دس سال پھلے جب جارج ڈبلیو بش امریکہ کے صدر تھے تو اس وقت ان کی حکومت نے یہ دعوی کیا کہ عراق میں عام تباھی پھیلانے والے ھتھیار موجود ہیں۔
اس وقت امریکی حکومت نے ان ھتھیاروں کو نابود کرنا لازمی جانا اور انھی ھتھیاروں کی نابودی کے بھانے عراق پر حملہ کردیا اور پھر کئی برسوں تک اس ملک پر قبضہ جمائے رکھا۔ عراق پر امریکہ کے حملے اور اس کے بعد ملک میں پیدا ھونے والی بدامنی کے نتیجے میں ایک ملین سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گيا۔ اس کے بعد عراق کی سرزمین کا چپہ چپہ چھان مارا گیا لیکن عام تباھی پھیلانے والے ھتھیاروں کا نام و نشان تک نہ ملا۔ اور یہ بھی ثابت ھوگيا کہ امریکہ اور یورپ کی خفیہ ایجنسیوں کو معلوم تھا کہ عراق میں عام تباھی پھیلانے والے ھتھیار موجود نھیں ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا کہ عراق میں عام تباھی پھیلانے والے ھتھیار موجود ہیں۔ ان کا مقصد عراق پر حملے اور قبضے کے لۓ ماحول پیدا کرنا تھا۔
آج امریکہ کے صدر جارج بش نھیں بلکہ باراک اوباما ہیں ۔ لیکن پھر بھی عراق والے سناریو کو شام میں دھرانے کی کوشش کی جارھی ہے۔ فرق یہ ہے کہ عراق کے سلسلے میں یہ دعوی کیا گياتھا کہ بغداد کی حکومت عام تباھی پھیلانے والے ھتھیاروں کی تیاری اور ان کے استعمال کا ارادہ رکھتی ہے لیکن شام کے بارے میں یہ دعوی کیا جارھا کہ دمشق نے ان ھتھیاروں کو استعمال کیا ہے۔
امریکہ میں صدر بدل گیا لیکن اس ملک کی پالیسیوں میں تبدیلی نھیں آئی ہے ۔ آج کے امریکی صدر باراک اوباما نے جارج بش والی پالیسی شام کے بارے میں اپنائی ہے۔ انھوں نے اپنے حالیہ بیانات میں کھا ہے کہ اگر یہ بات ثابت ھوگئي کہ شام کی حکومت نے مخالفین کے خلاف کیمیاوی ھتھیار استعمال کۓ ہیں تو پھر اس ملک میں کھیل کا پانسہ پلٹ جائے گا۔ باراک اوباما نے اشارے کنائے میں خبردار کیا ہے کہ شام کی حکومت کی جانب سے مخالفین کے خلاف کیمیاوی ھتھیار استعمال کۓ جانے کی صورت میں امریکہ اور اس کے اتحادی شام پر حملہ کردیں گے۔ اس سے قبل خبر ذرائع نے کھا تھاکہ امریکہ کی جاسوسی اور خفیہ ایجنسیوں نے اس بات کی تصدیق کی ہےکہ شام نے چھوٹے پیمانے پر کیمیاوی ھتھیار استعمال کۓ ہیں۔ البتہ شام کی حکومت نے یورپی ذرائع کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ سابق امریکی صدر جارج بش نے جو سناریو عراق کے لۓ تیار کیاتھا وھی سناریو امریکی صدر باراک اوباما نے شام کے لۓ تیار کر رکھا ہے۔ البتہ امریکہ کو عراق پر لشکر کشی کا جو تلخ تجربہ حاصل ھوا ہے اس کے پیش نظر باراک اوباما کی حکومت شام میں فوجی مداخلت کے سلسلے میں احتیاط کا مظاھرہ کر رھی ہے۔
خطے میں اسلامی بیداری پھیلنے کے بعد اس کو غلط رنگ دینے اور خطے میں صیھونی حکومت کے خلاف استقامت کے اصل محاذ شام کی حکومت کو سرنگون کرنے کے مقصد سے امریکہ نے دو سال قبل اپنے حمایت یافتہ دھشتگردوں کو شام کی حکومت کی سرنگونی کا مشن سونپا تھا اور ان کی ھرطرح کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد بھی کی۔ امریکہ کو یہ توقع نھیں تھی کہ یہ حکومت حتی چند ماہ تک بھی قائم رہ سکے گي لیکن امریکہ اور خطے کے بعض عرب ممالک کی تمام تر حمایت حاصل ھونےکے باوجود شام کے دھشتگرد دو سال کے عرصے میں بھی شام کی حکومت کو سرنگون کرنے میں کامیاب نہ ھوسکے تو اب امریکہ اس ملک میں فوجی مداخلت کے لۓ شام کی حکومت کی جانب سے کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر رھا ہے۔
امریکی حکومت بشار اسد کی حکومت پر کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کر رھی ہے حالانکہ شام کی حکومت کے خلاف سرگرم عمل امریکہ کے حمایت یافتہ مسلح دھشتگرد گروہ خود کیمیاوی ھتھیار استعمال کر کے اس کی ذمےداری شام پرڈالنے کے درپے ہیں تاکہ امریکہ اور یورپ کے لۓ شام میں فوجی مداخلت کا راستہ ھموار ھوسکے۔ اور شام کی حکومت کو تو مسلح دھشتگردوں کے خلاف کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال کی ضرورت ھی نھیں ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال کو ریڈ لائن قرار دیا ہے اس لۓ ظاھر ہے کہ شام کی حکومت کوئي بھی ایسا اقدام انجام نھیں دے گی جس کی وجہ سےطاقت کا توازن مسلح دھشتگردوں کے حق میں تبدیل ھوجائے اور اس ملک کو امریکہ ، اسرائیل ، نیٹو اور خطے کے بعض عرب ممالک کے بھر پور حملے کا سامنا کرنا پڑے۔