www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آیت اللہ مکارم شیرازی: پاکستانی حکمران اگر شیعوں کی جان کی حفاظت نھیں کر سکتے تو استعفی دے دیں۔

آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے بھی آج مسجد اعظم میں فقہ کے درس خارج کے دوران پاکستان میں شیعوں کے قتل عام اور کراچی میں ھونے والے حالیہ بم دھماکوں کی شدید مذمت کی۔

انھوں نے اس حادثہ کو ایک عظیم سانحہ قرار دیا اور کھا: کچھ روز قبل کوئٹہ میں تکفیری وھابیوں نے ایک بھت بڑی خباثت انجام دی اور کتنے مسلمانوں کو خاک و خون میں رنگین کیا۔ اور اب کراچی میں ویسی حرکت کر کے دسیوں بے گناہ مظلوم شیعوں کو زندگی سے محروم کیا۔

انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ھوئے کہ ھم ان جرائم کے مقابلہ میں خاموش نھیں رہ سکتے اور ان کی مذمت کریں گے کہا کہ تمام مراجع تقلید اور حوزہ ھای علمیہ کے مسئولین  ۹مارچ سنیچر کے دن پورے حوزہ علمیہ میں چھٹی کر کے مسجد اعظم میں ایک عظیم احتجاجی اجتماع کریں گے اور اس واقعہ کی مذمت کریں گے۔

آیت اللہ مکارم شیرازی نے تاکید کی: پاکستانی حکومت کو ھمارا پیغام یہ ہے کہ اگر اپنے ملک کے شھریوں کی حفاظت نھیں کر سکتے تو حکومت کے عھدوں کو چھوڑ دیں اور اپنی پوسٹوں کو انھیں دے دیں جو اس کام کی توانائی رکھتے ہیں۔

حوزہ علمیہ کے برجستہ استاد نے اس بات کو بیان کرتے ھوئے کہ دنیا کے تمام شیعوں کو ان واقعات پر اعتراض کرنا چاھیے کہا: یہ کون سا طریقہ ہے کہ کچھ وحشی قسم کے لوگوں کو دنیا میں کھلا چھوڑ رکھا ہے جو جہاں چاھتے ہیں کوئی نہ کوئی درندگی وجود میں لاتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو خاک و خون میں لت پت کرتے ہیں۔

انہوں نے تاکید کی: اسلامی جمھوریہ ایران کو بھی ڈٹ کر اعتراض کرنا چاھیے اور اس طرح کے مسائل کے پاس سے چپکے سے نہیں گذر جانا چاھیے بلکہ شور مچانا چاھیے۔

آیت اللہ جوادی آملی: ھم سب پاکسانی شیعوں کے لیے عزادار ھیں

آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے پاکستانی شیعوں کے کشت و کشتار کی طرف اشارہ کرتے ھوئے ان واقعات کے سد باب کرنے پر تاکید کی۔

انھوں نے بھی مسجد اعظم میں اپنے درس تفسیر کے دوران سنیچر کے دن تمام مراجع و علماء کے ساتھ مسجد اعظم میں پاکستانی شیعوں کے ساتھ سوگ میں بیٹھنے کی تائید کی اور یہ کام بھت ضروری سمجھا اور کھا: ھم سب پاکستان کے مظلوم شیعوں کے ساتھ سوگوار اور عزادار ہیں۔

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے کہا: اس طرح کے واقعات کا سد باب کرنے کے لیے تین کام انجام دینا پڑیں گے:

پھلا یہ کہ شیعہ کلچر کو بغیر افراط و تفریط کے رائج کیا جائے۔ دوسرا یہ ہے کہ مجمع تقریب مذاھب کے سرپرست، وھابی، سلفی، طالبان اور القاعدہ کے علماء کے ساتھ گفتگو کریں اور ان کے ساتھ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے مذاکرات کریں۔

انھوں نے تیسرا کام اسلامی جمھوریہ ایران کی ذمہ داری قرار دیتے ھوئے کہا کہ ھر روز شیعہ کھیں نہ کہیں مارے جاتے ہیں یہ ایٹمی انرجی کے مسئلہ سے کم مسئلہ نہیں ہے ھمارے سیاسی عھدہ داروں کو چاھیے کہ مختلف طرح کی نشستیں جیسے پانچ جمع ایک، ایک جمع دو، دو جمع تین، وغیرہ منعقد کر کے ان واقعات کے بارے میں بھی بات کریں۔ اور دوسرے ممالک کے سیاستمداروں کو بھی ان مسائل میں دخیل کریں تاکہ کوئی سیاسی راہ حل پیدا ھو۔ کوئی ایسا دن نھیں گذرتا جس دن کسی نہ کسی کے قتل ھونے کی خبر نہ ملے۔

Add comment


Security code
Refresh