www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

پاکستان میں انتخابات کی سرگرمیاں اپنے عروج کو چھورھی ہیں اور پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق کل رات بارہ بجے قانونی طور پر انتخابی مھم ختم ھوگیا

 اور سنیچر گیارہ مئی کے دن پولنگ کا عمل انجام پائے گا۔ پاکستان کے آئین کے تحت 18 سال کی عمر کو پھنچنے والا فرد ووٹ دینے کا اھل ھوتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ حتمی انتخابی فھرستوں میں پاکستان کے ووٹروں کی مجموعی تعداد 8 کروڑ43 لاکھ 65 ھزار 51 بتائی گئی ہے۔ ان میں مرد ووٹروں کی تعداد 4 کروڑ77 لاکھ 73 ھزار 692 جب کہ خواتین ووٹروں کی تعداد3 کروڑ65 لاکھ 91 ھزار 359 ہے۔پاکستان کے سیاسی اور انتخابی منظر نامہ پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو ملک بھر میں چار سے پانچ بڑی جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل میں ہیں دنیا بھر کے انتخابات میں سیاسی گروھوں کو دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم کیاجاتا ہے لیکن پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے نظریات اور منشوروں کو left اور wrightنھیں قراردیاجاسکتا کیونکہ پاکستان کی مذھبی جماعتوں کو صرف مذھبی جماعت نھیں کھا جا سکتا اسی طرح یھاں کی سیکولر جماعتوں کو لادین اور مذھب کی مخالف جماعت نھیں کھا جا سکتا۔ پاکستان کے بعض اخبار پاکستان پیپلز پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومینٹ جیسی جماعتوں کو سیکولر لکھتی ہیں حالانکہ ان میں سے کسی جماعت کا دستور اور آئین ترکی کے سابق سیاسی نظام یا ھندوستان کے موجودہ نظام کی طرح سیکولر نھیں ہے ۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان جن نعروں اور نظریات پر مقابلہ ھوتا ہے اس میں مذھب اور سیکولرازم کا عنصر نھیں ھوتا بلکہ مقامی اور ملکی مفادات زيادہ زير بحث رھتے ہیں البتہ بعض قوم پرست جماعتوں کے اندر نیشنلزم کے نظریات کو محسوس کیا جاسکتا ہے کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کی شخصیت، افکار، رجحانات اور پس منظر اس جماعت کے طرزسیاست اور حکمت عملیوں میں اھم کردار ادا کرتے ہیں۔خاص طور پر پاکستان کے مخصوص سیاسی کلچر میں جمھوریت اور سیاست کا محور سیاسی جماعتوں اور نظریات کے بجائے شخصیات ہیں۔ پاکستان کے موجودہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ نون ، تحریک انصاف ،عوامی نیشنل پارٹی ، متحدہ قومی موومینٹ کسی حدتک ملک گیر جماعتیں ہیں البتہ ان میں بھی اے این پی اور ایم کیو ایم بالترتیب صوبہ خیبر پختون خوا اور صوبہ سندھ تک محدود ہیں ، پاکستان میں مذھبی جماعتوں کے کردار کو بھی نظر انداز نھیں کیا جا سکتا ہے خاص کر جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین بھی ھر حلقے میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہیں۔ ایک عنصر مذھب یا مذھب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں سے متعلق ہے۔ اس حوالے سے مسلکی منافرت کا فیکٹر بھت سے حلقوں میں اھم کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان میں تواتر سے ھونے والی فرقہ وارانہ دھشت گردی کے واقعات نے اس عنصر کو قوت فراھم کی ہے۔ مذھبی منافرت کا زھر ایک عرصے سے پاکستانی معاشرے کو کھوکھلا کر رھا ہے اور اب انتخابی عمل پر اس کے اثرات کے حوالے سے مشاھدہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ عنصر انتخابات میں بھی اپنا رنگ دکھانے کو ہے۔امکان ظاھر کیا جارھا ہے کہ شدت پسندی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار شیعہ مسلمان انتخابی عمل میں سرگرمی سے حصہ لے کر ان سیاسی قوتوں کو اسمبلیوں میں جانے سے روکنے کی کوشش کرے گی، جو اس کے نزدیک فرقہ واریت اور شدت پسندوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ اس حوالے سے شیعہ جماعت"مجلس وحدت المسلمین"کے سیاسی شعبے کے سربراہ ناصر شیرازی نے کھا ہے کہ "پاکستان میں شیعہ ووٹرز کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے اور ان انتخابات میں یہ ووٹر بڑی تعداد میں باھر نکلیں گے۔ اس انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نہ تو مذھبی جماعتوں کا کوئی اتحاد بن سکا اور نہ ھی سیاسی جماعتوں نے مذھبی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے تا ھم بعض حلقوں میں سیاسی اور مذھبی جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسمنٹ کی اطلاعات ہیں ۔ پاکستان کے حالیہ انتخابات کو سب سے بـڑا خطرہ دھشتگردی سے ہے دھشت گردوں نے پوری پاکستانی قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں ختم کرنے یا ان میں کمی لانے کے لئے تیار نھیں۔ انھوں نے اپنے عمل سے یہ واضح کیا ہے کہ وہ اپنی مذموم کارروائیوں کو صرف چند مخصوص جماعتوں تک ھی محدود نھیں رکھیں گے بلکہ اپنے اھداف و مقاصد کو حاصل کرنے اورآئندہ الیکشن کے انعقاد میں خلل ڈالنے کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں لیکن پاکستان جو گزشتہ تین دھائیوں سے دھشت گردی کی مختلف شکلوں سے نبرد آزما ہے وہ دھشت گردی کی اس نئی لھر سے نمٹنے کے لئے بھی پوری طرح تیار ہے۔شدت پسند عناصرکی طرف سے ملک کے مختلف علاقوں میں عوام کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کیلئے دھماکے کرنے اور دھمکی آمیز پمفلٹ تقسیم کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن اور دوسرے تمام متعلقہ ادارے انتخابات بروقت کرانے کیلئے پوری طرح تیار ہیں اور عوام بھی ھر قسم کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ھوئے پورے جوش و خروش سے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پرعزم ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ دھشت گردوں کے عزائم کو کسی حالت میں کامیاب نھیں ھونے دیں گے اور گیارہ مئی کو ملک کے لئے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نھیں ھونے دیں گے۔
ملک میں شفاف اورپرامن انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے پاکستانی فوج کے جوانوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کرنے کے لئے انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی صدارت میں کراچی میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں 10 ھزار اور اندرون سندھ 20ھزار فوج تعینات کی جائے گی تاھم فوج کسی پولنگ اسٹیشن کے اندر تعینات نھیں کی جائے گی۔ اس حوالے سے وفاقی نگران کابینہ نے بھی یھی فیصلہ کیا ہے ۔پاک فوج کے سربراہ کا کھنا ہے کہ11مئی کو ملک بھر میں پرامن الیکشن کے انعقاد کے لئے پاک فوج سیکورٹی کے حوالے سے حکومت اور الیکشن کمیشن کی بھرپور معاونت کرے گی۔ ملک بھر میں سیکورٹی انتظامات کے تحت پاک فوج کوئیک رسپانس فورس کے طور پر موجود رھے گی۔ ان کا کھنا ہے کہ تمام سیکورٹی ادارے کراچی سمیت ملک بھر میں پرامن الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائیں۔ آرمی چیف کی جانب سے ملک بھر خصوصا سندھ میں فوج کی تعیناتی ایک خوش آئند اقدام ہے۔ جس سے کراچی سمیت پورے صوبے میں بھتر نتائج پیدا ھونے کی توقع ہے۔ عوامی حلقوں نے فوج کی تعیناتی کا خیرمقدم کیا ہے اور اس امید کا اظھار کیا ہے کہ گیارہ مئی کو انتخابات پرامن فضا میں منعقد ھوں گے۔

Add comment


Security code
Refresh