دوحہ میں عرب لیگ کاسالانہ سربراھی اجلاس ھوا جس میں الجزائر ، عراق اور لبنان کے علاوہ عرب لیگ کے دیگر رکن ممالک نے
شامی عوام اور حکومت کے خلاف برسر پیکار دھشت گردوں کو ھتھیاروں سمیت تمام وسائل مھیا کرنے کی منظوری دے دی ۔اجلاس میں شام کے القاعدہ سے وابستہ دھشت گردوں کو عرب لیگ کی نشست دینے کی بھی منظوری دی گئی اورکھا گیا کہ نئی حکومت کی تشکیل تک شامی دھشت گردوں کے رھنما عرب لیگ کے رکن رھیں گے۔ واضح رھے کہ عراق ، الجزآئر اور لبنان نے عرب لیگ کے اس اقدام کو عرب لیگ کے قوانین کی واضح خلاف ورزی قراردیتے ھوئے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق عرب لیگ علاقہ میں امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کو عملی جامہ پھنا رھی ہے اور مسئلہ فلسطین سے مسلمانوں کی توجہ ھٹانے کے لئے ایسے اقدامات انجام دے رھی ہے جو اسلام اور خطے میں موجود اسرائیل مخالف ممالک کے لئے ضرر کا باعث ہیں۔ عرب لیگ کا اسرائيل کے لئے نرم گوشہ اور شامی عوام کے خلاف معاندانہ کارروائی عرب لیگ کے امریکی ایجنٹ ھونے کا واضح ثبوت ہے۔
اس صورتحال پر رد عمل کا اظھار کرتے ھوئے اسلامی جمھوریہ ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ھوئے کہا کہ علاقے کے بعض ممالک کی فاش غلطیاں شام کے حالات کو مزید پیچیدہ بنا رھی ہیں۔ علی اکبر صالحی نے آج تھران میں عرب ليگ میں شام کی رکنیت شام کے مخالفین کو منتقل کئے جانے کے عرب لیگ کے فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھا کہ شام کے بحران کے بارے میں ایسی غلطیاں اور غلط اقدامات کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے شام کے بحران کا حل مشکلات سے دوچار ھوگيا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے شام میں تشدد کے خاتمے پر مبنی ایرانی تجاویز کا ذکر کیا اور کھا کہ شام میں ایک دن میں تقریبا" 100 افراد کا قتل ایک ناقابل قبول امر ہے اور شام کے بارے میں بعض ممالک کی طرف سے جو اقدامات کئے جارھے ہیں ان سے تشدد میں اضافہ ھورھا ہے۔انھوں نے مزید کھا کہ شام میں سرگرم دھشت گردوں اور مخالفین کو مالی اور اسلحہ جاتی امداد کی فراھمی، شام کے بے گناہ لوگوں کا قتل عام جاری رھنے کا سبب بنی ہے۔اور ان افراد کی تربیت کا اعتراف خود امریکہ نے بھی کیا ہے. اسی سلسلے میں ایک امریکی اھلکار نے ایسوشی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ھوئے کھا ہے کہ امریکہ کئی ماہ سے شام میں سرگرم عمل مسلح دھشت گردوں کو تربیت دے رھا ہے امریکی اھلکار کے مطابق امریکہ اردن میں دھشت گردوں کو تربیت دے رھا ہے اور امریکہ کا دھشت گردوں کے ساتھ قریبی رابطہ ھی نھیں بلکہ امریکہ دیگر ممالک میں سرگرم عمل دھشت گردوں کی تربیت بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ترکی شام میں دراندازی کرنے والے دھشت گرد گروھوں کی مضبوط پناہ گاہ ہے اور ان باغیوں کی اعانت میں ترکی سرکار اور مسلح افواج ملوث ہیں.
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے دوحہ میں عرب لیگ کے 24 ویں سربراھی اجلاس کے بیان میں خاص طور سے تین ایرانی جزائر کے بارے میں دھرائے جانے والے بے بنیاد دعوؤں کو مسترد کرتے ھوئے ، ان دعوؤں کو ایران کے اندرونی مسائل میں بے جا مداخلت قرار دیا گیا ہےاور کھا گیا ہے کہ علاقے کے بعض ممالک کے عھدیداروں کی جانب سے بے بنیاد دعوؤں کو دھرایا جانا ، خلیج فارس کے حساس علاقے میں امن و سلامتی کے ماحول کو سبو تاژ کرنے کے مترادف ہے ۔
ادھر شام کے امور میں اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے سابق خصوصی نمائندے کوفی عنان نے کل رات جنیوامیں گفتگو کرتے ھوئےکہا کہ شام کے صدر بشار اسد کے مخالفین کو ھتھیاروں سے لیس کرنا اس 2 سالہ بحران کے حل میں کسی بھی طور مددگار ثابت نھیں ھوگا۔انہوں نے شام کے بحران کو سیاسی اور سفارتی طریقے سے حل کرنے پر تاکید کی۔
سعودی عرب،قطر،ترکی،امریکہ ،فرانس،برطانیہ، اسرائیل اوربعض دیگر غیر ملکی طاقتیں2011 سے شام میں دھشتگرد بھیج کر اور ان کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد کے ذریعےبشار اسد کی عوامی حکومت کو سرنگوں کرنے اور ملک شام کہ جو اسرائیل کے مقابلے میں مزاحمت اور مقاومت کا ایک اھم محور ہے اسے نقصان پھنچانے کی کوششیں کر رھی ھیں۔
شام نے مقاومتی اور مزاحمتی تنظیموں کی مسلسل حمایت اور علاقے کے مستضعف ممالک کی ھر ممکن امداد کی، جس کی وجہ سے خطے میں مغربی پالیسیز کو بھاری نقصان پھنچا اور یہ بات ان تمام ممالک کے لئے تشویش کا سبب بنی جن کے اسرائیل کے ساتھ مفادات جڑے ھوئے تھے. اسی وجہ سے تقریبا دو سال پھلے کثیر سرمایہ گذاری کے ذریعے شامی عوام کے ھر دل عزیز صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی گئی مگر کامیابی حاصل نہ ھوئی.
اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے سر توڑ کوششیں کی گئیں اور مختلف ممالک سے دھشتگردوں کو ترکی اور لبنان سے ملحقہ سرحدی راستوں کے ذریعے خفیہ طور پر شام میں داخل کیا گیا اور انکو بھاری اسلحہ بھی فراھم کیا گیا تاکہ شام کی حکومت کا تختہ الٹا جاسکے.
کچھ عرصے تک ڈھکے چھپے انداز میں دھشت گردوں کی معاونت کا جب کوئی نتیجہ نہ نکلا تو شام کی موجودہ حکومت کی کھلے عام مخالفت کی جانے لگی اور بات یھاں تک آن پھنچی کے امریکہ اور اسرائیل نے اپنے مقامی حامی ممالک کے ذریعے شام کی موجودہ حکومت کی مخالفت میں بیانات دلوانے شروع کئے. عرب ممالک کی سنھری مسندوں پر براجمان مغربی پٹھو بادشاھوں نے اپنے آقاؤں کی ایما پر جنگ بندی کے عوامی مطالبے کو یک سر نظر انداز کرتے ھوئے بشار الاسد کی حکومت کے تختہ الٹنے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ھی ساتھ باغی دھشتگردوں کی مالی اور اسلحہ جاتی معاونت میں مزید اضافے پر زور دیا ہے.
سامراجی قوتوں کا اسلامی ممالک کے سربراھوں پر کنٹرول کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغرب کی جانب سے دئیے جانے والے احکامات تک تعمیل کرتے ھوئے عرب لیگ نے عرب قوم کے قبیلگی نظام اور قومی بھائی چارے جیسے محکم اور مضبوط نظرئیے کو پیروں تلے روند دیا ہے اور شام میں کہ جو خود ایک عرب ملک ہے بے گناہ اور معصوم لوگوں کے بے جا قتل عام پر آنکھیں موند لی ہیں.