www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

این پی ٹی پر نظر ثانی کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کا اجلاس پیر سے جنیوا میں جاری ہے اس اجلاس میں ایک بار پھر اسرائيل کا ایٹمی پروگرام توجہ کا باعث رھا۔

رشیا ٹوڈی سے گفتگو کرتے ھوئے برطانوی پارلیمنٹ کے سابق رکن جرمی کوربین نے کھا ہے کہ ھمیں اچھی طرح علم ہے کہ اسرائيل کے پاس ایٹمی ھتھیار موجود ہیں اور اسکے پاس زمین سے زمین تک ایٹمی میزا‏ئل بھیجنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ برطانیہ کے اس سابق رکن پارلیمنٹ نے یہ بھی کھا ہے کہ اسرائيل نے جرمنی کے تعاون سے سمندر سے سمندر تک ایٹمی میزائل بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کرلی ہے۔لھذا اسرائيل کے پاس ایٹمی ھتھیاروں کی فراوانی سے مشرق وسطی کی سلامتی سخت خطرے میں ہے اور اس سے علاقے میں ایٹمی ھتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں تیزی آجائیگي۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ نے یہ بات زوردے کر کھی ہے کہ اس علاقے کو ایٹمی ھتھیاروں سے پاک کرنے کے لئے اسرائيل کے ایٹمی ھتھیاروں کا خاتمہ ضروری ہے اور اسکے بغیر مشرق وسطی کو ایٹمی ھتھیاروں سے محفوظ نھیں کیا جا سکتا۔
غاصب اسرائيل نہ تو این پی ٹی معاھدے کا رکن ہے اور نہ ھی اسکی ایٹمی سرگرمیاں ایٹمی توانائي کے عالمی ادارے کے تحت نظر انجام پارھی ہیں ۔ مشرق وسطی کو ایٹمی اسلحوں سے پاک کرنے کے لئے 2012 میں ایک کانفرنس کا انعقاد ھونا تھا لیکن امریکہ نے اس کانفرنس کو منعقد نھیں ھونے دیا امریکہ کی طرف سے اس یکطرفہ فیصلے سے یہ بات ثابت ھوتی ہے کہ وہ نہ تو این پی ٹی معاھدے کو کوئی اھمیت دیتا ہے اور نہ ھی این پی ٹی معاھدے پر نظر ثانی کے لئے منعقد ھونے والے سنہ 2010 کے اجلاس کے فیصلوں کی کوئی حیثیت ہے۔امریکہ کے اس اقدام سے یہ بات بھی واضح ھوگئی کہ وہ اسرائيل کے خفیہ ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی عالمی برادری کو دھوکہ میں رکھنا چاھتا ہے۔ این پی ٹی معاھدے کے لئے سب سے بڑا چیلنج یھی ہے کہ اس کے بعض اراکین اس معاھدے کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں ۔
ایٹمی ھتھیاروں کے حامل ملکوں کے کلب کے معاھدے کی پھلی شق میں یہ بات شامل ہے کہ یہ ممالک کسی دوسرے ملک کو ایٹمی ھتھیاروں کی ٹیکنالوجی منتقل نھیں کریں گے۔ این پی ٹی معاھدے پر نظر ثانی کی کانفرنس بھی اس بات پر تاکید کرتی ہے کہ ایٹمی ھتھیاروں کے حامل ممالک اس معاھدے کی شق نمبر ایک پر عمل کریں اور ایٹمی ھتھیاروں کو دوسرے ممالک کو منتقل نہ کریں۔
این پی ٹی معاھدے پر نظر ثانی کے حوالے سے ھر پانچ سال بعد ایک اجلاس منعقد ھوتا ہے اور اس حوالے سے اگلا اجلاس سنہ 2015 میں منعقد ھوگا۔ یہ اجلاس اسی صورت میں موثر ھوسکتا ہے کہ اس کے رکن ممالک نئے ایٹمی ھتھیار تیار نہ کرنے اورپھلے سے موجود ایٹمی ھتھیاروں کے خاتمے کے حوالے سے دھرے رویے کے حامل نہ ھوں یہھی وجہ ہے کہ سنہ 2015 کے اجلاس کی تیاری کے لئے ھونے والے جنیوا اجلاس میں اسی 80ممالک کے نمائندوں نے ایران کی تجاویز کی روشنی میں تیار کردہ اعلامیہ میں ایٹمی ھتھیاروں کے خاتمے پر تاکید کی گئی ہے اور ان ھتھیاروں کے استعمال کی مذمت کی ہے۔
ایران این پی ٹی کا رکن ہے اور اس معاھدے کی روشنی میں اپنی ایٹمی سرگرمیوں کو جاری رکھے ھوئے ہے یھی وجہ ہے کہ ایران این پی ٹی معاھدے پر نظر ثانی کے حوالے سے سنہ 2010 میں جو اجلاس ھوا تھا اس کے فیصلوں کے نفاذ پر تاکید کرتا ہے اس اجلاس کے دیگر فیصلوں میں ایٹمی اسلحوں کے خاتمے خاص کر مشرق وسطی کو ایٹمی ھتھیاروں سے پاک کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے ۔
 

Add comment


Security code
Refresh