یہ لوگ دشمنان اسلام کے علی الاعلان دوست ہیں جس کے لئے کسی دلیل اور ثبوت کی بھی ضرورت نھیں ہے۔
مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ کی مغربی ممالک سے اتنی دوستی نھیں ہے جتنی گھری دوستی وھابیوں اور مغربی ممالک کے درمیان پائی جاتی ہے یہ لوگ ان کی جی حضوری کرتے ہیں ان کی قربت کے خواھشمند رھتے ہیں اور ان کی تمام حرکتوں کی حمایت اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ وھابیوں کا ایک ایسا عقیدہ اور نظریہ ہے جس سے وہ کسی طرح دستبردار ھونے کے لئے تیار نھیں ہیں۔
کیا وھابیوں نے اتنے عظیم اسلامی سماج اور معاشرہ کی بھلائی کے لئے واقعاً کبھی غور و فکرسے کام لیا ہے؟
کیا انھوں نے اسلامی ممالک کو استعماری طاقتوں سے محفوظ رکھنے کے بارے میں کبھی کچھ سوچاہے؟
کیا اسلامی ممالک پر مغربی ملکوں کے تسلط کا وھابیوں کے اوپر کوئی اثر پڑا ہے؟
اسلامی ممالک میں صھیونیوں کے نفوذ اور قبضوں کے مقابلہ میں آج تک وھابیوں نے کیا کیا؟
واقعاً! ان کی طرفداری کرنے اور اپنے دونوں ھاتھ پھیلا کر ان کا استقبال کرنے، اور مسلمانوں کی دولت کو ان کے قدموں پر نثار کرنے، نیز ان کی عزت افزائی کے علاوہ ان لوگوں نے اور کیا حکمت عملی اختیار کی؟۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جو آدمی بھی اپنی آنکھیں کھول کر دیکھے گا اسے بخوبی یہ حقیقت نظر آ جائے گی کہ اسلامی ممالک کی سرحدوں کے اندر وھابی حضرات استعماری طاقتوں کے سب سے پھلے خدمتگار ہیں۔
صرف یھی نھیں! بلکہ اگر محمد بن عبد الوھاب اور ان کے بعد پیدا ھونے والے وھابیوں کے دوسرے لیڈروں کے باقیماندہ آثار کا جائزہ لیا جائے توان کے یھاں قوم کی تعمیر و ترقی، سماج میں عدل و انصاف کے نفاذ، مظلوم کی اعانت اور جھالت سے مقابلہ کا کوئی وجود نھیں ملتا ہے۔
حتی کہ اپنی روزہ مرہ کی زندگی کی فلاح و بھبود، علمی، اقتصادی اور سماجی پیشرفت کے لئے ان کا کوئی مثبت اقدام نظر نھیں آتا بلکہ صرف مسلمانوں کی تکفیر، انھیں واجب القتل قرار دینے یا انھیں قتل کرنے اور ان کا مال لوٹنے کے علاوہ آپ کو ان کے یھاں کسی قسم کی بھی صلح و آشتی کا کوئی پھلو نظر نہ آئے گا!!
وھابیوں کو اگر کسی چیز سے چڑھ ہے تو وہ قبر اور مسجد ہے یا وہ شخص جو انھیں یہ کھتا دکھائی دے: اے پیغمبر! آپ خدا کی بارگاہ میں میری شفاعت فرما دیجئے گا!!
وھابیوں کا صرف یھی ایک کام ہے اور اس کے علاوہ کوئی اورمشغلہ نھیں ہے یھی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اسی کی بناء پر وہ مسلمانوں کا خون بھاتے ہیں، محرمات کو حلال قرار دیتے ہیں اور ھر روز ایک نیا فتنہ پیدا کرتے رھتے ہیں اور اگر مسلمانوں کے کسی نئے علاقہ پر عیسائیوں یا صھیونیوں کا قبضہ ھو جائے تو انھیں اس کی کوئی فکر نھیں ھوتی ۔
صحابہ نے جناب حمزہ بن عبد المطلب کی جو زیارت کی تھی یا انھوں نے وھاں نماز ادا کی تھی اور دوسرے مسلمان بھی آج ان کی پیروی میں ایسا ھی کرتے ہیں. اسے دیکھ کر وھابیوں کا جتنا خون کھولتا ہے کیا بیت المقدس، بوسنیا اور لبنان کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم دیکھ کر بھی ان کا یھی حال ھوتا ہے؟
یا جس طرح سبط رسول خدا (ص) حضرت امام حسین (ع) کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے صحابہ، تابعین اور حتی امام احمد بن حنبل کے دور میں بھی سینکڑوں میل کا سفر کر کے لوگ جاتے تھے اس کا نام سن کر جس طرح ان کی تیوریوں پر بل پڑ جاتے ہیں.کیا اسلامی ممالک کی تیل کی دولت پر امریکی تسلط کو دیکھنے کے بعد بھی انھیں اسی طرح غصہ آتا ہے؟۔
جس طرح قبر پیغمبر(ص) پر پیش کئے جانے والے ھدایا و نذورات کو دیکھ کر وہ آگ بگولا ھو جاتے ہیں کیا بعض مسلم ممالک پر زبردستی لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کو دیکھنے کے بعد بھی ان کا یھی حال ھوتا ہے؟۔
اے کاش! ھمیں ایسی یا اس سے ملتی جلتی کوئی تصویر، ان کے یھاں نظر آجاتی ہے....
واقعاً بڑے ھی افسوس کا مقام ہے کہ قوت و طاقت نیز فکری اور جسمانی توانائیوں کا اتنا بڑا سرمایہ ان فضول کاموں میں صرف ھوجاتا ہے اور چند جاھلوں، نادانوں اور سیدھے سادے یا پست طینت لوگوں کے علاوہ کوئی ان کی طرف دھیان بھی نھیں دیتا ہے۔
آخر وھابی حضرات ان مواقع پر اتنے جذباتی اورمتعصب کیوں ھو جاتے ہیں؟ اس کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں ۔
سب سے پھلے ان کی کوتاہ فکری اور تنگ نظری، کیونکہ انھیں اس کے علاوہ کچھ معلوم ھی نھیں ہے اوران کے ذھن میں اس کے علاوہ اور کوئی فکر پیدا ھی نھیں ھو پاتی۔
دوسرے یہ کہ یہ لوگ رسم زندگی اور زمانہ کے ساتھ پیشرفت کرنے کے صحیح معنی سمجھنے سے قاصر ہیں لھذا جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے دینی، علمی اور سماجی مسائل کا حل تلا ش نھیں کرسکتے اور اسی وجہ سے یہ اپنی انھیں قدیم روایتوں پر اڑے رھتے ہیں اوران کی تعظیم یا انھیں تقدس کا لبادہ اوڑھانے میں افراط کا شکار ہیں ،تاکہ اس طرح اپنے کواس ترقی یافتہ دنیا سے بالاتر سمجھ سکیں۔
تیسرے یہ کہ یہ تمام مسلمانوں کے بارے میں تنگ نظری اور کینہ پروری کے لئے اپنی مثال آپ ہیںیعنی یہ لوگ ان کی کوئی بھلائی دیکھنا پسند نھیں کرتے اور ان کے دل ،مسلمانوں کی بدخواھی سے بھرے ھوئے ہیں۔
جو شخص بھی ان کے کھوکھلے نعروں، جھوٹ اور افتراء سے مملو تھمتوں کو دیکھتا ہے وہ ان کی کوتاہ فکری، تنگ نظری، دشمنی اور نادانی نیز کم عقلی کا بخوبی احساس کرلیتا ہے۔
مزید یہ کہ یہ لوگ دشمنان اسلام کے علی الاعلان دوست ہیں جس کے لئے کسی دلیل اور ثبوت کی بھی ضرورت نھیں ہے۔
مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ کی مغربی ممالک سے اتنی دوستی نھیں ہے جتنی گھری دوستی وھابیوں اور مغربی ممالک کے درمیان پائی جاتی ہے یہ لوگ ان کی جی حضوری کرتے ہیں ان کی قربت کے خواھشمند رھتے ہیں اور ان کی تمام حرکتوں کی حمایت اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔یہ وھابیوں کا ایک ایسا عقیدہ اور نظریہ ہے جس سے وہ کسی طرح دستبردار ھونے کے لئے تیار نھیں ہیں۔
اسلامی ممالک کے درمیان وھابیت کا وجود ایک ایسا شگاف ہے جس نے صھیونی جلادوں کے لئے اسلامی ممالک کے دروازے کھول رکھے ہیں چنانچہ وہ جس طرح چاھتے ہیں آئے دن دنیائے اسلام کے ساتھ کھلواڑ کرتے رھتے ہیں، لوگوں کو بدنام کرنا، اموال کی لوٹ مار، گھروں اورآبادیوں کو ویران کرنا اور بالآخران کی ھر چیز پر قبضہ کرلینا اور ھر روز اس میں توسیع کرتے رھناھی ان کا بھترین مشغلہ ہے۔
جی ہاں! وھابی اپنے ان خونخوار بھائیوں کے لئے ھر جگہ زمین ھموار کرتے ہیں۔
یہ وھی عناصر ہیں جنھوں نے استعمار کے لئے ماضی میں ایسی راہ ھموار کی، کہ اسرائیل کا وہ بیج جو کھیں بھی جڑ نھیں پکڑ سکا تھا ان کی مدد سے اسے اسلامی ممالک کے قلب میں ایک تناور درخت بنا دیا گیا یہ وھی لوگ ہیں جنھوں نے ھر دور میں مغربی طاقتوں کی غلام حکومتوں کے ھاتھ مضبوط کئے ہیں اور ان سے آزادی پانے والی تحریکوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔
یہ وھی گندے جراثیم ہیں جو اسلامی دنیا کے قلب میں مغربی ممالک کے غلاموں کے قدموں کے نیچے پھول بچھانے کے لئے تیار ہیں اور اسرائیل کو قانونی طور پر اس طرح تسلیم کرانا چاھتے ہیں کہ کسی کے ذھن میں اس کی مخالفت کا خیال بھی پیدا نہ ھونے پائے۔
یہ لوگ وہ قابلِ نفر ت نوکرہیں جن کی حمایت مغربی ممالک صرف اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعہ اھل اسلام کی کامیابی اور بیداری پر روک لگا سکیں وہ اپنے اس مقصد کی برآوری کے لئے نوکرمنافق حکومتوں کی پشت پناھی کرتے ہیں جوھر طرح کے سرد اورگرم اسلحوں سے اسلامی بیداری کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے وھابیوں نے عملی جامہ پھنایاہے اور آج بھی وہ اس پر اڑے ھوئے ہیں اور مستقبل کے بارے میں بھی ان کا یھی پروگرام ہے۔
وھابی، مسلمانوں کی بیداری سے اسی طرح ڈرتے ہیں جس طرح اسرائیل ان سے خوفزدہ ہے کیونکہ ان دونوں کا انجام انھیں کے خاتمہ سے جڑا ھوا ہے۔