایماء پر موجودہ صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھا کر شام کی فوجی تنصیبات کو نقصان پھہنچانے
اور جبھۃالنصرہ کے اخوانی وھابی دھشت گردوں کی مدد کرنے کی غرض سے شام پر حملے کئے چنانچہ اسلامی جمھوریہ ایران کا عزم، مزاحمت محاذ کے رکن ملک "شام" کے تحفظ کے حوالے سے، نئے تجربے سے گذر رھا ہے "اسلامی جمھوریہ ایران نے اپنی قومی سلامتی کی حدود بحیرہ روم تک بڑھا دی ہیں"۔
شامی روزنامے "الاخبار" شام پر صھیونی حملے کے بعد صدر بشار الاسد کے نام ـ ھرحال میں دمشق کی لامحدود حمایت ـ پر مبنی رھبر انقلاب امام خامنہ ای کے فیصلہ کن پیغام پر روشنی ڈالی ہے۔
اس اخبار کے مطابق شام پر اسرائیلی حملے کا جواب حتمی ہے اور ھر اقدام کے لئے تمام تر راستے کھلے ہیں تا کہ علاقے میں "خوف کا توازن" نہ بگڑنے پائے۔ یہ وہ جملہ ہے جس نے ایران کی طرف سے شام کی لامحدود اور ھمہ جھت حمایت کا آشکار کردیا اور اس بار ایران کے اعلی ترین عھدیدار نے براہ راست صدر شام کو پیغام بھجوایا۔
تھران قاعدے کی گھرائی کو سمجھتا ہے
الاخبار نے لکھا: گوکہ اسرائیل نے شام کو نشانہ بنایا لیکن اس کا اصل نشانہ ایران اور حزب اللہ ہے؛ تھران میں کئی افراد نے اس کے بارے میں اظھار خیال کیا لیکن موقف سب کا یکساں ہے: شام کی مکمل اور لامحدود حمایت اور ھم شام کو دشمن کے ھاتھوں میں نھيں پڑنے دیں گے۔
رھبر انقلاب اسلامی کا پیغام ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے صدر شام بشار الاسد کو پھنچایا۔ اس پیغام میں ترجیح یہ ہے کہ ابتداء میں شام کے اندر پیشقدمی کی جائے، (یعنی) تھران میں شامی گروپوں اور جماعتوں اور ملت شام کے دوستوں کا وسیع البنیاد اجلاس بلایا جائے۔
صالحی نےرھبرانقلاب کا یہ پیغام صدر شام کو پھنچایا کہ: ایران تکفیریوں، دھشت گردوں، صھیونیوں اور شام کے خلاف جارحیت کے خواھاں تمام ممالک اور قوتوں کے مقابلے میں شام کی قوم اور حکومت کی ھمہ جھت اور لامحدود سیاسی، عسکری اور معاشی حمایت کرتا ہے۔
تھران میں بعض ذرائع کے مطابق یہ پیغام حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ کے حالیہ خطاب سے مکمل مطابقت رکھتا ہے اور یہ پیغام اہھم اس لئے ہے کہ رھبر انقلاب نے اسرائیلی حملے کے بعد براہ راست صدر شام کے لئے بھجوایا ہے۔
دربار اردن کو ایران کا انتباہ
صالحی شام کے دور سے قبل اردن میں بھی رکے اور اردنی بادشاہ عبداللہ دوئم سے ملاقات میں انھيں ایران کا دوٹوک پیغام دیا کہ ایران بشار اسد اور شام کی بھرپور اور ھمہ جھت حمایت کرتا ہے۔
صالحی نے شاہ اردن سے کھا: ایران شام کے دفاع کے سلسلے میں سنجیدہ ہے اور ان کی حکومت نھیں گرنے دے گا؛ چنانچہ آپ بھی آگاہ رھیں کہ جب امریکہ شام کے خلاف جنگ کا فیصلہ کرے گا آپ کا ملک نیست و نابود ھوجائے گا۔
صالحی نے عبداللہ دوئم کو خبردار کیا کہ امریکہ کے جال میں نہ پھنسے کیونکہ امریکہ کا ساتھ دیں گے تو آپ کا تاج و تخت بھی غارت ھوجائے گا اور اردن نام کا ملک سیاسی جغرافیئہ سے حذف کیا جائے گا۔
الاخبار نے لکھا: صالحی نے شاہ اردن سے کھا: اسلامی جمھوریہ ایران شام کے خلاف اقدام کے سلسلے میں انھیں درپیش دباؤ کی مزاحمت کے تمامتر اخراجات برداشت کرنے کے لئے تیار ہے اور شام کا فتنہ اردن میں سرایت نہ کرنے کی ضمانت دینے کے لئے بھی تیار ہے۔
اسلامی جمھوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے شاہ اردن سے کھا: اگر اردن امریکی ـ اسرائیلی محاذ کے خلاف مزاحمت محاذ میں شامل ھونا چاھے تو ایران اردن کی ھمہ جھت حمایت کے لئے بھی تیار ہے۔
اردنی ذرائع نے کھا ہے کہ شاہ اردن کو ایران کا پیغام فیصلہ کن مگر لطیف اور نرم تھا؛ اور شاہ اردن نے صالحی کو یقین دھانی کرائی کہ اردن شام کے مسائل میں مداخلت نھيں کرے گا۔ اور صالحی نے کھا کہ ایران اردن میں مقیم شامی پناہ گزینوں کے سلسلے میں بھی اردن کو امداد فراھم کرے گا۔
رد عمل کی نوعیت
الاخبار نے ایرانی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ عملی اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کے سلسلے میں مزاحمت محاذ کی حکمت عملی دو صورتوں میں ھوگی:
1۔ کئی مقامات پر حملہ، خواہ شام کے اندر "محاصرہ کرنے، دباؤ بڑھانے اور توڑ دینے" کی حکمت عملی کے تحت، یا شام سے باھر کچھ اس طرح سے کہ "خوف کا موازنہ جو روز قیامت سے قریب تر ھورھا ہے" نہ بگڑنے پائے۔
الاخبار نے اپنے خاص ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے: جولان کو کھلی فضا میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ھوچکا ہے اور یہ محاذ شامیوں، فلسطینیوں اور اسرائیل کے خلاف لڑنے کے خواھاں لوگوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق روس اور امریکہ نے ایران کو پیغام دیا ہے کہ اسرائیل کا حملہ جزوی تھا اور شام کے خلاف جنگ کا کوئی ارادہ نھیں پایا جاتا اور امریکیوں اور روسیوں کو بھی پیغام دیا گیا ہے کہ شامی فوج کے افسران کو شام کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کا خودکار جواب دینے کی ھدایات موصول ھوئی ہیں۔
الاخبار نے لکھا ہے: اتوار کے روز اسرائیلیوں کے حملے کا مقصد یہ تھا کہ ماسکو میں جان کیری اور سرگئی لاوروف کی ملاقات سے قبل دمشق میں دراندازی کی جائے اور شام کو انارکی اور افراتفری سے دوچار کیا جائے لیکن یہ باغیانہ منظرنامہ ناکام ھوا اور جان کیری نے ماسکو میں اعلان کیا کہ امریکہ جنیوا کے مفاھمت نامے کے تحت شام کی صورت حال پرامن انداز میں حل کرنے کے لئے تیار ہے حالانکہ ابتداء میں منصوبہ کچھ اور تھا۔
باخبر ذرائع نے الاخبار کو بتایا کہ اسرائیل نواز وھابی دھشت گردوں نے اسرائیل کی قیادت میں اس جارحانہ حملے کے ذریعے القصیر اور حلب میں شامی افواج کی پیشقدمی روکنے کی کوشش کی تھی جس کے تحت اسرائیل نے شامی فوج کی تنصیبات پر نو حملے کئے۔
ان ذرائع نے کھا کہ جوابی حکمت عملی کی دوسری صورت تھران میں شامی جماعتوں اور گروپوں کے مشترکہ بین الاقوامی اجلاس کا انعقاد ہے جس میں شامی حکومت کے دو وزير "قدری جمیل" اور "علی حیدر" شرکت کریں گے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے 40 ممالک کو دعوت دی گئی ہے جس میں اسلامی جمھوریہ ایران بحران شام کو حل کرنے کے لئے اپنی نیا منصوبہ پیش کریں گے۔
جن ملکوں کو دعوت دی گئی ہے ان میں متحدہ عرب امارات، اردن، کویت، عمان، سعودی عرب، وسطی ایشیا کے ممالک، ھندوستان، ملائشیا، پاکستان، اسلامی تعاون تنظیم اور غیروابستہ تحریک شامل ہیں۔
تھران میں متعلقہ ذرائع نے روس کے موقف کے بارے میں کھا: روس کا موقف ثابت ہے جس میں کوئی تبدیلی نھيں آئے گی؛ وہ روسی ابتداء میں کیری کے وعدوں سے مطمئن ھونا چاھتے ہیں۔
اسلامی جمھوریہ ایران کے دارالحکومت میں گذشتہ کئی دنوں کے دوران مختلف قسم کے اعلانات و اظھارات سامنے آئے جن میں سپاہ پاسداران کے نائب کمانڈر حسین سلامی کے اس موقف کو اھمیت دی جارھی ہے کہ "اسلامی جمھوریہ ایران نے اپنی قومی سلامتی کی حدود بحیرہ روم تک بڑھا دی ہیں"۔