ایسا معلوم ھوتا ہے کہ خلیج فارس کے علاقے کے عرب ممالک صرف بیان جاری کرنے میں متحد ہیں، اور عمل میں
ھرایک کا الگ ساز بجاتا ہے اور اس مسئلہ کا علاقے میں رونما ھونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ان ممالک کے مختلف رویوں سے بخوبی مشاھدہ کیا جاسکتا ہے۔
العالم کی رپورٹ کے مطابق لندن سے شائع ھونے والے اخبار " العرب " کے جو انتھا پسند عرب حلقوں کا اخبار سمجھا جاتا ہے، اس بارے میں لکھا ہے کہ خلیج فارس کے علاقے کے بعض عرب ممالک کے حکام نے بیروت میں حزب اللہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل شیخ " نعیم قاسم " کے ساتھ ، لبنان میں قطر کے نئے سفیر " علی بن حمد المری " کی ملاقات پر تشویش کا اظھار کیا ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ قطر نے اس سے قبل حزب اللہ کے ساتھ ھر قسم کے رابطے کی تردید کی ہے لیکن شیخ " نعیم قاسم " کے ساتھ " المری " کی ملاقات نے اس رابطے کے حوالے سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
حزب اللہ لبنان کے پریس دفتر نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے، المری اور شیخ نعیم قاسم کی ملاقات میں لبنان کی صورت حال کا جائزہ لیا گيا ہے اور علاقائی قوموں کے مفادات کے تحفظ کے لئے مشرق وسطی کے علاقے کے بحرانوں کے پر امن حل اور عوام کی خدمت کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ لبنان کے سیاسی گروھوں اور جماعتوں کے درمیان تعاون کی ضرورت پر تاکید کی گئی ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ " سید حسن نصراللہ " نے بھی دو ھفتہ قبل لبنان میں قطر کے خصوصی ایلچی کے ساتھ ملاقات کی خبر دی تھی اور اعلان کیا تھا کہ قطر علاقے میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے گا۔ " سید حسن نصراللہ " نے اس بات کا ذکر کرتے ھوئے کہ قطر میں اقتدار کے ڈھانچے میں رونما ھونے والی تبدیلی کو دیکھتے ھوئے اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ قطر علاقے میں اپنی تمام پالیسیوں پر نظرثانی کرے گا، کھا تھا کہ پھلی مرتبہ اس بات کا اعلان کررھا ھوں کہ ھمارے ساتھ قطر کے رابطے گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں اور یہ رابطے کچھ اس طرح کے تھے کہ ایک فرد ھماری اور ایک فرد قطر کی طرف سے کچھ مدت کے فاصلے سے ملاقات کرتے رھتے تھے ، لیکن ھمارے و قطر کے درمیان بنیادی سیاسی اختلافات موجود رھے ہیں۔
سیاسی ماھرین کا کھنا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ قطر کے رابطے سے اب انکار نھیں کیا جاسکتا اور یہ امر خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان اختلافات کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ اس کونسل کے ارکان منجملہ قطر نے دھشتگرد گروھوں کی فھرست میں حزب اللہ کو شامل کرنے کی موافقت کی ہے۔
لندن سے شائع ھونے والے اخبار " العرب " نے اپنی رپورٹ میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا نام لیئے بغیر ان کے حوالے سے لکھا کہ قطر کے حزب اللہ کے رابطے کے آشکارہ ھونا ، قطر سے سعودی عرب کی ناراضگی کا باعث بنے گا، کیونکہ سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ قطر ، خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے اکثریتی فاصلوں کے برخلاف عمل کررھا ہے۔
جبکہ یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ قطر کے نئے امیر " تمیم بن حمد آل ثانی " نے کویت میں ھونے والے اجلاس میں اعلان کیا تھا کہ قطر، اپنے ملک کی خارجہ پالیسی اور خلیج فارس تعاون کونسل کی پالیسیوں میں تبدیلی کا خواھاں ہے۔
سعودی عرب نے یمن اور مصر میں قطر کی سرگرمیوں پر احتجاج کرتے ھوئے کوشش کی کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ قطر کے حالیہ رویہ کی کھل کر مذمت کریں اور اس کونسل میں قطر کی رکنیت کے حوالے سے اپنے فیصلوں میں نظرثانی کریں ، لیکن کویت کی ثالثی کی وجہ سے قطر و سعودی عرب کے تعلقات میں پیدا ھونے والی کشیدگی میں کچھ کمی واقع ھونا شروع ھوگئی ہے۔